جب پرتگیزی‘ ولندیزی‘ہسپانوی‘ فرانسیسی اور برطانوی‘ بحری جہازوں میں سوار ہو کر کرۂ ارض کا تیا پانچہ کر رہے تھے‘ مسلمان‘ اُس وقت‘ کہاں تھے؟ ترکوں کی بحریہ کا غلغلہ تھا۔ خیرالدین بار بروسہ سلطنتِ عثمانیہ کا امیر البحر تھا۔ اس کے زمانے میں بحیرہ روم کو ترکوں کی جھیل کہا جاتا تھا۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ باربروسہ نے کوئی مہم کیوں نہ بھیجی جو نئی دریافتیں کرتی ؟ یہ کام یورپ ہی نے کیوں کیا؟ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ امریکہ اور جنوبی امریکہ‘ یہ سارے علاقے یورپ کے جہازرانوں نے ڈھونڈے اور اپنے اپنے ملک کے جھنڈے وہاں لہرائے۔ جہازرانی بھی تھی۔ ان کے پاس نئے ہتھیار بھی تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جذبہ بھی تھا۔ فرانسیسی جب پانڈی چری میں آئے تو ان کے پاس جدید ترین بندوقیں تھیں۔ چند سو فرانسیسی ہزاروں ہندوستانیوں کے لیے کافی تھے۔ ایک عرصہ تک ہندوستانی نواب‘ راجے مہاراجے‘ ان فرانسیسیوں کو کرائے پر لیتے رہے اور اپنے مقامی حریفوں کوشکست دیتے رہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے دنیا ان یورپی طاقتوں کے قدموں میں ڈھیر کر دی۔ رہے ہمارے مغل بادشاہ‘ تو ان میں سے اکثر نے تو سمندر دیکھا ہی نہ تھا! کسی کے بھیجے میں یہ خیال نہ آیا کہ بحری بیڑا تیار کریں۔ نئی دنیائیں تو کیا تلاش کرتے‘ جو کچھ حاصل تھا‘ اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے! ان کی ذہنی پرواز تختِ طاؤس سے اوپر نہ جا سکی !
بڑے بڑے مشہور ملکوں کے علاوہ لاتعداد جزیرے بھی انہی یورپی طاقتوں نے دریافت کیے! وَینو آتو میں بھی ( جس کا تفصیلی تعارف کل کے کالم میں پیش کیا تھا) سب سے پہلے ایک پرتگیزی جہازران1606ء میں اترا۔انیسویں صدی کے اواخر میں فرانس اور برطانیہ‘ دونوں یہاں پہنچ گئے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے لگے۔ جب ہار‘ دونوں میں سے کسی نے بھی نہ مانی تو دونوں کے درمیان معاہدہ ہوا کہ ان سیاہ فاموں کے وسائل کو مل بیٹھ کر کھائیں ! یوں ایک متحدہ انتظامیہ وجود میں آئی۔ اس اثنا میں انہیں صندل کے جنگلات مل گئے۔ چین میں صندل کی لکڑی بہت مہنگی بکتی تھی۔ اس کے بدلے میں چین سے چائے مل جاتی تھی۔ ان ظالموں نے صندل کے جنگلات ختم کر دیے۔ پھر آسٹریلیا اور فجی وغیرہ نے شجر کاری (پلانٹیشن ) کے لیے وینو آتو سے افرادی قوت منگوانا شروع کی۔ نصف آبادی اس مزدوری پر چلی گئی۔ وہاں انہیں بُرے حالات میں رکھا گیا۔ بیماریاں پھوٹ پڑیں۔ بہت لوگ مر گئے۔ یوں آبادی کم ہو گئی۔ دوسری طرف فرانس اور برطانیہ سے جاگیردار آتے رہے۔ زمینیں بھی چھین لیں ! تجارت بھی! دوسری جنگ عظیم میں فرانس نے جرمنی سے شکست کھائی تو وَینو آتومیں بھی فرانس کا زور گھٹ گیا۔ جاپانیوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے پچاس ہزار امریکی بھی وَینو آتو میں پہنچ گئے۔ انہوں نے سڑکیں‘ پل اور عمارتیں بنا ڈالیں۔ یہ یورپی مالکوں کی نسبت کھلے ڈلے اور فراخ دل تھے۔ امریکی فوج میں سیاہ فام سپاہی بھی تھے۔ ان کی وجہ سے امریکی مقامی لوگوں کے ساتھ نرم برتاؤ رکھتے!! جنگ ختم ہوئی تو امریکی چلے گئے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا‘ مشترکہ برطانوی اور فرانسیسی انتظامیہ‘ مقامی لوگوں کو کچھ کچھ اختیارات منتقل کرنے لگی۔پھر تحریک آزادی چلی۔
1980ء میں وینو آتو آزاد ہو گیا۔ ملک میں پارلیمانی جمہوری حکومت قائم ہو گئی۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد باون ہے! فوج کا کوئی وجود نہیں۔ پانچ چھ سو پولیس افسر اور اہلکار ہیں جن سے کام چل رہا ہے۔ دفاع پر اخراجات کی رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔وینو آتو ٹیکس کے اعتبار سے جنت ہے۔ انکم ٹیکس ہے نہ ودہولڈنگ( withholding)ٹیکس۔ وراثت کے انتقال پر بھی کوئی ٹیکس نہیں۔وینو آتو کا پاسپورٹ ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر میں خریدا جا سکتا ہے۔ اس پاسپورٹ کو پورے یورپ میں ویزے کی ضرورت نہیں! چینی دھڑا دھڑ یہ پاسپورٹ خرید رہے ہیں۔ ملک کی آمدنی کا تیس فیصد حصہ پاسپورٹ کی فروخت ہی سے حاصل ہو رہا ہے۔ گزشتہ پاکستانی حکومت ختم ہوئی تو ایک معروف خاتون‘ خصوصی جہاز میں بیٹھ کر پاکستان سے باہر چلی گئی جو تا دم تحریر باہر ہی ہے۔ اس کے بارے میں یہ خبر چھپی تھی کہ اس کے پاس وینو آتو کی شہریت ہے۔ وینو آتو کا نام غیر معروف ہے اس لیے اس خبر کو نوٹ نہیں کیا گیا! اب اندازہ ہوا ہے کہ خاتون نے فیصلے کتنی ''دور اندیشی‘‘ سے کیے تھے!
وینو آتو کی آبادی کا نوے فیصد حصہ مچھلیاں پکڑتا ہے اور مچھلی کھاتا ہے۔ ناریل کی پیداوار بڑھانے کے لیے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں۔ قومی زبان یہاں کی '' بِسلامہ‘‘ ہے۔ سرکاری زبانیں انگریزی اور فرانسیسی ہیں۔آبادی کی غالب اکثریت مسیحی ہے۔ وَینو آتو جانا ہو تو بہترین مہینے جون سے نومبر تک ہیں۔ دسمبر میں بارشیں شروع ہو جاتی ہیں جو اپریل تک رہتی ہیں۔ ان بارشوں کے درمیان گرمی عروج پر ہوتی ہے اور طوفان بہت آتے ہیں۔ مگر جو حالتِ زار اس وقت پاکستانی کرنسی کی ہے اس میں کہیں آنا جانا‘ایک عام پاکستانی کے لیے بہت زیادہ مشکل ہے۔ ہاں کوئی لے جائے تو اور بات ہے۔ آسٹریلیا میں پاکستان اور بھارت سے جو والدین آتے ہیں ان کے بچے انہیں‘ اکثر و بیشتر‘ قریب کے ملکوں میں سیر کے لیے لے جاتے ہیں جیسے نیوزی لینڈ‘ بالی‘ وَینو آتو اور فجی! اور یہ والدین ہزاروں کی تعداد میں ہیں !
پاکستانی پاسپورٹ کی طرح پاکستانی کرنسی بھی سراسر شرمندگی کا سامان ہے۔ ڈالر نے پاکستانی روپے کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کر رہا ہے۔ لالچی افراد نے ڈالروں کا ذخیرہ کر لیا ہے۔ ان افراد میں اہلِ سیاست کثیر تعداد میں شامل ہیں۔معیشت کے اس اندھے غار سے جب پاکستانی دیکھتے ہیں کہ ان کے لیڈر لندن میں کیسے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں‘ کس طرح سرجری‘ لندن میں رہتے ہوئے بھی‘ سوئٹزر لینڈ سے کراتے ہیں‘ کس طرح دبئی کے چکر لگاتے ہیں اور کس طرح چارٹرڈ جہازوں پراُڑے پھرتے ہیں تو ان کے دل نفرت سے بھر جاتے ہیں۔ بے بسی اور بیچارگی ان پر غالب آجاتی ہے۔ کئی سیاست دانوں کے خاندان امریکہ اور کینیڈا میں رہتے ہیں جبکہ وہ سیاسی کھیل پاکستان میں کھیلتے ہیں! ان میں پنجاب اور کراچی کے سیاستدان شامل ہیں! یوں لگتا ہے جیسے پاکستان ایک چراگاہ ہے۔ ایک شکارگاہ ہے۔ یہاں پیٹ بھر کراور شکار کر کے شکاری باہر چلے جاتے ہیں جہاں وہ دادِ عیش دیتے ہیں! یہ بھی استعمار ہی کا ایک رنگ ہے۔ ہم عام پاکستانی‘ وَینو آتو کے سیاہ فام باشندوں کی طرح ہیں۔ زرداری‘ شریف‘ چودھری اور خان‘ اُن فرانسیسیوں اور برطانویوں کی طرح ہیں جو فرانس اور برطانیہ سے آکر مال سمیٹ کر واپس چلے جاتے تھے! کیا خوب تماشا ہے۔حکومت کرنے کے لیے اور مال بنانے کے لیے پاکستان اور رہنے کے لیے لندن‘ دبئی‘ لاس اینجلس‘ ہیوسٹن‘ واشنگٹن اور ٹورنٹو!! انگریز کے دو اڑھائی سو سالہ دور میں یہی کچھ تو ہوتا رہا۔ کلائیو اور اس جیسے دوسرے لٹیرے یہی کچھ تو کرتے رہے۔ برطانیہ واپس جا کر بڑی بڑی وسیع و عریض جائدادیں خریدتے رہے۔ کلائیو نے تو اپنی ایک جائداد کا نام بھی '' پلاسی‘‘ رکھا۔ پلاسی کی جنگ ہی میں اس نے پالکی نشین نواب سراج الدولہ کو شکست دی تھی۔ان انگریزوں نے جب لُوٹی ہوئی کمائی سے برطانیہ میں جائدادیں خرید لیں تو '' نباب‘‘ (نواب کا بگڑا ہوا تلفظ ) کہلانے لگے! ہمارے نبابوں کو بھی چاہیے کہ دبئی اور لندن میں خریدی ہوئی جائدادوں کے نام لاڑکانہ‘ نواب شاہ‘ جاتی امرا‘ رائیونڈ‘ اور نائن زیرو رکھیں۔ امریکہ اور کینیڈا میں خریدی ہوئی جائدادوں کے نام پوٹھوہار‘ طارق روڈ اور عزیز آباد رکھیں! آخر حب الوطنی کا کچھ تو ثبوت دو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved