تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-02-2023

اٹل حقیقت صرف تبدیلی

زمانے کی تبدیلی کا شکوہ کرنے والوں کی کمی نہیں۔ زمانہ کیا ہے؟ ہم اور آپ ہی تو زمانہ ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو پھر زمانے کے بدلنے کی بات فضول ہے کیونکہ ہم اور آپ نہیں بدل رہے۔ ہم سب مل کر جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں، وہی زمانہ کہلاتا ہے۔ زمانے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اجتماعی ہیں اس لیے ہم اُنہیں کچھ اور خیال کر بیٹھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زمانے کے نام پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ ہم ہی کر رہے ہیں۔ ہمارے کہنے اور کرنے کا معیار ہی طے کرتا ہے کہ زمانے کا مجموعی معیار کیسا ہوگا، ہم اور آپ کس سمت جائیں گے، کیا کر سکیں گے، کیا سوچ پائیں گے۔
زندگی بھر ہمیں جس دباؤ کا مستقل سامنا رہتا ہے، وہ دباؤ ہے تبدیلی کا۔ ہمارے ماحول میں بہت کچھ بدلتا رہتا ہے اور یہ تبدیلی ہم سے بھی تبدیلی کا تقاضا کرتی رہتی ہے۔ کامیاب وہ ہیں جو اپنے آپ کو بدلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے بہت کچھ بدلنا پڑتا ہے۔ زیادہ پڑھنا پڑتا ہے، نئی مہارتیں سیکھنا پڑتی ہیں، مشق کے ذریعے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول بنانا پڑتا ہے۔ لوگ صرف اُنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو زیادہ قدر کے حامل ہوتے ہیں۔ انسان میں زیادہ قدر اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ تبدیلی کے لیے خود کو تیار کرتے ہوئے اَپ گریڈیشن کی طرف بڑھتا ہے۔ اَپ گریڈیشن یعنی تعلیم و تربیت کا معیار بلند کرنا، نئے اور زیادہ قابلِ قبول اطوار سیکھنا، لوگوں سے بہتر طریق سے ملنا، اُن کے لیے کارآمد ثابت ہونے کی کوشش کرنا، ضرورت پڑنے پر لوگوں سے مدد طلب کرنے میں نہ ہچکچانا وغیرہ۔ زندگی کا سفر 'کچھ دو اور کچھ لو‘ کی بنیاد پر جاری رہتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو بہتر سمت میں لے جانے والا سب سے بڑا عامل ہے تبدیلی۔ معاشرے جتنی تیزی سے بدلتے ہیں اُتنی ہی تیزی سے مستحکم ہوتے ہیں اور ترقی و خوش حالی کی طرف بڑھتے ہیں۔ معاشرے کی مجموعی ترقی اور خوش حالی کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ لوگ عصری تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنے پر آمادہ ہوں۔ مغربی معاشروں کا جائزہ لیجیے یا تجزیہ کیجیے، یہی بات کھل کر سامنے آئے گی کہ اُن معاشروں کے باشندوں نے اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار کیا، عصری علوم و فنون میں مہارت یقینی بنانے پر توجہ دی، کام کرنے کی بھرپور لگن اپنے اندر پیدا کی اور دنیا کو دکھادیا کہ اگر انسان کچھ چاہے اور ٹھان لے تو کرکے دکھا سکتا ہے۔
ہمارا ماحول ہر آن بدل رہا ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ پرانے مکانات گرا کر نئے مکانات بنائے جارہے ہیں اور جہاں درخت ہوا کرتے تھے وہاں عمارتیں کھڑی کی جارہی ہیں یا رہائشی پلاٹس کو کمرشل میں تبدیل کرکے نوٹ بٹورنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اور بھی بہت کچھ بدل رہا ہے۔ بہت سے پیشے شدید دباؤ میں ہیں کیونکہ اُن کی طلب میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ چند نئے پیشوں میں پنپنے کی گنجائش زیادہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ان نئے پیشوں میں مہارت پیدا کرنا بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ فی زمانہ بیشتر نئے پیشے عطری علوم و فنون کی پیش رفت سے جڑے ہوئے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے ہی کو لیجیے۔ اس شعبے میں پیشرفت کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ جنہیں آگے بڑھنا ہو‘ اُنہیں ہر وقت سیکھنا پڑتا ہے۔ نئی ایپس کے آنے سے کام کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ سلسلہ چونکہ رکنے کا نام نہیں لیتا اس لیے سیکھنے کا عمل بھی جاری رکھنا پڑتا ہے۔ ویب ڈیزائننگ اچھا شعبہ ہے مگر اس میں ورائٹی پیدا کرنے کے لیے انسان کو سخت مغز پاشی کرنا پڑتی ہے۔ یہی حال دوسرے بہت سے شعبوں کا بھی ہے۔ آئی ٹی سے جڑے ہوئے شعبوں میں کچھ بننے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اس لیے کم ہی لوگ زیادہ آگے جانے کا ذہن بنا پاتے ہیں۔ یوں بالائی درجے میں پنپنے کی گنجائش رہتی ہے اور لوگ شاندار کیریئر بھی ممکن بنا پاتے ہیں۔ فی زمانہ ہر معاملہ غیرمعمولی آسانیوں اور غیرمعمولی مشکلات سے عبارت ہے۔ ابتدائی سطح پر آسانیاں ہیں۔ انٹری لیول بہت آسان ہو گیا ہے۔ آگے جانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اب سب سے بڑی نفسی ضرورت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار رہے۔ تبدیلیاں چونکہ تواتر سے رونما یا واقع ہو رہی ہیں اس لیے اُن کا رونا رونے سے بہتر یہ ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار رہا جائے۔
پس ماندہ معاشروں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ترقی و خوش حالی کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے مگر پھر بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، وہ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر حوصلہ ہارتے جاتے ہیں اور اُن میں کام کرنے کی لگن کمزور پڑتی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اپنے آپ سے لڑتے ہیں، اپنی راہ میں کھڑی ہونے والی رکاوٹیں دور کرتے ہیں اور دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں حالات زدہ لوگ جب کسی کو اپنی صفوں سے نکل کر آگے جاتا ہوا دیکھتے ہیں تو اُس سے کچھ سیکھنے اور کام کرنے کی بھرپور لگن اپنے اندر پیدا کرنے کے بجائے محض کڑھتے ہیں اور اُسے تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اس روش پر گامزن رہنے والے کبھی منزل تک پہنچ نہیں سکتے، کچھ پا نہیں سکتے، کچھ بن نہیں سکتے۔ تبدیلی کے بارے میں ہمارے تصورات اور تفہیم میں بھی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ معاشرے میں جو کچھ واقع ہو رہا ہے اُس کا جائزہ لے کر، تجزیہ کرنے کے بعد ہم اپنے لیے جن تبدیلیوں کو ناگزیر محسوس کریں اُنہیں گلے لگانے ہی سے ہمارے لیے کچھ بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔ کیا عام طور پر ایسا ہوتا ہے؟ نہیں! ہم بہت کچھ دیکھتے ہیں مگر اپنے اندر کام کرنے کی بھرپور لگن محسوس نہیں کرتے۔ بہت سی تبدیلیاں ہمیں تحریک دینے کے لیے کافی ہوتی ہیں مگر ہم اُنہیں ناکافی سمجھتے ہیں۔ کامیاب معاشروں کو دیکھنا تو ہم سب کے بس میں نہیں۔ ہاں‘ ہمارے اپنے معاشرے میں جو کامیاب افراد دکھائی دے رہے ہیں اُن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ کسی بھی کامیاب کاروباری فرد یعنی تاجر یا صنعتکار سے اُس کی کامیابی کا راز معلوم کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ صرف دو معاملات نے اُسے ساری کامیابی بخشی ہے۔ ایک تو تبدیلی کے لیے تیار رہنا اور دوسرے دن رات محنت کرنا۔ کسی بھی کاروباری فرد کے لیے آرام و سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اُنہیں مارکیٹ پر نظر رکھنے کے معاملے میں ہر وقت الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ دن رات ایک کرنے سے کاروبار میں کامیابی ملتی ہے۔ ملازمت پیشہ یا پھر یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے کاروباری افراد کی مشکلات کو سمجھ نہیں سکتے۔ کسی کی کامیابی سے حسد کرنے کا چلن ہمارے ہاں زیادہ ہے، کچھ سیکھنے پر متوجہ ہونے کا رجحان اب تک پروان نہیں چڑھا۔
آپ اپنے ماحول کا جائزہ لے کر بتائیے کہ کتنے ہیں جو خود کو بدلنے کے لیے، کچھ سیکھنے کے لیے، کچھ زیادہ محنت کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔ کامیاب افراد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ خاندان میں یا اُس سے باہر کسی کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار دیکھ کر حسد کرنا تو عام ہے، کچھ دیر اُس کے ساتھ بیٹھ کر اُس سے اُس کی کامیابی کے بارے میں پوچھنے، کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی تحریک حاصل کرنے والوں کی تعداد برائے نام ہے۔ ہمارے ہاں تبدیلی کا مفہوم جاننے والوں کی تعداد بھی برائے نام ہے۔ نئی ایجادات و اختراعات پر مبنی اشیا کے مارکیٹ میں آنے کے بعد اُنہیں خرید کر اُن سے بھرپور استفادہ کرنے کو بھی تبدیلی تصور کر لیا جاتا ہے۔ یہ تو کسی بھی درجے میں کوئی تبدیلی نہیں۔ مارکیٹ میں آسانی پیدا کرنے والی اشیا تو آتی ہی رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں تک تبدیل ہو رہے ہیں۔ زندگی کو آسان بنانے والی اشیا کا استعمال اچھی بات سہی مگر اِسے تبدیلی سمجھنا سادہ لوحی ہے۔ تبدیلی تو اس چیز کا نام ہے کہ آپ اپنے ماحول میں بہت کچھ بدلتا ہوا دیکھ کر اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار ہوں تاکہ ماحول سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ ماحول میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہ ہو رہی ہو تب بھی اپنی ضرورت کے تحت تبدیلی یقینی بنانا لازم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved