تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     08-02-2023

اتنا برازمانہ بھی نہ تھا

بظاہر توجنرل پرویز مشرف ایک آمر تھے لیکن اُن کی آمریت ڈھیلی ڈھالی تھی اوربہرحال بہت سی جمہوریتوں سے بدرجہ بہتر تھی۔آج کے مقابلے میں تب کی معاشی حالت بہت ہی بہتر تھی۔اُس بہتری میں امریکی ڈالروں کا خاصا بڑا حصہ تھا۔ معاشی مینجمنٹ مثالی تو نہ تھی لیکن بعد کے وقتوں میں جو ہم نے دیکھا اُس سے بہرحال بہتر تھی۔
تاریخ کے پیرائے میں اُن کی غلطی یہ بنتی ہے کہ بہت کچھ کرنے کا اُن کے پاس موقع تھا لیکن وسعتِ موقع کو وہ پہچان نہ سکے۔اقتدار میں آنے کے دو تین سال تک اُنہیں کسی مخالفت کا سامنا نہ تھا۔ آج پی پی پی کا کوئی لیڈر مانے گا نہیں لیکن جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا توبے نظیر بھٹو ان کے ساتھ کوآپریٹ کرنے کو تیار تھیں۔اس بات میں کوئی اچنبھا نہیں تھا کیونکہ پی پی پی کی مخاصمت نون لیگ سے تھی اور نون لیگ کی حکومت کی چھٹی جنرل مشرف نے کرائی تھی۔اس لحاظ سے مشرف حکومت اور پی پی پی کا مفاد مشترکہ تھا کہ نون لیگ زیرِعتاب رہے۔لیکن جنرل مشرف کے آس پاس جو لوگ تھے وہ اس نکتے کو سمجھ نہ پائے یا سمجھنانہ چاہتے تھے۔یوں یہ موقع ہاتھ سے گیا اور پھر جب کئی سال بعد مشرف حکومت اور بے نظیر بھٹو کی قربتیں بڑھیں تو این آر او تیار کیا جا رہا تھا‘امریکی اور برطانوی معاونت کے سہارے۔
ذاتی طور پر جنرل مشرف لبرل سوچ کے مالک تھے۔پاکیزگی کے نام پر جو ہمارے ہاں ناٹک رچائے جاتے ہیں اُن کی یہ کمزوری نہ تھی اور ایسے ناٹک کرنے کی اُنہیں کبھی ضرورت پیش نہ آئی۔نجی طور پر اُن کی شامیں نسبتاً رنگین ہوا کرتی تھیں اور اُن کی وجہ سے معاشرے میں بھی کچھ نرمیاں پیداہوئیں۔وہ چاہتے تو جنرل ضیا الحق کے کئی گھٹن پیدا کرنے والے قوانین کو قانون کی کتابوں سے ہٹا سکتے تھے لیکن کمزوری سمجھئے یا ناسمجھی کہ اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔البتہ یہ ضرور ہوا کہ بڑے شہروں میں کئی ایسے ریستوران تھے جہاں آپ شب کی تنہائیوں کو کم کرنے کیلئے اپنے ساتھ کچھ لے کر جاسکتے تھے۔
مارچ 2007ء تک ان کا اقتدار مضبو ط لگتا تھا اور پھر اچانک وکلا تحریک نمودار ہوئی جس کی نوعیت اور سنگینی جنرل صاحب اور اُن کا ٹولہ بھانپ نہ سکے۔ جنرل مشرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ہٹانا چاہتے تھے۔ یہ مقصد احسن طریقے سے حاصل کیا جاسکتا تھا لیکن ایک میٹنگ میں جنرل مشرف نے پریشر ڈالنے کی کوشش کی اور چیف جسٹس سے کہا کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔اتنا کہہ کر جنرل صاحب میٹنگ سے چلے گئے۔جب چیف جسٹس نے رخصت چاہی‘ کہا جاتا ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیا نی جو کہ تب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے‘ نے ہاتھ ملاتے ہوئے انگلیوں سے کچھ حوصلہ بڑھانے کا اشارہ دیا۔ دوسرے دن وکلا نے ملک بھر میں بغیر کسی کے کہے ہڑتال کر دی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سربراہ ہمارے لارنس کالج کے دوست منیر ملک تھے۔اُن کی کی کمان میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس افتخارچوہدری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔یوں یکایک ایک ملک گیر تحریک پیدا ہونے لگی۔ بہت سارے ٹی وی چینل معرضِ وجود میں آ چکے تھے اور اُن کی نشریات پر کوئی پابندی نہ ہوتی تھی۔وکلا کہیں اکٹھے ہوتے تو ٹی وی کیمرے اپنا جادو ایسے دکھاتے کہ ہزاروں کا مجمع لاکھوں کا لگنے لگتا۔جنرل مشرف نہ سمجھ سکے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اور جس حساس ادارے کے سربراہ کیانی صاحب تھے اُس نے وکلا تحریک دبانے کی کوئی کوشش نہ کی۔یعنی اس نازک موڑ پر جس قسم کی حمایت حکومت کے اندر سے جنر ل مشرف کو ملنی چاہئے تھی وہ اس سے محروم رہے۔
ساتھ ہی لال مسجد اسلام آباد کے گرد ایک مخصوص صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔لال مسجد سے پیدا ہونے والی شورش کو بلاوجہ سلگنے دیا گیا اور جب بالآخر ایک فوجی آپریشن کرنا پڑا توملکی حالات مزید خراب ہو گئے۔وکلا تحریک اور لال مسجد سانحہ کی وجہ سے جنرل مشرف کی اقتدا ر پر گرفت کمزور ہو گئی۔بیچ میں قائم مقام چیف جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے جسٹس افتخارچوہدری کے حق میں فیصلہ دے دیا۔دوبارہ چیف جسٹس بن گئے۔ اس فیصلے سے بھی مشرف حکومت بری طرح متاثر ہوئی۔
آگے مسئلہ تھا صدارتی انتخاب کا۔ جنرل مشرف کی صدارتی میعاد پوری ہو رہی تھی اور دوبارہ صدر بننے کے خواہاں تھے۔مسئلہ سپریم کورٹ کے سامنے گیا کہ آیا آرمی چیف رہتے ہوئے وہ صدارتی انتخاب لڑسکتے ہیں۔ جس قسم کی سپریم کورٹ بن چکی تھی اُس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ متوقع فیصلہ کیاہوسکتا ہے۔ایک مخالف فیصلے سے بچنے کیلئے جنرل مشرف ایک اور بلنڈرکربیٹھے۔ اُنہوں نے ایمرجنسی نافذ کر دی اور جنہیں مخالف سمجھتے تھے اُن ججوں کو گھر بھیج دیا۔ جسٹس عبدالحمید ڈوگر نئے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔صدارتی انتخاب ہو گیا اور پھر جنرل مشرف فوج کی سربراہی سے سبکدوش ہو گئے۔ آرمی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہاتھوں منتقل ہو گئی۔یعنی مشکل وقت میں جس شخص نے جنرل مشرف کی حمایت کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا وہی آرمی چیف بن گیا۔کہا جاتا ہے کہ جلد ہی جنرل مشرف کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا لیکن تب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔
جیسے عرض کیا امریکی اور برطانوی معاونت سے مشرف حکومت اور بے نظیر بھٹو میں ایک قسم کا معاہدہ طے پا گیا تھا جس کے تحت بے نظیر بھٹو نے آنے والے انتخابات کے بعد پاکستان آنا تھا۔لیکن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو انتخابات سے پہلے ہی پاکستان پہنچ گئیں۔کراچی میں کارساز کے مقام پر اُن کے قافلے پر خونی حملہ ہوا لیکن اس کے باوجود اپنی سکیورٹی کی پروا کیے بغیر وہ اسلام آبادآئیں۔دوسرے دن انہوں نے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ ایم آئی یا ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ نے اُن سے رات گئے بلاول ہاؤس میں ملاقات کی اور اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اگلے روز وہ لیاقت باغ نہ جائیں۔لیکن وہ بضد رہیں اور جلسے سے اُنہوں نے خطاب کیا۔پھر جو ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل سے مشرف حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو گئی۔انتخاب کچھ تاخیر کے بعد منعقد ہوئے تو مشرف مخالف پارٹیاں‘ پی پی پی اور نون لیگ‘ ابھر کر سامنے آئیں۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل کے بعد ایک انہونی تو اس صورت میں ہو گئی کہ جناب آصف علی زرداری پی پی پی کے سربراہ ہو گئے۔انتخابات کے بعد دوسری انہونی یہ ہوئی کہ جناب آصف علی زرداری نے نون لیگ کو اپنے ساتھ ملایا اور ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس سے جنر ل مشرف کو دھڑکا لگنے لگا کہ اُن کا محاسبہ نہ ہو جائے۔اس کیفیت میں اُنہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ صدارت سے سبکدوش ہو جائیں۔ یوں آصف علی زرداری کا صدارت کا راستہ صاف ہو گیا۔
امریکی اور برطانوی حکام نے سوچ رکھا تھا کہ اُن کی ثالثی کے بعد مشرف صدر ہوں گے اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم۔ایسا ہوتا تو پاکستان کیلئے بہت اچھا ہوتا۔ایک تو ملک میں استحکام آ جاتا اور دوم جو معاشی پالیسیاں مشرف دور میں چل رہی تھیں اُن کو آگے بڑھایا جاسکتا۔لیکن وکلا تحریک اور پھربے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل نے اس ساری سوچ پر پانی پھیر دیا۔سیاسی استحکام نصیب نہ ہوا اور معیشت خراب ہونے لگی۔ کچھ قرضوں کی بھرمار پی پی پی حکومت نے کی اور جوکسر رہ گئی وہ بعد میں آنے والی نون لیگ حکومت نے پوری کردی۔آج کی صورتِ حال ان سارے اسباب کا کچھ شاخسانہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved