ٹال مٹول اول تا آخر خرابی کا معاملہ ہے۔ کسی فرد کو ٹالیے یا کسی کام کو‘ نتیجہ کسی نہ کسی درجے میں محض خرابی ہی کا حامل ہوگا۔ پھر بھی ٹال مٹول کا کلچر ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ کیوں؟ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ بادی النظر میں ٹال مٹول اس تصور کے ساتھ اپنایا جانے والا رجحان ہے کہ فی الوقت کچھ نہ کرنا پڑے‘ بعد کی بعد میں دیکھ لیں گے۔ یہ ''بعد‘‘ بہت ستم ظریف ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور ''بعد‘‘ آنے کا نام نہیں لیتا۔ بیشتر اِسی بھول بھلیاں میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ ٹال مٹول کی عادت مسائل کی جڑ اور خرابیوں کا گڑھ ہے۔ یہ ایک عادت بیسیوں معاملات کو شدید خرابی کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہم زندگی بھر جن مسائل سے نبرد آزما رہتے ہیں اُن کا بڑا حصہ ٹال مٹول کی عادت کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ ٹال مٹول یعنی کام، معاملات اور ذمہ داری کو ٹالتے رہنے کی عادت ہمیں زندگی بھر الجھنوں سے دوچار رکھتی ہے۔
ہر دور کے ماہرین ٹال مٹول کی عادت کے شدید منفی اثرات کے حوالے سے تحقیق کرتے آئے ہیں۔ یہ تحقیق آج بھی جاری ہے۔ عمرانیات کے ماہرین اس تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور ٹال مٹول کی عادت سے چھٹکارا پانے کی کوئی شاہ کلید مل جائے۔ بہت کچھ ہے جو انسان کو ٹال مٹول کی طرف دھکیلتا رہتا ہے۔ ہر طرح کے ماحول میں ایسے بہت سے عوامل پائے جاتے ہیں جو انسان کو اس بات پر اُکساتے رہتے ہیں کہ وہ کام کو ٹالے بلکہ ٹالتا رہے۔ ٹال مٹول کی عادت بہت سے عوامل اور حالات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ کسی بھی بُری عادت کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا مگر توضیح و توجیہ تو کی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی معاملہ بلا سبب اور بلا جواز نہیں ہوتا۔ بعض اوقات معاملات ایسی شکل اختیار کرلیتے ہیں کہ انسان کا ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے اور اُس کی سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ صورتِ حال کی نزاکت کے مطابق عمل کی راہ پر گامزن ہو یا محض تماشا دیکھتے رہنے کو ترجیح دے۔ ٹال مٹول کے لیے کسی بھی طور کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا؛ تاہم اِسے سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ٹال مٹول کی عادت آپ کو کن پریشانیوں سے دوچار کرتی ہے؟ اس سے نیند بھی خراب ہوتی ہے اور تنہائی کا احساس بھی بڑھتا ہے۔ نیند اس لیے خراب ہوتی ہے کہ جب کسی کام کو ٹالا جاتا ہے تو وہ ذہن پر سوار رہتا ہے۔ ذہن الجھا ہوا ہو تو انسان میٹھی‘ پُرسکون نیند کے مزے لے ہی نہیں سکتا۔ جب کوئی کام اٹکا ہوا ہو تو ذہن کو یوں گھیرے رہتا ہے کہ کچھ کھو جانے کا احساس ستاتا رہتا ہے۔ یہی کیفیت تنہائی کے احساس کو بڑھاوا دیتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں ڈپریشن بڑھتا ہے۔ سٹاک ہوم یونیورسٹی (سویڈن) کے محققین نے آٹھ جامعات کے ماہرین اور طلبہ کی مدد سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ٹال مٹول کی عادت زندگی کا ڈھانچا ہی بدل دیتی ہے؛ یعنی اسے بگاڑ کر دم لیتی ہے۔ تحقیق میں حصہ لینے والے 50 فیصد طلبہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ ٹال مٹول سے اُن کی تعلیم بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ جب تعلیم متاثر ہوگی تو کیریئر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ جب کوئی اپنی تعلیم ڈھنگ سے جاری نہیں رکھ پاتا اور کیریئر کے حوالے سے کمزور امکانات کی طرف بڑھتا ہے تو شخصیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ محض ایک خرابی کتنی ہی خرابیوں کو ابھرنے پر اُکساتی چلی جاتی ہے۔ تعلیم میں پڑنے والا رخنہ چونکہ عملی زندگی کے لیے امکانات محدود اور کمزور کردیتا ہے اس لیے اعتماد میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اعتماد میں کمی سے بہت کچھ بگڑ جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ٹال مٹول کی عادت ایک زمانے سے عمومی مزاج کا حصہ ہے۔ لوگ اس بُری عادت کے اس حد تک شکار ہیں کہ اب اِسے بُرا سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ معاشی عمل سمیت بہت سے معاملات کو ٹالتے رہنے ہی میں دل کا سکون محسوس کرنے لگے ہیں۔ نفسی ساخت میں یہ بات گویا ٹھنس گئی ہے کہ کام کو ٹالتے رہیے تو زندگی متوازن رہے گی، عمل سے دوری ممکن ہوگی تو زیادہ آرام ملے گا۔ اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت گوارا کرنے والے معدودے چند ہیں کہ آرام کرنے کا اصل مزا تھکنے کی صورت میں ہے۔ تھکن ہی نہ ہو تو کیسا آرام اور کیسا سکون؟ انسان ٹال مٹول کی طرف کب جاتا ہے؟ کیا یہ تربیت کا نتیجہ ہے؟ یا انسان مزاجاً ایسا ہی واقع ہوا ہے؟ یہ ملا جلا معاملہ ہے۔ بہت سے عوامل اجتماعی تفاعل سے انسان کو ٹال مٹول کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ماحول کی ہماہمی انہماک کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں انسان کسی ایک معاملے پر کماحقہٗ توجہ مرکوز رکھنے میں ناکام رہتا ہے۔ فی زمانہ میڈیا اور سوشل میڈیا نے قیامت سی ڈھا رکھی ہے۔ حواس پر حملے رُکنے کا نام نہیں لے رہے۔ ہر انسان الجھا ہوا ہے۔ بعض معاملات میں انسان خود کو الجھن سے بچانے کے معاملے میں بالکل بے بس محسوس کرتا ہے۔ جب حواس پر دباؤ بڑھتا ہے تب انسان کے لیے کسی ایک یا چند معاملات پر توجہ مرکوز رکھنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ٹال مٹول کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان جب کام کو ٹالتا ہے تب وقتی طور پر تھوڑی سی تسکین کا سامان ہوتا ہے۔ یہ تسکین انسان کو بہت اچھی لگتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اِسی کے ہاتھوں بگاڑ پیدا ہوتا اور بڑھتا ہے۔ یہ بہت حد تک نفسی ساخت کا مسئلہ ہے۔ انسان کو اس حوالے سے غیر معمولی کونسلنگ یعنی ماہرین سے مشاورت کی ضرورت پڑتی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ مشاورت سے بھاگتے ہیں۔ ماہرین سے گفتگو کے ذریعے وہ اپنی بہت سی مشکلات کا بہتر حال تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں مگر ایسا اس لیے نہیں ہو پاتا کہ ہمارے ہاں ماہرانہ رائے قبول کرنے کا کلچر اب تک پروان نہیں چڑھ سکا۔
ٹال مٹول کی عادت سے جان چھڑانے کے سلسلے میں اولین اور ناگزیر ضرورت تو قوتِ ارادی ہے۔ جب تک انسان فیصلہ نہیں کرتا تب تک تو کچھ نہیں کرسکتا۔ فیصلہ کرنے کے بعد بھی عمل کی طرف جانا اور فیصلے پر قائم رہنا ناگزیر ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات ہوتا ہے نہ آسانی سے۔ اگر کسی کو اس حوالے سے بنیادی تربیت دی ہی نہیں گئی تو اُسے غیر معمولی ضبطِ نفس کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ ماہرین سے مشاورت کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ کسی بھی پس ماندہ معاشرے کو اپنی خرابیوں سے چھٹکارا پانے پر متوجہ ہونا ہی چاہیے۔ ایسا کیے بغیر ترقی تو کیا‘ بقا بھی ممکن نہیں ہو پاتی۔ آج ہمارے معاشرے کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں سطح پر پائی جانے والی خرابیوں کو اپنے وجود سے دور کرنے پر متوجہ ہو۔ یہ کام محنت طلب بھی ہے اور صبر آزما بھی۔ جب پورے معاشرے میں خرابیاں پائی جارہی ہوں تب اصلاحِ احوال کے لیے زیادہ تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہی معاملہ ہے۔ ہمیں ایک طرف تو اصلاحِ احوال کا فیصلہ کرنا ہے اور پھر اُس پر قائم بھی کرنا ہے۔ ثابت قدم رہے بغیر ہم اپنے لیے نئی راہیں نکال نہیں سکتے۔
معاملات کو بروقت نمٹانے سے گریز ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ محض ٹالتے رہنے سے بھی کام ہو جاتے ہیں۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا تو پھر ہمارے ہاں کیوں ہونے لگا! کام سے محبت کا کلچر عام کے بغیر ہم اپنے آپ کو بقا و ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکتے۔ کام سے رغبت پیدا کرنے کے لیے ٹال مٹول کی عادت سے چھٹکارا پانا ناگزیر ہے۔ اِس کے لیے نفسی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ماہرین سے مشاورت بھی کی جاسکتی ہے اور اپنے بنیادی حلقوں سے بھی تھوڑی بہت مدد لی جاسکتی ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ٹال مٹول کی عادت انسان کو رفتہ رفتہ کام کی رغبت سے مکمل محروم کردیتی ہے۔ اِس مقام تک پہنچنے کے بعد فرد اور معاشرہ‘ دونوں ہی شدید انحطاط کا شکار ہوتے ہیں۔ وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ ایسے میں معاملات کو ٹالنے سے گریز کی عادت اپنانے میں ٹال مٹول کی کوئی گنجائش نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved