تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     11-09-2013

مذاکرات…؟

سیاسی جماعتیں تو سبک دوش ہوئیں۔ دیکھیے اب حکومت کب سبک خرام ہوتی ہے۔ کہا گیا ’’اپنے لوگوں‘‘ سے مذاکرات کیے جائیں گے۔ ’’غیروں‘‘ کا کہیں ذکر نہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اپنوں اور غیروں کی جس تقسیم کو آپ مان رہے ہیں، کیا وہ بھی اُسے تسلیم کرتے ہیں جن سے آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں؟ ’’ گہرے پانیوں‘‘ کا آغاز تو یہیں سے بھی ہو جائے گا۔آپ نے اس سے پہلے مذاکرات اور آپریشن کے لیے تقسیم کے فارمولے پر عمل کیا اور اس نے کام نہیں کیا ، کیا اب یہ نئی تقسیم قابلِ قبول ٹھہرے گی؟ میں تلخ سوالوں سے اطمینان کی اس فضا کو متأثر نہیں کرنا چاہتا جو اس وقت حکومتی اور سیاسی حلقوں میں چھائی ہوئی ہے۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مقطع میں نہیں مطلع ہی میں سخن گسترانہ زیرِ بحث آ گیا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ قومی راہنما ایک حل کی بات کر رہے ہیں اور فیصلہ سازی میں حکومت کے اختیارکو تسلیم کر رہے ہیں۔ ہونا یہی چاہیے، لیکن اس بات کی کیا ضمانت کہ کل یہی راہنما حکومتی فیصلوں کو غلط قرار دے کر مسترد نہیںکر یں گے۔ اگر فیصلہ کا اختیارحکومت کو حاصل ہے تو پھر اس کی افادیت تب ہی ثابت ہوگی جب ان پر عمل درآمد ہوگا۔ اس عمل کے لیے سیاسی تائید چاہیے۔ سیاسی جماعتوں نے اس کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی۔ بات صرف اتنی نہیں ہے ۔چند تلخ سوالات اور بھی ہیں،جنہیں اگر اس وقت پیش ِ نظر رکھا جائے تواس عمل کاخاتمہ بالخیرہوسکتا ہے۔ 1۔ مذاکراتی عمل کی تفصیلات حکومت طے کرے گی، لیکن اس کا ایجنڈا کیا ہوگا، اس پر کوئی بات مشترکہ اعلامیے میں نہیں کی گئی۔ یہ بات اس میں واضح ہونی چاہیے کہ حکومت طالبان کے ساتھ کس ایجنڈے پر بات کرے۔ اب یہ حکومت کی صواب دید ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے ایجنڈا طے کرے۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت طالبان اور ان کی حکمتِ عملی کے حوالہ سے اپنا مؤقف واضح کرے اور یہ بتائے کہ وہ طالبان سے چاہتی کیا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس سے قومی نمائندوں کا ایک مشترکہ مؤقف سامنے آنا ضروری تھا۔ اعلامیے سے یہ تو واضح ہے کہ ڈرون حملوں کے بارے میں سیاسی راہنماؤں کی رائے کیا ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ طالبان یا جن لوگوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھائے ہیں، ان کے بارے میں قومی قیادت کا کیا مؤقف ہے؟ یہ بات ہونی چاہیے تھی کہ حکومت فلاں فلاں امور پر مذاکرات کرے اور یہ کہ قومی راہنما طالبان سے جواباً یہ چاہتے ہیں۔ اس ابہام کا حل کیا ہے؟ 2۔ یہ معلوم ہے کہ دہشت گردی اور طالبان کے باب میں قومی سیاسی جماعتوں کے مؤقف میں واضح فرق ہے۔ پیپلز پارٹی کی رائے وہ نہیں ہے جو جماعتِ اسلامی کی ہے۔ قومی قیادت نے اپنی بریفنگ میں ’’اپنوں‘‘ اور ’’غیروں‘‘ کی جو تمیز کی ہے، بہت سی مذہبی جماعتیں اس کو بھی قبول نہیں کرتیں۔ مشترکہ قرارداد ان لوگوں کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہتی جو ’’غیر‘‘ ہیں۔ میں اس خاموشی کا مطلب نہیں جان سکا۔ کیا ان لوگوں کی موجودگی کے اعتراف سے ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستان کا مؤقف کمزور ہو جائے گا؟ ممکن ہے یہ پہلو پیشِ نظر ہو، لیکن ان سے صرفِ نظر کرنے سے کیا حقیقت بدل جائے گی؟ تحریکِ طالبان پاکستان کا ایجنڈا مقامی ہی نہیں بین الاقوامی بھی ہے۔ یہ القاعدہ کے زیرِ اثر ہے۔ دونوں کو اس وقت جدا کرنا اس لیے مشکل ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک ہی مذہبی تعبیر اور نظریے پر کھڑے ہیں۔ فرض کیجیے کہ کل طالبان اس تقسیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو پھر حکومت کا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟ قرارداد اس بارے میں بھی خاموش ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس پیچیدگی کو کون دور کرے گا؟ 3۔فرض کیجیے مذاکراتی عمل کا آ غاز ہو تا ہے اور ساتھ ہی امریکا کی طرف سے ڈرون حملہ ہو جا تا ہے۔طالبان کا ایک ممکنہ ردِ عمل یہ ہو گا کہ وہ مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے بعدتحریکِ انصاف، جماعت اسلامی یقینی اورجمعیت علمائے اسلام امکانی طورپرطالبان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔حکومت اس صورت میں کیا کرے گی؟ مذاکراتی عمل کی کامیابی کا بڑا انحصار اس پر ہے کہ کم از کم اس عرصے میں حملے بند رہیں جب مذاکرات جاری ہیں۔کیا امریکا سے اس سلسلے میں بات کی جا چکی؟کیا اے پی سی میں ممکنہ امریکی ردِ عمل زیرِ بحث آیا؟ 4۔ مذاکرات کے طریقہ کار کا تعین حکومت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔یہ قابلِ فہم ہے۔لیکن یہ تو معلوم ہو نا چا ہیے کہ حکومت اسے کن خطوط پر آگے بڑھا نا چاہتی ہے؟کیا وہ دوسری سیاسی جماعتوں کو اس میں شریک کرے گی؟خیبر پختون خوا کی حکومت کو اس میں شریک کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ تاہم مو لا نا فضل الرحمٰن اس عمل کا حصہ نہیں ہیںجو ان دنوں صوبے میں تحریکِ انصاف کے سب سے بڑے حریف ہیں۔اس کی کیا ضمانت ہے کہ اے پی سی میں دکھائی دینے وا لی ہم آ ہنگی بعد میں بھی باقی رہے گی؟ 5۔فوجی قیادت نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا ہے۔ وہ حکومت کی دی ہوئی پالیسی پر عمل کرے گی۔اس کو یہی کہنا چا ہیے تھا۔تاہم یہ معاملہ ا تنا سادہ نہیں ہے۔فوج طالبان اور دہشت گردی کے باب میں پالیسی ساز رہی ہے اور قوت ِ نافذہ بھی۔طالبان بھی اسے ہی اصل فریق سمجھتے ہیں۔ کیا مذاکرات کے اس عمل میں فوج کو شریک کیا جائے گا جو اصلاً ایک سیاسی عمل ہے؟بظاہر مذاکرات کا عمل اُسی صورت میں نتیجہ خیز ہو گا جب فوج اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی ہوگی۔فوج نے برسوں ایک حکمت عملی اختیار کیے رکھی۔اس کے بہت سے جوان اس معرکہ آرائی میں کام آچکے۔اس ادارے کے وجود پر بہت سے چرکے لگے۔فرد کی طرح ادارے کی بھی ایک یادداشت ہو تی ہے۔ اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔سوال یہ ہے کہ مذاکرات کے اس عمل اور اس کے ما بعد الاثرات کے حوالے سے فوج کہاں کھڑی ہے؟کیا حکومت کی حکمت عملی میں اس بات کا ادراک منعکس ہو رہا ہے؟ اے پی سی ختم ہو ئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے۔ڈھول اب حکومت کے گلے میں ہے اور اسے بہر صورت بجانا ہے۔اسے سُرتال کے ساتھ بجانے کے لیے حکومت کو ان سب سوالات کے جواب تلاش کر نے ہیں۔میں لکھ چکا کہ سب مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔اگر مزید لہو بہتا ہے توزمین کی تہہ اس کو اگل دے گی۔اس لیے مذاکرات کامیاب ہو نے چاہئیں۔ اس خواہش کے ساتھ ایک دھڑکا بھی ہر وقت لگا رہتا ہے۔فیض صاحب کا یہ شعر ان دنوں بہت یاد آتا ہے: ہاں جی کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجیے ہر راہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved