تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     07-02-2023

قرآنِ مجید اور اس کے بدبخت دشمنان!

قرآنِ پاک خالقِ کائنات کا کلام ہے جو ہمیشہ کے لیے محفوظ اور غیرمبدّل ہے۔ قرآنِ مجید کے مخالفین اس کے نزول کے وقت سے لے کر آج تک اس کے خلاف اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا مقدر دنیا میں ذلت اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دردناک عذاب ہے۔ یہ جتنا بھی زور لگا لیں‘ قرآنِ عظیم الشان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ قرآنِ پاک کبھی مغلوب نہیں ہوا۔ یہ ہمیشہ غالب رہا ہے۔ اس کتابِ مقدس کے دشمن بدبخت وبدنصیب ہیں۔ جو خوش قسمت لوگ اس کلامِ مبارک کو دل میں بسا لیتے ہیں‘ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول قرار پاتے ہیں۔ ان کی حیاتِ دنیا سعادت مندی اور ان کی آخرت بھی کامیابی اور فلاح سے مالامال ہے۔
قرآنِ مجید انسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے۔ اِس کتابِ ہدایت نے دُنیا میں جو انقلاب برپا کیا، اُس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ ایک پسماندہ قوم کو دُنیا کا حکمران بنا دیا۔ اخلاق سے عاری اور برائیوں میں گھرے ہوئے معاشرے کو ایک مثالی اور جنت نظیر معاشرے میں بدل کر رکھ دیا۔ دُنیا کے پسماندہ اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو اِتنا بلند کر دیا کہ وہ پوری انسانیت کے امام، معلّم اور عالمی اندھیروں میں مشعل بردار بن کر نمودار ہوئے۔ یہ سارا انقلاب اِس وجہ سے آیاکہ اُن لوگوں نے قرآنِ مجید کو سنا، سمجھا، اُس پر ایمان لائے، اُس کے مطابق اپنے عمل کو ڈھالا اور اُس کے پیمانۂ خیر و شر کو اختیار کر کے ساری دُنیا کو اُس کے مطابق بدلنے اور ڈھالنے کی اَن تھک جدوجہد میں مشغول ہو گئے۔
قرآنِ حکیم دراصل آیا ہی اِس لیے ہے کہ اُسے دستورِ حیات بنایا جائے، اُس کی روشنی میں اپنی منزل اور راستہ متعین کیا جائے اور اُس کی راہ نمائی میں پوری زندگی کی ڈگر چلنے لگے۔ ہر شعبہ اُس کے نور سے منور ہو اور ہر فرد اُس کی روشنی کا سفیر بن جائے۔ صحابۂ کرامؓ آنحضورﷺ کے براہِ راست تربیت یافتہ تھے۔ صاحبِ قرآنﷺ خود چلتا پھرتا قرآن تھے اور آپﷺ کے صحابہ کرامؓ آپ کے نقوشِ پا کے ترجمان اور امین۔ بعد کے ادوار میں بحیثیت مجموعی تو اُمت قرآنِ مجید سے جڑی رہی مگر اُس کے انقلابی پیغام سے عملاً رُوگردانی ہونے لگی۔ نظامِ زندگی قرآنی تعلیمات کے بجائے حکمرانوں کی اَنا کے گرد گھومنے لگا۔اسی طرزِ عمل کی وجہ سے ہم بلندی سے پستی میں گر گئے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
قرآن فہمی کے لیے ہر دور میں ادارے تو بہرحال قائم رہے۔ علمی شخصیات، مضامینِ قرآن کو ہر زبان میں منتقل کرتی رہیں۔ تفاسیر کا بہترین مجموعہ، ہر دور ، ملک اور زبان میں تیار ہوتا رہا، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تا امروز روز افزوں ہے۔ امام غزالیؒ نے فرمایا تھا کہ دُنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دین دُنیا کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اقتدار اور دِین جڑواں ہیں۔ دِین اصل اور بنیاد ہے اور اقتدار اُس کا محافظ و پہرے دار ہے۔ جس کی اصل و بنیاد ہی نہ ہو وہ منہدم ہو جاتا ہے اور جس کا محافظ نہ ہو وہ ضائع ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے قرآنِ مجید کے احکام ملوکیت کے ادوار ہی سے ایوانِ اقتدار سے بے دخل کیے جاتے رہے تا آنکہ اُمت زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگی۔ پھر طوائف الملوکی کا دور آیا اور زوال پذیری کے اِسی دور میں غیر ملکی استعمار ، عالمِ اسلام پر حملہ آور ہوا۔اُس نے ہر مسلم ملک پر اپنا نظام مسلط کیا۔ قرآنِ پاک مسجد و مکتب تک محدود ہو کر رہ گیا۔ بڑا المیہ یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم کو محض ایک کتابِ مقدس کے طور پر گھروں اور مساجد میں مقید کر دیا گیا۔ اِس کے مفہوم سے لوگ نابلد ہوتے چلے گئے اور اس کی تعلیمات کے بجائے اِسے جھاڑ پھونک کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ اِس دور میں بھی مجددین اور مفسرین نے ہتھیار نہیں ڈالے، وہ مسلسل منہ زور طوفان کا مقابلہ کرتے رہے۔ اُنہوں نے ملت کو اس کی اصل کی طرف لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور بلا تکان ویرانوں میں اذانیں دیتے رہے۔
اِس عظیم جدوجہد کے نتیجے میں ایک جانب قرآنِ مقدس کا پیغام زندہ رہا، دوسری جانب اِس کے انقلابی پیغام نے مسلم اقوام کو غلامی کا طوق اُتار پھینکنے کے جذبات سے بھی سرشار کر دیا۔ آزادی کی جتنی بھی تحریکیں مسلم ملکوں میں اُٹھیں، اگرچہ وہ بعد میں استعمار ہی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیات کو برسرِ اقتدار لانے کا ذریعہ بنیں مگر تحریکِ حریت کا بیج ڈالنے سے لے کر اس کے فروغ تک اس میں قرآنِ عظیم الشان کے پیغامِ انقلاب کا بنیادی کردار رہا ہے۔اسلام دشمن قرآنِ پاک کی اس اثر آفرینی کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وقتاً فوقتاً اس کے خلاف زہر اگلتے اور اپنی کمینگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر مستقل بالذات کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر قرآنِ پاک ہی کے حوالے سے چند مشاہدات کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔ قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کا زندہ معجزہ ہے۔ اس نے ہر دور میں اپنے مخالفین کو چیلنج دیا ہے کہ وہ اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آئیں، مگر کبھی بھی وہ اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے۔ قرآنِ مجید کا حفظ بھی ایک معجزہ ہے۔ یہ سلسلہ دورِ نبوی سے شروع ہوا اور ان شاء اللہ قیامت کے دِن تک جاری رہے گا۔ صحابۂ کرامؓ میں بڑی تعداد حفاظ کی تھی۔ ماضی قریب کے بعض ادوار میں حفظِ قرآن کا جذبہ ماند پڑا مگر آبِ حیات کا یہ سوتا خشک کبھی نہیں ہوا۔ گزشتہ صدی میں بعض دور رس نگاہ رکھنے والی شخصیات نے محسوس کیاکہ حفاظِ قرآن کی تعداد کم ہو رہی ہے تو اُنہوں نے اِس جانب خصوصی توجہ دی۔ جگہ جگہ حفظِ قرآن کے مکاتب اور مراکز قائم ہوئے۔ پاکستان کے ایک بزرگ صنعت کار محمد یوسف سیٹھی مرحوم سے میری دوستی کی بھی عجیب داستان ہے۔ مرحوم عرب سے لے کر افریقی ممالک تک قرآن کی روشنی پھیلانے میں سرگرم تھے۔ کینیا میں تشریف لائے تو میرے ہاں مہمان ٹھہرے۔ یہ میرے لیے اعزاز تھا۔
مرحوم نے راقم الحروف کو 1976ء میں کینیا میں بتایا تھا کہ اُنہوں نے تحفیظ کے مراکز قائم کرنے کے لیے جو منصوبہ بنایا ہے، اُس کا پس منظر کیا ہے؟ فرمانے لگے کہ وہ1950ء اور 1960ء کے عشروں میں عمرے کے لیے جب بھی سعودی عرب گئے تو ماہِ رمضان میں حرمین شریفین کے سوا دیگر اکثر مساجد میں اُنہوں نے دیکھا کہ یا تو تراویح میں چھوٹی سورتیں پڑھی جاتی تھیں یا امام ہاتھ میں قرآن پکڑ کر تلاوت کرتا تھا۔ رکوع میں جاتے ہوئے وہ قرآن کو نیچے چوبی بنچ پر رکھ دیتا اور سجدے سے اُٹھتے ہوئے پھر اُٹھا لیتا۔احناف کے لیے یہ بہت اچنبھے کی بات ہے؛ اگرچہ شوافع و حنابلہ کے ہاں یہ معیوب نہیں تھا۔
سیٹھی مرحوم کے بقول اِسی منظر نے اُن کو تحفیظ کے مراکز قائم کرنے کی ترغیب دی۔ اِس کے نتیجے میں مرحوم نے مختلف افریقی و ایشیائی ملکوں میں یہ مراکز قائم کرنے کے ساتھ سعودی عرب بلکہ مکہ میں بھی یہ مدارس دارالافتا کے تعاون سے قائم کیے۔ اِس عرصے میں اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر بھی لوگوں کے دِلوں میں قرآن کی طرف رُجوع کا جذبہ پیدا فرما دیا۔دورِ انحطاط میں حفظِ قرآن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا تھا کہ ناکارہ اور معذور بچوں کو اِس طرف لگایا جاتا، نیز معاشرے کے فقیر اور انتہائی پسماندہ طبقے ہی اپنے بچوں کو اِس کے لیے فارغ کرتے تھے، اب اِس کے برعکس یہ روایت چلی کہ کھاتے پیتے لوگ بھی اپنے بچوں کو حفظ کرانے لگے۔ ذہین بچے حفظِ قرآن کی برکت سے عصری تعلیم میں بھی شان دار کامیابیاں حاصل کرنے لگے تو یہ تحریک خود بخود معاشرے میں مقبول ہوگئی۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ معروف ترین جدید تعلیمی اداروں میں باقاعدہ یہ شعبہ قائم ہے اور نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔ گزشتہ بیس پچیس سالوں سے یہ خوش گوار کیفیت دیکھنے میں آئی ہے کہ پچھلے ادوار کے برعکس جب مسجدوں میں نمازِ تراویح میں قرآن سنانے والوں کی قلت ہوا کرتی تھی، اب مساجد کے مقابلے میں حفاظ کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ گھروں،سکولوں ،کالجوں، بازاروں اور مارکیٹوں، کھلے پارکوں اور میدانوں میں، غرض ہر جگہ نمازِ تراویح میں قرآنِ مجید سنانے کا اہتمام ہونے لگا ہے۔یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ مغربی ممالک میں بھی اب مسلم نوجوان بڑی تعداد میں قرآنِ پاک کے حفاظ ہیں۔ یہ چیز اسلام دشمنوں کو بہت کھلتی ہے اسی لیے وہ وقتاً فوقتاً قرآنِ پاک کی بے حرمتی پر اتر آتے ہیں۔ ہمیں ان کا مقابلہ بھی کرنا ہے اور یہ یقین بھی رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو کوئی شیطانی قوت مات نہیں دے سکتی۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پوری دنیا میں قرآنِ پاک کی تفہیم کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ مرد وخواتین کے مراکز اور نوجوانوں کے علمی ادارے نہ صرف عالم اسلام میں بلکہ مغربی دنیا میں بھی قائم اور فعال ہیں۔ قرآنِ مجید کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے لیے حکمت اور موعظۃ الحسنہ کا اہتمام ضروری ہے۔ قرآنِ پاک دلوں کو بھی فتح کرے گا اور علاقوں کو بھی۔ بس ضرورت یہ ہے کہ ہم حاملینِ قرآن عاملینِ قرآن بھی بن جائیں۔ حالات بدلیں گے جب کیفیت یہ ہوگی:
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved