تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     08-02-2023

پرویز مشرف: کچھ یادیں

پچھلے چار‘ پانچ سال میں میری روٹین ہے کہ جب بھی میں دبئی آتا تھا تو پرویز مشرف سے یہاں میری لمبی لمبی ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ جب پچھلے مہینے 'وشو ہندی دوس‘ کے سلسلے میں مَیں دبئی آیا تھا تو پرویز مشرف کی بیگم صاحبہ سے فون پر بات ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اب ان کی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ کسی سے بات کر سکیں، وہ تقریباً بے ہوش ہی رہتے ہیں۔ اس بار جب میں دبئی آیا تو تین دن پہلے میں نے فون کیا توکسی نے بھی فون نہیں اٹھایا۔ اب کل معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مشرف کچھ سال اور زندہ رہتے تو شاید اپنا سارا وقت وہ پاک‘ بھارت تعلقات کو سدھارنے میں گزاردیتے۔ یہ بات میں اُنہی پرویز مشرف کے بارے میں کہہ رہا ہوں جنہوں نے بھارت کے خلاف کارگل جنگ چھیڑی تھی اور جنہوں نے 1999ء میں بھارت سے اچھے تعلقات بنانے کے خواہشمند وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا تھا۔ پرویز مشرف نے جس دن میاں نواز شریف حکومت کا تختہ پلٹاتھا‘ اتفاق کی بات ہے کہ اسی دن میں اورمیرے دوست سید احمدبدری قادری امریکہ کے شہر شکاگو میں جس ڈاکٹر کے گھراچانک کھانا کھانے پہنچے تھے‘ ان کا نام ڈاکٹر نوید مشرف تھا۔ ڈاکٹر نوید اور ان کی فلپائنی بیوی لگاتار ٹی وی دیکھے جا رہے تھے۔میں نے حیران ہو کر ان سے پوچھا: ایسی کیا بات ہوئی ہے؟ تو وہ بولے: دیکھئے میرے بھائی پرویز نے ابھی ابھی پاکستان میں حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔ پرویز مشرف ڈاکٹر نوید کے بڑے بھائی تھے۔ اسلام آباد‘ دہلی اور دبئی میں میری جنرل مشرف سے کئی بار ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ پرویز مشرف نے بھارت کے خلاف ماحول بنانے کی بھی کوشش کی لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ احساس چھپاہواتھا کہ وہ دہلی میں پیدا ہوئے ہیں تو بھارت کا ان پر کچھ نہ کچھ قرض ضرور ہے‘ جسے انہیں اتارنا ہی چاہئے۔ اسی لیے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں انہوں نے ایک چار نکاتی پروگرام پر اتفاق کیا تھا جس میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کا حل بھی تھا لیکن 2008ء میں انہیں مجبوراًاقتدار سے دستبردار ہونا پڑا اور وہ پلان ادھورا رہ گیا۔ ان پر طرح طرح کے الزامات لگے جس پر انہیں پاکستان چھوڑ کر لندن اور پھر دبئی رہنا پڑا اور اب دبئی کے ہی ایک ہسپتال میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ وہ عمر میں مجھ سے کچھ ماہ بڑے تھے لیکن ہمیشہ مجھے بڑے بھائی کی طرح عزت دیتے تھے۔دو‘ تین سال پہلے دبئی میں ایک ملاقات کے دوران انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری جی کو بہت پسند کرتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جب اٹل بہاری پاکستان گئے تھے تو آرمی چیف ہونے کے ناتے آپ نے انہیں سلیوٹ کیوں نہیں کیا تھا؟ وہ اس سوال کا جواب ٹال گئے لیکن انہوں نے ہر بار کہا کہ بھارت‘ پاکستان کے رشتے کو سدھارنے کیلئے ہمیں ہر چند کوشش کرنی چاہئے۔پچھلے سال انہوں نے کہا کہ آپ، میں اور ناروے کے ایک سابق وزیراعظم‘ تینوں مل کر ایک فورم بنائیں جو بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو دوستانہ بنانے کے لیے کام کرے۔ ان کی اس تجویز پر میں خاموش رہا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ زندہ رہتے تو شاید اپنی بقیہ زندگی اسی عظیم مقصد کو حاصل کرنے میں لگا دیتے۔جو کام ایوب خان نے 1966ء میں تاشقند میں لال بہادر شاستری جی کے ساتھ کیا تھا‘اس سے بھی بڑا کام وہ شاید ڈاکٹر منموہن سنگھ یا نریندر مودی کے ساتھ مل کر کردیتے۔ خیر!مرحوم کی آتما کو شانتی ملے!
کم عمر کی شادیوں کے نقصانات
بھارت میں لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر میں کرنا جرم ہے، غیر قانونی ہے لیکن اس قانون کی کون پروا کرتا ہے؟ ہندو، مسلم، عیسائی، آدی واسی، اگڑے، پچھڑے سبھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ بھارت میں تو کئی دودھ پیتے بچوں کی بھی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال تقریباً 15 لاکھ نابالغ لڑکیوں کی شادی کرا دی جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار توبین الاقوامی ادارے ''یونیسیف‘‘ کے ہیں لیکن یہ غیر ملکی ادارہ سبھی ایسی غیر قانونی شادیوں کا ٹھیک سے پتا لگا پاتا ہوگا‘ اس بارے میں مجھے شک ہے۔ یعنی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں کم عمر ی میں کی جانے والی شادیوں کی شرح 28 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش اس حوالے سے سرفہرست ہے جہاں 65 فیصد بچیوں کی شادی کم عمری میں کی جاتی ہے۔ بھارت میں 47 فیصد اورپاکستان کی 40 فیصد بچیاں18 سال سے پہلے ہی دلہن بنا کر بیا ہ دی جاتی ہیں۔ 1929ء میں انگریز نے قانون بنایا تھا کہ 18 سال سے کم عمر لڑکے اور 16 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی غیر قانونی ہو گی۔ بعد میں بھارت میں لڑکی کی شادی کی عمر کو بھی بڑھا کر 18 سال کر دیا گیا تھا۔ اب 2006ء کے ''بال وواہ ورودھی‘‘ (انسدادِ کم عمری کی شادی) قانون کے مطابق اکیلے آسام صوبے میں اس بار 1800 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان شادیوں کوغیر قانونی بھی قرار دیا گیا ہے۔ صرف آسام میں 10 دنوں میں ایسی کم عمری کی4000 شادیوں کے خلاف پولیس نے رپورٹ درج کی ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر پولیس تھوڑی اور سرگرم ہوجائے تو کیا لاکھوں لوگ پکڑے نہیں جائیں گے؟ اس طرح کے معاملوں میں لڑکے‘ لڑکی کو تو پکڑا جائے گا ہی، ان کے والدین اور شادی کرا نے والے پروہتوں، پادریوں، قاضیوں اور پنڈتوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔ کم عمر کی یہ شادیاں کئی نقطۂ نظر سے بڑی خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔سب سے پہلی بات تویہ کہ یہ برہم چاریہ کی بھارتیہ روایت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی طبی مسائل پیدا ہوتے ہیں، نوجوانوں کی طاقت ختم ہوجاتی ہے، ان کی عمر کی میعاد کم ہو جاتی ہے، بیماریاں بڑھتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کم عمر کی لڑکیاں جب ماں بنتی ہیں تو اکثر وہ اسقاطِ حمل کا شکار ہوجاتی ہیں اور اپنے جسم میں مختلف بیماریاں پال لیتی ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ کم عمر میں بچے ہوجانے سے ان کی تعداد بڑھتی ہے اور ان کو صحیح پرورش اور تعلیم کی سہولتیں نہیں مل پاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں ناخواندگی اور غربت بڑھتی ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ملک میں آبادی کا دھماکا ہو نے لگتا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمر افراد کی شادیوں کے اثرات نہ صرف لڑکیوں اور ان کے خاندانوں پر بلکہ ان کے ملک پر بھی شدید ہوتے ہیں۔ کم عمری کی شادیاں لڑکیوں کے تحفظ اور سلامتی، ان کی بنیادی صحت، سکول جانے کی اہلیت اور اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کے حق پر انتہائی منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ جہاں تک ملک پر پڑنے والے اثرات کا تعلق ہے تو کم عمری کی شادیاں غربت میں کمی اور اقتصادی ترقی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ایک طرف غربت اور جہالت ان شادیوں کی بڑی وجہ ہے تو دوسری طرف ایسے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں کہ اپنے خاندان کے کسی مرد کے کیے ہوئے کسی جرم کی پاداش میں ہرجانے کے طور کم عمر لڑکیوں کی مخالفین کے ساتھ شادی کر دی جاتی ہے۔ کم عمری کی شادی کا اصل شکار وہ بچیاں ہیں جو اپنے سے عمر میں کئی گنا بڑے مردوں سے بیاہ دی جاتی ہیں یا غربت کی وجہ سے ایک اضافی بوجھ کی طرح ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل کردی جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق پندرہ سال سے کم عمر کے دوران ماں بننے میں خطرے کا تناسب پانچ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ بھارت اب آبادی کے حساب سے چین کو بھی شکست دینے والا ہے۔ کسی ایک برادری یا ذات کی آبادی بڑھنے پر مسابقت کا احساس پورے سماج میں پھیل جاتا ہے۔ اگر شادی کی عمر بڑھا دی جائے تو بھارت کے لڑکے اور لڑکیاں اس کو دنیا کا ایک طاقتور اور خوشحال ملک بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں میری درخواست یہ ہے کہ ایسا قانونی اہتمام چاہے نہ کیا جائے لیکن ملک کے پروہت،پنڈت ،قاضی، پادری وغیرہ اس بات کو لوگوں کے دلوں میں محبت سے بٹھاسکیں تو بھارت کا بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved