تحریر : ڈاکٹر امجد ثاقب تاریخ اشاعت     08-02-2023

سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (39)

(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
میڈرڈ سپین کا دارالحکومت ہے۔ خوبصورت اور دلکش شہر۔ سیلاب متاثرین کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہم سیدھے پاکستانی سفارت خانے پہنچے۔ سفیرِ پاکستان شجاعت علی راٹھور نے نہایت محبت اور گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ان کے ہمراہ کمرشل قونصلر احمد عفان اور عائزہ شجاعت بھی تھیں۔ پاک فیڈریشن سپین کے مقامی رہنما ضیاء بلوچ‘ عمر رشید‘ زاہد صدیق اور عاصم بھی مدعو تھے۔ کچھ دیر دم لیا اور پھر میزبانوں کو سیلاب زدگان کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے بارے میں بتایا گیا۔ سفیر محترم نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستانی سفارتخانے نے سیلاب زدگان کے لیے جو کام کیا‘ اس پر ہم نے بھی مبارک باد پیش کی۔ سفارت خانے سے نکل کر میڈرڈ کی دلکش عمارات اور شاہراہوں کو دیکھتے ہوئے ہم ہوٹل پہنچے۔ عارف انیس اور میر اکرام کو اسی رات واپس لندن جانا تھا۔ ثاقب‘ ذوالقرنین‘ راجہ اکرم اور کامران۔ ان سب نے بھی رختِ سفر باندھ لیا۔
اظہر حمید اور افتخار ٹھاکر کی روانگی رات کے پچھلے پہر ہوئی۔ اظہر حمید نے سیلاب زدگان کے لیے جو کچھ کیا‘ اس کا تذکرہ بہت طویل ہے۔ چند الفاظ شاید اس کا احاطہ نہ کر پائیں۔ خدا کرے ایسے چند لوگ اور بھی ہوں۔ میڈرڈ اور سپین میں یہ ہمارا آخری دن تھا۔ ایک خوبصورت اور یاد گار سفر اپنے اختتام کو پہنچا لیکن سفروسیلۂ ظفر ہے۔ سپین کا یہ سفر سینوں میں ایک نئی خلش پیدا کرگیا۔ دوپہر دو بجے کے قریب ہماری بھی وطن واپسی تھی۔ میں حسبِ معمول صبح سویرے اٹھ گیا۔ ہوٹل کے قریب ہی ایک خوبصورت پارک نظر آیا۔ ہلکی ہلکی بوندیں اور خوشگوار سرد ہوا۔ ہم نے باہر کا ارادہ کیا اور کچھ دیر سیر کی نعمت سے لطف اٹھایا۔ اقبال کا یہ شعر ہمرکاب تھا:
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
واپسی پہ ہوٹل کی لابی میں چند مہربان منتظر تھے۔ زاہد اور ان کے ہمراہ طارق‘ کامران اسلم اور تسمبر۔ ان سب نے بھی ان کاوشوں کا تذکرہ کیا جو اہلِ سپین نے سیلاب زدگان کے لیے کیں۔ ہسپانیہ اور قرطبہ کی عظمتِ رفتہ کا ذکر بھی چھڑا۔ یہ سب لوگ ایئر پورٹ تک جانے پہ مصر تھے۔ محبت کے اظہار کے بھی کئی راستے ہیں۔ ہمارے بار بار کہنے پر بھی انہوں نے ارادہ نہ بدلا۔ شہر میں ادھر اُدھر گھومنے کے بعد وقت پہ ایئر پورٹ پہنچ ہی گئے۔ یوں واپسی کا سفر شروع ہوا۔ گزشتہ پانچ دن ایک خواب کی طرح گزر گئے۔ ہم ان لمحوں کو پھر سے دہرانے لگے۔ کتنے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ خوش خلق‘ خوش مزاح‘ خوش بیان اور خوش مزاج۔ اسی پہ کیا اکتفا‘ درد مندی کی تصویر اور وطن کی محبت میں سرشار۔ سیلاب نے اہلِ وطن کو جو دکھ دیے‘ وہ سب ان کے ذہن پہ نقش تھے۔ گرتے ہوئے گھر‘ ڈوبتی ہوئی فصلیں اور مدد کو پکارتے ہوئے بے بس‘ مرد و زن۔ یہ سب منظر ان کے دل میں محفوظ تھے۔ ہم ان سے رخصت ہو چکے تھے۔ جہاز محوِ پرواز تھا۔ لوگ سو رہے تھے۔ میں ایک کتاب دیکھنے لگا۔ ہسپانیہ کی تاریخ۔ قصے‘ کہانیاں‘ واقعات‘ جگ بیتی۔ تاریخ‘ لیکن‘ صرف قصے کہانیوں کا مجموعہ نہیں۔ اس میں بہت سے سبق بھی ہیں۔
میں نے کتاب بند کی اور کچھ یاد کرنے لگا۔ مسجدِ قرطبہ کا حسن و جمال اور وادیٔ الکبیر میں بہتا ہوا دریا جس نے عرو ج اور زوال کی ایک عظیم کہانی دیکھی۔ سات سو برس پہ پھیلی ہوئی یہ ایک طویل داستان تھی۔ میری نگاہوں میں اس کہانی کے دولمحے ٹھہر سے گئے۔ یہ کہانی شاید انہی دو لمحوں کی کہانی ہے۔ پہلا لمحہ‘ جب بیس سالہ عبدالرحمان نامی ایک نوجوان اپنی جان بچا کر اندلس کے ساحل پہ اترا۔ عبدالرحمان کا تعلق بنو اُمیہ سے تھا۔ اُموی حکومت کے خاتمے کے بعد نئے حکمران انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کررہے تھے۔ نسلی عصبیت نے دامنِ حرم کو تار تار کر دیا۔ نجانے کتنی مشکلوں کے بعد عبدالرحمان اندلس پہنچا۔ اس زمانے میں حکمران نجوم و رمل کی پیش گوئیوں پہ بھروسا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے اندلس کے حکمران کو ایک یہودی راہب نے بتایا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب لمبی زلفوں اور دولٹوں والا ایک نوجوان اندلس کا حاکم بنے گا۔ عبدالرحمان کی بھی لمبی زلفیں اور دولٹیں تھیں۔ حاکمِ وقت پریشان ہوا۔ اس نے اسی یہودی راہب کو بلایا اور پوچھا‘ کیا میں اس نوجوان کو قتل کر دوں۔ یہودی نے جواب دیا ''خدا کی قسم تم نے اسے قتل کردیا تو یہ وہ شخص ہی نہیں ہوگا جس کے بارے میں مَیں نے تمہیں بتایا تھا اور اگر تم نے اسے چھوڑ دیا تو پھر سو فیصد‘ یہ وہی شخص ہے‘‘۔
حکمران کچھ دیر شش و پنج میں گم ہوا۔ عبدالرحمان کو اس سارے معاملے کی بھنک پڑ گئی۔ وہ رُوپوش ہو گیا اور پھر اُموی خلافت کے ہمدردوں کی مدد سے بالآخر عبدالرحمان الداخل اوّل کے نام سے ایک عظیم الشان سلطنت کا بانی بنا۔ یہ 756ء کی بات ہے اور پھر ڈیڑھ دو سو برس کے بعد اُموی سلطنت ختم ہوئی۔ انتشار اور نفاق عام ہوا۔ آہستہ آہستہ پورا ہسپانیہ پچیس مسلم ریاستوں میں بٹ گیا۔ یہ ریاستیں قائم تو رہیں لیکن ہر ریاست دوسری سے برہم اور برسرِ پیکار ہونے لگی۔ وہی نسلی عصبیت‘ وہی فرقہ واریت‘ وہی ذاتی اَنا‘ وہی مال و دولت کی تمنا۔ اسی دوران یورپ کے مسیحی حکمرانوں نے زور پکڑا اور ایک ایک کرکے سب مسلم ریاستیں ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے لگیں۔ خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتی گئیں اور ایک روز غرناطہ کی آخری مسلم حکومت نے بھی شکست مان لی۔ سات سو سال بعد 1492ء کا وہ لمحہ جب اس غرناطہ کا اختتام ہوا جہاں الحمرا کے محل ہیرے جواہرات کی طرح دمکتے تھے۔ یہ دوسرا لمحہ جو میری نگاہوں میں تادیر بسا رہا‘ زوال کا لمحہ تھا۔
اندلس کے آخری مسلم حکمران ابو عبداللہ نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ الحمرا کی چابیاں فرڈیننڈ کو دیتے ہوئے کہا ''یہ اندلس میں عربوں کی حکمرانی کی آخری نشانی ہے‘ اب یہ چابیاں آپ کی ہیں۔ آج کے بعد ہمارا ملک‘ مال اور جانیں سب آپ کی ملکیت ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ابو عبداللہ سے وہ چابیاں نیچے گر گئیں۔ اٹھانے کے لیے جھکا تو بادشاہ نے اس کا کندھا پکڑا اور کہا ''الحمرا ایک ایسی عظیم دولت ہے جس کے لیے ہم تمہارے قدموں میں جھکنے کو تیار ہیں‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھی جھکا اور اس کے قدموں سے چابیاں وصول کیں۔
یہ کسی افسانے کا منظر نہیں بلکہ ایک قوم کے طلوع ہونے اور ایک دوسرے قوم کے غروب ہونے کی سچی داستان ہے۔ یہ مسلم سپین یا ہسپانیہ کے زوال کی کہانی ہے۔ اس فاتح بادشاہ کا نام فرڈیننڈ اور مفتوح بادشاہ کا نام ابو عبداللہ تھا۔ الحمرا کے عظیم محلات کی چابیاں دینے کے بعد سپین‘ پرتگال اور جنوبی فرانس پر مسلمانوں کی سات سو سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ ابو عبداللہ غرناطہ سے نکلا اور شہر سے دور ایک پہاڑی پر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد پیچھے مڑ کے غرناطہ کی طرف دیکھا تو آنکھیں بھیگ گئیں اور ہچکیاں لینے لگا جس پر اس کی ماں نے یہ تاریخی جملہ کہا ''اگر مردوں کی طرح جنگ نہ کر سکے تو عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved