سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف طویل علالت کے بعد دبئی میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ ایک ایسی بیماری (ایمیلوئیڈوسس) میں مبتلا تھے جو اعضا کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔ وزیراعظم سمیت دیگر سیاستدانوں نے پرویز مشرف کی رحلت پر تعزیتی بیانات جاری کیے ہیں۔ پرویز مشرف اپنے تمام تر اعمال کے ساتھ اب اللہ کے دربار میں حاضر ہو گئے ہیں‘ ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔ پرویز مشرف کی کارگزاریاں بھی اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں‘ جن پر مباحث ہوتی رہیں گی۔
پرویز مشرف صاحب نے ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا جسے ایک مخصوص طبقے میں بہت پسند کیا گیا۔ اسی طرح انہوں نے پاکستان کی معیشت کے لیے جو اقدامات کیے‘ آج بھی ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کا جو راستہ اختیار کیا‘ آئین میں اگرچہ اس کی گنجائش موجود نہیں لیکن اس کے باوجود پرویز مشرف کے آنے پر کچھ حلقوں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ گارگل جنگ میں ان کا مؤقف‘ آئین کو بالائے طاق رکھ کر اقتدار حاصل کرنا‘ باوردی صدر بننے پر اصرار‘ ججز کی برطرفی اور افغان جنگ میں امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بننے پر ایک طبقے کی طرف سے پرویز مشرف کی مخالفت کی گئی۔ اپریل 2002ء میں وہ ریفرنڈم کرا کے باقاعدہ صدر منتخب ہو گئے۔ 2004ء میں اسمبلی سے مسلم لیگ (ق) کی حمایت سے آئین میں 17ویں ترمیم کرا کے مزید پانچ برس کے لیے باوردی صدر منتخب ہوئے۔ نومبر 2007ء میں تقریباً نو برس بعد انہیں فوج کے سربراہ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔ پرویز مشرف نے نومبر 2007ء کو اگلے پانچ برس کے لیے صدر کا حلف تو اٹھایا مگر وہ زیادہ دیر اس عہدے پر برقرار نہ رہ سکے اور اگست 2008ء میں مستعفی ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔ ایوانِ صدر سے رخصتی کے وقت پرویز مشرف نے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ ''پاکستان کا خدا حافظ‘‘۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کا مقدمہ درج ہوا۔ اس سے پہلے ان کے خلاف ججز نظر بندی کا کیس چل رہا تھا۔ مارچ 2014ء میں پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کی گئی مگر انہوں نے صحتِ جرم سے انکار کیا۔ دسمبر 2019ء میں آئین شکنی کیس کا فیصلہ آیا جس میں پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی گئی مگر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
پرویز مشرف کے انتقال کے بعد مجھے دبئی میں کیا گیا اُن کا انٹرویو یاد آ گیا۔ فواد چودھری تب پرویز مشرف کے میڈیا آرگنائزر تھے‘ انہوں نے ہی انٹرویو کا بندوبست کیا تھا۔ وقت کس قدر تیزی کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ آج فواد چودھری تحریک انصاف میں ہیں اور زیرعتاب ہیں۔ پرویز مشرف دبئی کے ایک پوش علاقے میں مقیم تھے‘ ہمیں مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں وہاں لے جایا گیا۔ یہ سکیورٹی بندوبست آج سے تیرہ برس قبل کے افغانستان کے حالات اور القاعدہ اور طالبان کی کارروائیوں کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا تھا؛ تاہم عسکریت پسندوں کے حوالے سے پرویز مشرف کی گئی بہت سی باتیں آج سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کا اتحادی بننے کے حوالے سے پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اس وقت کے حالات کے مطابق درست فیصلہ کیا گیا تھا کیونکہ دنیا تب طالبان کے خلاف کھڑی تھی۔ یہ طے ہو چکا تھا کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنا ہی ہے‘ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو بھارت اُسے اپنی سرزمین فراہم کرنے کے لیے تیار تھا۔ اُس صورت میں بھی ہماری ہی ایئر سپیس استعمال ہوتی‘ کیونکہ پاکستان کے لیے اس کی مخالفت ممکن نہ تھی‘ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو خود کچلے جاتے۔ ان عوامل کے پیشِ نظر تب امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ درست تھا۔ دوسرے ہم طالبانائزیشن کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ اس حوالے سے پرویز مشرف کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ وہ طالبان کو پختونوں سے الگ سمجھتے ہیں‘ تمام پختون طالبان نہیں ہیں‘ اسی بنا پر پختونوں کو افغانستان کی حکمرانی دینے کا مطالبہ کرتے تھے۔ انہیں شکوہ تھا کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں جس طرز کی پختون حکومت کی ضرورت تھی‘ وہ قائم نہ ہو سکی۔ پرویز مشرف کے افغان حکومت کا اپنے فوجیوں کی تربیت کے لیے پاکستان کے بجائے بھارت سے مدد لینا بھی درست امر نہیں تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ فوجی تربیت کے بہانے بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیاں افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں مداخلت کرتی ہیں۔ اس بنا پر وہ حامد کرزئی سے بھی نالاں رہتے تھے‘ مگر جب پاکستان‘ ترکیہ اور افغانستان کی مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز ہوا تو انہوں نے اس کا خیرمقدم کیا۔
پرویز مشرف کے عسکریت پسندوں کو چند ہزار افراد کا گروہ قرار دینے پر میں نے اُن سے سوال کیا کہ اگر آپ کے کہے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہمارے ادارے ان چند ہزار افراد پر قابو کیوں نہیں پا سکے ہیں؟ پرویز مشرف نے بتایا کہ گوریلا جنگ کی تھیوری بالکل مختلف ہوتی ہے۔ یہ سالہا سال تک چلتی رہتی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ویتنام سمیت کئی دیگر ممالک کے نام بھی لیے کہ وہاں پر بھی گوریلا جنگ پر برسوں بعد بہت مشکل سے قابو پایا گیا۔ پرویز مشرف نے بتایا کہ اگر کوئی واضح ڈیفنس لائن ہو تو فوج کے لیے اس کا دفاع کرنا اور دشمن کا صفایا کرنا آسان ہوتا ہے مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ گوریلا جنگجو مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں‘ اسی بنا پر ان کے سہولت کار انہیں پناہ دیتے ہیں۔ وہ ہمارے اندر گھل مل کر رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی کارروائی کر دیتے ہیں‘ ایسے افراد کا مقابلہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہماری کمزوریوں کو نشانہ بناتے ہیں‘ جس علاقے میں ہم مضبوط ہوں گے یہ وہاں سے کوچ کر جائیں گے۔ گوریلا جنگوؤں کے خلاف زیادہ طاقت کے استعمال کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لے لیتے ہیں اور ہم بلاوجہ اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہتے ہیں۔
پرویز مشرف پاکستان اور افغانستان کی سرحد (ڈیورنڈ لائن) کو فائنل لائن قرار دیتے تھے۔ دورانِ انٹرویو افغانوں کو اپنا بھائی قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر دو بھائی آپس میں لڑیں گے تو دونوں کو نقصان ہوگا۔ پرویز مشرف کے مطابق نائن الیون کے بعد القاعدہ کا زور ٹوٹ گیا تھا۔ تیرہ برس قبل پرویز مشرف نے القاعدہ کے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ طالبان کے بارے ان کا خیال تھا کہ یہ وقتی طور پر تتر بتر ہو گئے تھے جو 2003ء کے اواخر میں پھر سے مضبوط ہونا شروع ہوئے۔ پرویز مشرف نے 2009ء میں ہمارے ساتھ گفتگو میں کہا تھا کہ اب طالبان زیادہ منظم ہو چکے ہیں۔ ان کی افغانستان کے حوالے سے اپنی ہی حکمت عملی تھی۔ جب طالبان نے بامیان کے مجسمے گرانا چاہے تو پوری دنیا سے ردِعمل آیا۔ پرویز مشرف سے کہا گیا کہ چونکہ پاکستان نے افغانستان کو تسلیم کیا ہے‘ اس لیے آپ مُلاعمر کو مجسمے گرانے سے روکیں۔ مشرف نے جواب دیا کہ دنیا طالبان کو تسلیم کر لے کیونکہ جب دنیا اسے تسلیم کرے گی اور افغانستان میں غیرملکی سفارت خانے ہوں گے تو طالبان سے اپنی بات منوانا آسان ہو جائے گا۔ تحفظات کے باوجود پرویز مشرف افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں تھے تاکہ اس طرح دونوں ممالک ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت آگے آ بڑھ سکیں۔ جنرل (ر) حمید گل اور مرزا اسلم بیگ کے بارے پرویز مشرف کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی کسی جنگ میں عملی طور پر حصہ نہیں لیا تھا‘ وہ صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہتے تھے جبکہ افغان جنگ کے عملی اور زمینی حقائق کاغذی کارروائی سے بڑھ کر تھے۔ پرویز مشرف کی رحلت کی خبر سنی تو پرانی باتیں یاد آ گئیں‘ انہوں نے اس وقت عسکریت پسندی کے چیلنجز کے حوالے سے جو کچھ کہا تھا‘ وہ آج سچ ثابت ہو رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved