پرویز مشرف بھی رخصت ہوئے۔ ان کے انتقال کی افسوسناک خبر سنتے ہی ان کے نو سالہ دور کے سبھی مناظر یاد آتے چلے گئے۔ کس ڈرامائی انداز سے وہ برسر اقتدار آئے اوراپنا سکہ جمانے اور چلانے کے لیے کیسے کیسے جتن اور تدابیر کیں۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا‘ڈو مور کے امریکی مطالبے پر بھی عمل کیا‘ جس کے اثرات کسی نہ کسی طرح آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔نائن الیون کے بعد کڑے چیلنجز اور کڑی آزمائشوں کا نیا دور شروع ہوا تو دہشت گردی کے واقعات نے نہ صرف ہمارا گھر دیکھ لیا بلکہ اندرونی انتشار کے نت نئے فتنے بھی پھوٹنا شروع ہوگئے؛ تاہم دلیری اور معاملہ فہمی سے انہوں نے بڑھتے ہوئے امریکی مطالبے اور ملکی ترجیحات میں جو توازن قائم کیا یہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔
پرائی جنگ اور داخلی مسائل میں الجھنے کے باوجود ان کے دور میں معاشی سرگرمیوں میں غیر معمولی حرکت بھی دیکھنے میں آئی‘ بالخصوص ریئل اسٹیٹ اور صنعتی شعبے میں جو گراں قدر ترقی ہوئی اس سے نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے‘جس کا کریڈٹ بھی پرویز مشرف ہی کو جاتا ہے۔ان کے دورِ حکومت میں روپے کی قدر مستحکم رہی اور ڈالر 60روپے کی سطح پر برقرار رہاجبکہ اس پورے دور میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام رہا جو آج کے حکمرانوں کے لیے ایک مثال ہے۔ اگرتعلیم کے حوالے سے بات کریں تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام مشرف دور کی ایک اہم پیش رفت تھی جس کا مقصد ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر اعلیٰ تعلیم میں تبدیلیاں لے کر آناتھا۔ہائر ایجو کیشن کمیشن نے طالب علموں کو بڑے پیمانے پر دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لیے وظائف دیے‘ جبکہ نجی اور سرکاری سیکٹر میں نئی یونیورسٹیوں کا قیام بھی اُس دور کی ایک بڑی پیش رفت تھی۔ اس طرح نجی شعبے میں سینکڑوں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں جن سے نہ صرف حصول تعلیم کے مواقع میں اضافہ ہوا بلکہ ایک بڑی تعدادمیں لوگوں کا روزگار بھی ملا۔
خارجی محاذ پر غیر ملکی دورے ہوں یا دیگر معاملات‘ بھارت کا دورہ ہو یا دوست ممالک سے مراسم‘ باڈی لینگویج سے لے کر زبان و بیان تک وقار اور اعتماد پرویز مشرف کی شخصیت کا خاصہ رہا ہے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے پرویز مشرف ملکی و غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے بے لاگ گفتگو اور ترکی بہ ترکی جواب دینے کی شہرت رکھتے تھے اور تنقیدی سوالات توجہ اور بڑے غور سے سننے کے بعد ان کا تفصیلی جواب دیتے تھے۔
بنیادی جمہوریت کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے صدر پرویز مشرف نے یونین کونسل سے لے کر ضلعی سطح تک عوامی نمائندوں کو بااختیار بنایا۔تقریباً 9سالہ اقتدار کے دوران پرویز مشرف نے اپنے وعدے کے مطابق دی ہوئی تاریخوں پر دو مرتبہ عام انتخابات اور دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات کروا کر جمہوری عمل کو دوام بخشا جبکہ شریف برادران ہوں یا عمران خان‘ دونوں ہی جمہوریت کے داعی ہونے کے باوجود بنیادی جمہوریت سے خائف رہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بادلِ نخواستہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانے والے شریف برادران طویل عرصے تک انہیں ٹالتے ہی رہے۔ لولی لنگڑی اور بے اختیار بنیادی جمہوریت کے ادارے بنا تو ڈالے لیکن عمران خان نے برسر اقتدار آتے ہی ان اداروں کو مستحکم کرنے کے بجائے تحلیل ہی کیے رکھا؛ تاہم پرویز مشرف کو یہ کریڈٹ ضرور رجاتا ہے کہ انہوں نے نہ کبھی عام انتخابات سے راہِ فرار اختیار کی اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات سے۔ ان کے ناقدین بھی یہ اعتراف برملا کرتے ہیں کہ مشرف دور کے بلدیاتی ادارے پاکستان کی تاریخ کے بااختیار اور مستحکم ترین ثابت ہوئے ہیں اس کے برعکس دیگر ادوار میں بلدیاتی ادارے صوبائی حکومتوں کی کٹھ پتلی بنے رہے۔پرویز مشرف کو ایک اور بڑا کریڈٹ یہ بھی جاتا ہے کہ پاکستان میں الیکٹرنک میڈیا کی بنیاد اور فروغ کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جس میڈیا کلچر کے وہ خود سب سے بڑے وکیل تھے چند سال بعد ہی وہی ان کی طرزِ حکمرانی‘ فیصلوں اور اقدامات کا جج بن گیا تھا۔
پرویز مشرف کی قوتِ فیصلہ اور جرأت انہیں دیگر حکمرانوں سے نہ صرف ممتاز کرتی ہے بلکہ بجا طو رپر کہا جا سکتا ہے کہ اگر انہیں شیروانی اور ریفرنڈم کی دلدل میں نہ دھکیلا جاتا تو شاید وہ کالا باغ ڈیم سمیت ایسے تاریخ ساز کام ضرور کر جاتے جو وقت اور قوم کی ضرورت تھی۔ مشرف جیسے مضبوط اعصاب اور قوتِ فیصلہ سے مالامال شخصیت کوبھی کچھ مفاد پرستوں نے گرفت میں لے لیا جو ان سے پہلے بھی کئی دہائیوں سے قومی وسائل پر پل رہے تھے۔ کسی نے اوٹ پٹانگ مشوروں سے اپنی اُلو سیدھا کیا‘ کسی نے سو بار وردی میں صدر منتخب کروانے کا جھانسا دیا۔مشرف صاحب کی اعتبار کرنے کی عادت اردگرد اکٹھا ہونے والے سیاستدانوں کے لیے نعمت ثابت ہوتی رہی۔ ضرورتوں اور شوق حکمرانی کے مارے سر سہلاتے اور بھیجا کھاتے رہے۔ کوئی پارٹیاں بدل کر دن بدلنے آن پہنچاتو کوئی لیڈر سے بغاوت کے بعد خو دہی لیڈر بن بیٹھا۔ کوئی کرتوتوں کا آئینہ دیکھ کر مجبور ہو گیا تو کوئی فائلوں میں چھپے نامۂ اعمال دیکھ کر گھٹنے ٹیک گیا۔ الغرض سبھی اپنی اپنی مجبوریوں اور ضرورتوں کی دلالی پر آمادہ اور شاداں ہونے کے علاوہ ایک ایک کر کے مفادات کے جھنڈے تلے جمع ہوتے چلے گئے۔
عمران خان کی قیادت میں بیرونی مداخلت اور سازش کا چورن بیچنے والوں نے مشرف دور میں شوکت عزیز کی آمد پر اعتراض کیا اور نہ ہی انہیں وزیر اعظم بنانے کے فیصلے پر بلکہ انہیں انتخابی حلقہ فراہم کرنے سے لیکر ان کے کاغذاتِ نامزدگی باجماعت جمع کروانے والوں میں کس کس کا نام لوں۔ آج عمران خان کے اردگرد بیرونی مداخلت اور سازش کا ڈھول بجانے والے سبھی اپنے اپنے ماضی پر غور کرنے کے بجائے حال سنوارنے کے جتن کرتے نظر آتے ہیں۔ ان سبھی نے ضرورت مندوں نے ایسی دھمال ڈالی کہ مشرف بھی سر دھننے لگے۔ مفاد پرستوں نے کب کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہے؟ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بگڑتے حالات اور الٹتی ہوئی بساط کے نتیجے میں پرویز مشرف ایوانِ صدر سے کیا نکلے کہ ان کی قیادت پر نازاں اور ان پر واری واری جانے والے ایک ایک کر کے سبھی موقع پرست بھی ادھر اُدھر کھسک گئے۔ اقتدار کی لت میں لت پت کوئی لیڈر اور پارٹی بدل کر تو کوئی حلیف بدل کر مشرف صاحب سے نظریں بدلتا نظر آیا۔ دیارِ غیر میں وہ موذی مرض کی اذیت اور وطن سے دوری کی بے بسی سے دوچار رہے اور ان کے سبھی بینیفشری پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ یہ سبھی ضرورت مند سدا کے سمجھدار اور کاریگر ٹھہرے۔ مشرف ہی انہیں سمجھ نہ پائے۔
اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کا گٹھ جوڑ تباہی اور بربادی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اور عوام نے دس سال شریف برادران اور زرداری طرزِ حکمرانی کا سامنا کیا۔کاش ! پرویز مشرف بیرونی دباؤ پر این آراو دینے پر مجبور نہ ہوتے اور شاید وطن عزیز کا منظر نامہ اس قدر بھیانک اور تشویشناک نہ ہوتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved