تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     08-02-2023

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

معروف کہاوت ہے: دریا میں کشتی ڈوب جائے تو سب سے پہلے اپنی جان کی فکر کرنی چاہیے اس کے بعد دوسروں کی مدد کا سوچنا چاہیے۔ انسانی فطرت بھی یہی ہے کہ اگر سیلاب، زلزلہ یا کوئی بھی ناگہانی آفت آ جائے تو پہلے اپنا اور اپنے خاندان کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے، اس کے بعد ہی دیگر افراد کو بچانے کی سعی کی جاتی ہے۔ انفرادی سطح پر یہی بہترین طریق البتہ اجتماعیت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ جب آپ ایک چھت تلے بیٹھے ہوں تو صرف اپنی فکر نہیں کی جا سکتی۔ چھت گرنے کی صورت میں نقصان سب کا یکساں ہوتا ہے۔ شومیٔ قسمت دیکھئے! ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور کوئی سیاسی جماعت اس کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں نہیں مار رہی۔ سب اپنی اپنی سیاست کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اجتماعیت کل بھی زوال پذیر تھی اور آج بھی زوال پذیر ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ملک کی معیشت پیندے سے جا لگے تو زیاں سب کے حصے میں برابر تقسیم ہوتا ہے۔ بیروزگاری کا ناگ ڈسنے لگ جائے تو امیر اور غریب میں تفریق نہیں کرتا۔ مہنگائی کی آندھی چل پڑے تو سارے گھروں کے دیے بجھنے لگتے ہیں۔ پھر میاں نواز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری اور عام آدمی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ کیا کبھی ہماری اشرافیہ نے یہ سوچا ہے؟ احمد فرازؔ یاد آتے ہیں:
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
ملک بھر کی سیاسی اشرافیہ کا خیا ل ہے کہ اگر معیشت زمیں بوس ہو بھی گئی تو ان کی سیاست کی چمک مدہم نہیں پڑے گی۔ اقتدار کسی نہ کسی صورت ان کی مٹھی میں رہے گا۔ افسوس! وفاقی حکومت کو گرفتاریوں سے فرصت نہیں اور پی ٹی آئی کے پاس ہر روز کسی نئی سیاسی چال کے لیے وقت ہی وقت ہے۔ عمران خان ایک کے بعد ایک تیر ترکش سے نکال رہے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ وہ کبھی جلسے کرتے ہیں اور کبھی ریلیاں نکالتے ہیں۔ کبھی لانگ مارچ کرتے ہیں اورکبھی دھرنا دینے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی قومی اسمبلی سے استعفے دیتے ہیں اور کبھی اپنی صوبائی حکومتیں ختم کر دیتے ہیں۔ اب وہ فرماتے ہیں کہ اگر فوری طور پر نوے دن کے اندر اندر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کی تاریخ نہ دی گئی تو وہ جیل بھرو تحریک شروع کریں گے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو رجسٹریشن کرانے کا بھی کہہ دیا ہے۔ اس بات میں کیا شبہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے نوے روز کے اندر الیکشن آئین کی منشا ہے۔ اس بابت آئین کا آرٹیکل 105 واضح ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے راضی ہے اور دو بار گورنرز کو الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے خط لکھ چکا ہے مگر تاحال گورنرز تاریخ دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ کیوں؟ کیا پنجاب اور کے پی کے گورنرز کو آئین کی سربلندی کاخیال نہیں؟ کیا ان کی سیاسی وابستگی آئین کی منشا سے بالاتر ہے؟ اگر عدالت نے ان کا اختیار استعمال کیا تو کیا ان کے آئینی عہدے کا احترام کم نہیں ہوگا؟
میری دانست میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کی پالیسیاں غلط ہیں۔ دونوں کو ملک سے زیادہ اپنی سیاست کی فکر ہے۔ اگر عمران خان کو ملک کے معاشی، سیاسی اور آئینی بحرانوں کا ادراک ہوتا تو وہ کبھی صوبائی حکومتوں کو ختم نہ کرتے۔ اگر انہیں عوام کی بدحالی اور مہنگائی کی فکر ہوتی تو وہ قومی اسمبلی میں بیٹھ کر مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے مگر انہیں ہر حال میں وفاق کا اقتدار چاہیے۔ وہ وزیراعظم ہیں تو سب ٹھیک ورنہ احتجاج، ریلیاں اور لانگ مارچ ہی تحریک انصاف کا سیاسی مقدر ہے۔ ایسا ہی رویہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ انہیں بھی اس وقت ملک سے زیادہ سیاسی انتقام کی فکر ہے۔ ان دِنوں ایف آئی آرز اور گرفتاریاں ان کا من پسند مشغلہ ہے۔ کیا حکومت کے پاس کرنے کو بس یہی کام رہ گیا ہے؟ آئی ایم ایف کا وفد دورۂ پاکستان پر ہے اور معاہدہ ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت کو بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا کرنے کا کہا جا رہا ہے، نئے ٹیکسز لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر آئی ایم ایف کے مطالبات کو من و عن تسلیم کر لیا گیا تو کیا ہو گا؟ مہنگائی کا سونامی عوام کو ڈبو دے گا۔ بیروزگاری بڑھنے اور روپے کی قدر گرنے کے بعد مہنگائی کا بوجھ کتنا بڑھ ہو جائے گا‘ کیا شہباز حکومت اور عمران خان کو اس کااندازہ ہے؟ اگر خدانخواستہ یہ معاہدہ کسی وجہ سے نہیں ہوتا تو معیشت کو سہارا کیسے ملے گا؟ ایسی صورت میں خاکم بدہن ملک دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے معاہدے میں ہی عافیت ہے مگر اس پر سیاست کی گئی تو حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کا بار اب سب کو مل کر اٹھانا ہے ورنہ سیاست رہے گی نہ سیاسی جماعتیں۔ اقتدار کی طاقت ہو گی نہ کرسی کا خمار۔ پروٹوکول ہو گا نہ ہٹو بچو کی صدائیں۔ یقین نہیں آتا تو سری لنکا کے حالات دیکھ لیں۔ کل تک جو اقتدار میں تھے اور عوام کے مسائل سے لاتعلق رہتے تھے‘ آج کہاں ہیں؟ کیا عوام کے غیظ وغضب کے سامنے وہ ریت کی دیوار ثابت نہیں ہوئے؟ دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرنے والے ہی عقل مند ہوتے ہیں۔ کیا ہمارے سیاسی اکابرین عقل و خرد کا مظاہرہ کریں گے؟
عمران خان جیل بھرو تحریک ضرور شروع کریں مگر اس سے پہلے اتنا سوچ لیں کہ میدانِ سیاست میں ہر عمل کا ردعمل ضروری نہیں۔ ایسی تحریکیں سیاسی طور پر کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے ہوتی ہیں مگر موجودہ حالات میںاس کے نقصانات زیادہ ہیں۔ پولیس تحریک انصاف کے کارکنوں کو کیوں گرفتار کرے گی؟ قانونی طور پر وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ گرفتاری کے لیے ضروری ہے کہ کوئی جرم سرزد ہوا ہو۔ کیاپی ٹی آئی کے کارکن پہلے کسی جرم کا ارتکاب کریں گے یا پرانے مقدمات میں لی گئی ضمانتوں کو عدالتوں سے خارج کرایا جائے گا؟ اگرکسی جرم کی بنیاد پر گرفتاریا ں ہوئیں اور فوری فیصلے بھی آ گئے تو پھر پی ٹی آئی کیا کرے گی؟ بہت سے اہم رہنما اگلا الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہو جائیں گے۔ دوسرا‘ جیل بھرو تحریک سے پی ٹی آئی کی مقبولیت پہ زدپڑ سکتی ہے۔ اگر خان صاحب کے اعلان کے باوجود مطلوبہ تعداد میں لوگوں نے گرفتاریاں نہ دیں تو تحریک انصاف کے بیانیے کو نقصان پہنچے گا۔ جیل بھرو تحریک کا تیسرا نقصان ملکی معیشت کو ہو گا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو دوام ملے گا اور اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں مزید سکڑ جائیں گی۔ معاشی حالا ت پہلے ہی دگرگوں ہیں، خان صاحب کے اس اقدام سے وہ مزید خرابی کا شکار ہو جائیں گے۔ ممکن ہے جیل بھرو تحریک سے پی ٹی آئی کی سیاست کو کچھ فائدہ مل جائے مگر معیشت کے حصے میں صرف نقصان آئے گا۔
حکومتی صفوں سے ایسی دبی دبی آوازیں ابھر رہی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے نزدیک ملک کے معاشی اور سکیورٹی حالات ایسے نہیں کہ چھ ماہ میں دو بار الیکشن ہوں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا مگر یہ کانفرنس دو بار ملتوی ہو چکی ہے۔ کیوں؟ کیا حکومتی صفوں میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور اتحادی اس کانفرنس کا حصہ بننے سے اجتناب کر رہے ہیں؟ پی ٹی آئی تو کانفرنس میں شرکت کا اشارہ دے چکی ہے۔ اگر ایسی بات نہیں ہے اور دوسری بار کانفرنس وزیراعظم کے دورۂ ترکیہ کے باعث ملتوی کی گئی ہے تو بھی میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کی پہلی ترجیح کانفرنس ہونا چاہیے تھی۔ ترکیہ کا دورہ بعد میں بھی کیا جا سکتا تھا۔ ترکیہ میں زلزلے کی وجہ سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان پر افسوس کا جتنا اظہار کیا جائے‘ کم ہے مگر اس وقت تو خود ترک حکومت کو بھی انتظامی معاملات سے فرصت نہیں ہو گی، وہ وزیراعظم کی مہمان نوازی پر کیسے توجہ دے گی؟ ویسے بھی ملک کی معیشت کے جو حالات ہیں اور جو امن و امان کی صورتحال ہے‘ ہمیں پہلے اپنے گھر کی فکر کرنی چاہیے۔ کانفرنس ملتوی کرنا قطعاً مناسب عمل نہیں تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved