اتنے دماغ اکٹھے ہوجائیں جیسے ہماری موجودہ اتحادی حکومت کی کابینہ میں ہیں‘ جو دنیا کی یا کم از کم ہماری تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ ہے‘تو یہ کھوج لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ آخر ان قوانین‘ فیصلوں کے پیچھے کون ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومتیں دہشت گردی کو ختم کریں‘ ملکی معیشت کو گراوٹ سے بچانے کی کوئی تدبیر کریں‘ مگر وہ اداروں کی خود مختاری پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ اس وقت سب کی بات کرنے کی اس صفحہ پر گنجائش نہیں‘ مگر ہائر ایجوکیشن کے ساتھ جو ہو چکا ہے‘ اور جو ہونے جا رہا ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو اداروں کی قطعاً پروا نہیں۔ نصف صدی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کھپانے کے بعد دعویٰ تو نہیں کہ درویش سب کچھ جانتا ہے‘ مگر جس طرح ملک کو بنتے بگڑتے دیکھا ہے‘ اسی طرح اس کمیشن کی ابتدا‘ عروج اور اس پر سیاسی یلغار کوبھی دیکھا ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں معیار قائم رکھنے‘ قانون اور قواعد کے مطابق چلانے اور جامعات کو ضروری فنڈز مہیا کرنے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس قومی ادارے کو نوکر شاہی کے چنگل سے آزاد رکھنے کے لیے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اور پھر پرویز مشرف صاحب کی حکومت نے اوائل سے ہی کمیشن کو مالی اور انتظامی طور پر مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی کی اور تاریخ میں سب سے زیادہ وسائل فراہم کیے۔ یہ ذمہ داری سید بابر علی اور پروفیسر شمس لاکھا کے سپرد کی گئی۔ ان کی رپورٹ کے نتیجے میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا صرف نام ہی تبدیل نہ ہوا بلکہ اس کے فرائض‘ فعالیت اور اختیارات کا بھی نئے سرے سے احاطہ کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اعلیٰ تعلیم کو انحطاط‘ جمود اور وسائل کی کمی جیسے مسائل سے کیسے بچایا جائے۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جب جمہوریت کا انتقام زوروں پر تھا اور دو بڑی سیاسی جماعتیں وہی کررہی تھیں جو آج کل دیکھ رہے ہیں کہ مخالفین کو جیلوں میں کیسے بند رکھا جائے‘ تہہ خانوں کے منہ کیسے بھرے جائیں‘ تو اس وقت پورے ملک میں صرف چھیالیس جامعات تھیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ اور طالبات کی تعداد دو لاکھ چھیاسی ہزار تھی اور خواتین کی جامعات میں تعداد ایک تہائی سے بھی کم تھی۔ ملک میں پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والے اساتذہ اور سائنسی تحقیقی اداروں میں کام کرنے والوں کی کل تعداد فقط تین ہزار تھی۔
رواں صدی کے اوائل میں دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں زبردست سرمایہ کاری کررکھی تھی‘ وہ علمی معیشت کے میدان میں قدم جماچکے تھے۔ علم کے پھیلائو اور ٹیکنالوجی نے ان کی معیشت کو ترقی دی۔ 'اسلامی سوشلزم‘ نے ہمارے ہاں جو تباہی مچائی تھی‘ ضیا دور میں ہم اس سے کچھ حد تک نکل چکے تھے مگر پھر افغانستان میں ہونے والی سرد جنگ نے ہمیں آن لیا۔ جمہوریت بحال ہوئی تو حکمران سیاسی گھرانوں اور اُن پردستِ شفقت رکھنے والوں نے ہمیں ایک طویل سیاسی جنگ میں دھکیل دیا۔ 2002 ء میں جب کئی شعبوں میں تعمیرِ نو کا آغاز ہوا تو ملک اور نوجوان نسل کے مستقبل کا درد رکھنے والوں نے اعلیٰ تعلیم میں انقلابی تبدیلیوں پر زور دینا شروع کیا۔ 2002 ء میں جب ہائر ایجوکیشن کا ادارہ قائم ہوا تو تین مقاصد اس کے پیش نظر تھے۔ پہلا‘ جامعات میں معیارِ تعلیم بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظائف دینا۔ دوسرا‘عام‘ غریب اور متوسط طبقے کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم تک رسائی آسان بنانا اور تیسرا‘ جامعات کو مناسب وسائل مہیا کرنا۔ ڈاکٹر عطاالرحمن اور ڈاکٹر سہیل نقوی کی ترجیحات اور کچھ فیصلوں پر تنقید تو کی جاسکتی ہے مگر اعلیٰ تعلیم کے میدان میں انہوں نے جس تندہی اور محنت سے کام کیا‘ اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ ان کے بعد آنے والوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا جن میں موجودہ چیئرمین ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر مختار احمد‘ جو پہلے بھی چیئرمین رہ چکے ہیں اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ سہیل ہیں۔ سب سے خوش کن بات یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواتین کی تعداد گزشتہ بیس برسوں کے دوران دگنی ہوکرچھیالیس فیصد ہو گئی ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کہ جامعات کی تعداد بڑھائی گئی‘ جواَب دوسو چھیالیس ہیں۔ گجرات اور سرگودھا کی جامعات میں تو خواتین کی تعداد لڑکوں کے برابر‘ بلکہ کبھی کبھار تو ان سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ میں زیادہ تر جامعات‘ کم از کم ہر ضلع کی سطح پر ایک کے حق میں ہوں۔ ہمارے ہم پیشہ حضرات معیار کے گرنے کی بات کرتے ہیں۔ گزارش ہے کہ پہلے تعلیمی ادارے تو بنائیں‘ ساتھ رہائشی عمارتیں بھی بنیں۔ اچھے اساتذہ بھرتی کریں تو بتدریج معیار بہتر ہوسکتا ہے۔
ہائر ایجوکیشن نے داخلی اور بیرونی وظائف دیے تو اب ملک میں 2002ء کی نسبت پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل اساتذہ اور محققین کی تعداد نو گنا بڑھ کر26674ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تعداد مختلف علوم میں ہے۔ معیار بھی یکساں نہیں ہوگا اور نہ ایسا پاکستان یا کسی بھی ملک میں ممکن ہے؛ تاہم ہماری تاریخ کے تناظر میں یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ بیس سال پہلے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعداد صرف دو لاکھ چھ ہزار تھی‘ آج بیس لاکھ چوبیس ہزار کے قریب ہے۔ اس تعداد کو بہت زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے لیے مزید وسائل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خود مختار رکھنے کی ضرورت ہے۔
مشرف کا دور ختم ہونے کے بعد اٹھارہویں ترمیم‘ جس کا چرچا ابھی تک ہے‘ کے تحت تعلیم کو صوبوں کے سپرد کردیا گیا۔ سندھ اور پنجاب نے اپنے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا کر تباہی کا جو آغاز کیا تھا‘ اس کے نتائج سرکاری جامعات بھگت رہی ہیں۔ اب ہر چیز صوبائی نوکر شاہی کے قبضے میں آچکی ہے۔ جامعات کے سنڈیکیٹ جو کسی زمانے میں اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے تھے‘ ان میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو لگا کر ماہرینِ تعلیم کو کونے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ وائس چانسلرز چیخ رہے ہیں کہ وہ کوئی کام نہیں کرسکتے جب تک صوبائی نوکر شاہی کی تائید شامل نہ ہو۔ وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات پہلے ہی کم کردیے گئے‘ مگر اب اس پر بھر پور حملے کی قانونی تیاری ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ایک سابق چیئرمین سے ناراض ہوئی تو جلد بازی میں قانون بنا کر اسے ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ تیرہ جماعتی اتحادی بھی چیئرمین کی مدت ملازمت صرف دو سال رکھنے پر مصر ہیں۔ ان کے سامنے جو قانون کا مسودہ ہے‘ اس کے مطابق کمیشن کو وزارتِ تعلیم کے سپرد کردیا جائے گا۔ چونکہ حکومت صرف اسلام آباد تک محدود ہے‘ تو بادشاہت کی حدود کو پھیلانے کے لیے انہیں ہائر ایجوکیشن اور اس کے ماتحت چلنے والے بیسیوں تحقیقی ادارے جو جامعات میں کام کرتے نظر آئے ہیں‘ انہیں تختۂ مشق بنایا جارہا ہے۔ حضور والا! اور بہت سے سیاسی اور ترقیاتی کام کرنے کے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کو براہ کرم تعلیمی ماہرین پر ہی چھوڑ دیں۔ کمیشن کی خود مختاری پرڈاکا نہ ڈالیں۔ آپ کے پاس اور بہت کچھ ہے۔ طبع آزمائی کے لیے جگہوں کی کمی نہیں۔ تعلیم کو تختہ مشق نہ ہی بنائیں تو بہتر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved