تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     08-02-2023

سچ بولنا چاہتے ہیں نہ سننا

اردو ادب کی تاریخ میں سعادت حسن منٹو کا نام بطور افسانہ نگار ہمیشہ زندہ رہے گا۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری میں جو مقام مرزا غالبؔ کو حاصل ہے، فکشن میں وہی مقام سعادت حسن منٹو کو حاصل ہے۔ اِسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ منٹو کس پائے کا لکھاری تھا۔ کہنے والے تویہ بھی کہتے ہیں کہ اُس نے عمر تو صرف 42برس کی پائی لیکن وہ ان بیالیس برسوں میں بیالیس صدیوں کی زندگی جی گیا۔ اپنی مختصر سی ادبی زندگی میں اُس نے 270کے قریب افسانے، 100سے زیادہ ڈرامے اور متعدد شخصیات کے خاکے لکھے۔ اس کے باوجود منٹو کا نام ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے۔ اُس سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ اُس نے اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے کی گستاخی کی تھی۔ ہمارے جیسے معاشروں میں یہ غلطیاں ناقابلِ معافی جرم تصور ہوتی ہیں۔ سو یہ نامور افسانہ نگار زندگی بھر مشکلات کا شکار رہاا ور مشکلات کے گرداب میں ہی 1955ء میں انتقال کرگیا۔ اس کے مرنے کے بعد وہی کچھ ہوا‘ جو ہمارے ہاں ہوتا آیا ہے کہ زندگی بھر کسی پر پتھروں کی بارش کرو اور موت کے بعد اُس کی عظمت کے گن گاؤ۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کیساتھ
یہی کچھ سعادت حسن منٹو کے ساتھ ہوا۔ پوری زندگی اُسے دھتکارا گیا‘ فحش نگاری کے طعنے دیے گئے۔ اُس کے کچھ افسانوں پر شدید تنقید ہوتی رہی‘ اس پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے مگر آج اس کی عظمت کے حوالے دیے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ منٹو کی بعض کہانیوں پر اخلاقی حوالوں سے اعتراضات اُٹھانے کی گنجائش موجود ہے لیکن اُنہیں یکسر طور پر مسترد کردینا کسی طور بھی درست روش نہیں ہوسکتی۔ منٹو کو باغیانہ خیالات کا حامل بھی ٹھہرایا گیا۔ اسے جیل یاترا بھی کرنا پڑی اور جرمانے بھی ادا کرنا پڑے۔ گویا منٹو کے ساتھ وہ سب کچھ ہوتا رہا‘ جو آج بھی بند معاشروں میں کھلے ذہن کی حامل شخصیات کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ منٹو کی موت کے بعد آہستہ آہستہ یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ وہ بہت کمال کا لکھاری تھا‘ اُسے خواہ مخواہ فحش نگاری کے طعنے دیے جاتے تھے۔ دراصل وہ جو کچھ اپنے اردگرد دیکھتا تھا‘ وہی کچھ کاغذپر منتقل کردیتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ تسلیم کر لیا گیا کہ سعادت حسن منٹو اردو فکشن کا نہایت شاندار رائٹر تھا لیکن ہم اُس کی صلاحیتوں کی قدر نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو کی موت کے بعد اُسے ملک کے اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لکھنے کو تو سعادت حسن منٹو پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے لیکن اُس کی چند تحریریں آپ تک پہنچانا مقصود ہیں جو آج بھی تروتازہ محسوس ہوتی ہیں، خصوصاً ہمارے سماجی، سیاسی اوراخلاقی حوالوں سے۔ ہم ہمیشہ ظاہری حالت کے گن گاتے ہیں لیکن کبھی بھی اپنے اندر کے سچ کا سامناکرنے کی ہمت پیدا نہیں کرسکے کہ حقیقت میں ہم ہیں کیا۔ آپ بھی پڑھیے اور سر دھنئے، اِسی بہانے منٹو کی یاد بھی تازہ ہوجائے گی۔
'' لوگوں کو اتنا مذہبی بنا دو کہ وہ محرومیوں کو قسمت اور ظلم کو آزمائش سمجھ کر صبر کرلیں، اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانا گناہ سمجھنے لگیں اور چپ چاپ سب کچھ برداشت کرتے رہیں، غلامی کو کوئی نہ کوئی مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا دن معین سمجھ کر چپ رہیں‘‘۔ اِس تحریر کا پوسٹ مارٹم خود ہی کرتے رہیے گا فی الحال آگے چلتے ہیں۔ '' رہنما جب آنسو بہا کر یہ کہتے ہیںکہ مذہب کو خطرہ ہے تو اِیسی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے مذہب کے خطرے میں ہونے کا واویلا کرتے ہیں‘‘۔''میں بغاوت کرنا چاہتا ہوں، ہر اُس شخص سے بغاوت کرنا چاہتا ہوں جو ہم سے محنت تو کراتا ہے لیکن اُس کے دام ادا نہیں کرتا‘‘۔ ''دنیا میں جتنی بھی لعنتیں ہے، بھوک اُن سب لعنتوں کی ماں ہے‘‘۔ ''یاد رکھئے کہ وطن کی خدمت شکم شیر لوگ کبھی نہیں کرسکیں گے‘ جو بھی شخص وزنی معدے کے ساتھ وطن کی خدمت کرنے کے لیے آگے بڑھے تو اُسے لات مار کر ہٹا دیجئے یا باہر نکال دیجئے‘‘۔ ''ہمارے نامور لیڈران کرام سیاست اور مذہب کو کندھوں پر اُٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو‘ جو ہر بات مان لیتے ہیں‘ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ اِنہیں نئی زندگی بخش رہے ہیں‘‘۔ '' برصغیر میں ہزاروں کی تعداد میں اخبارات اور رسائل چھپتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس سرزمین پر ابھی تک صحافت پیدا ہی نہیں ہوئی‘‘۔ ''یاد رکھئے کہ غریبی لعنت نہیں ہے، جو اِسے لعنت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ خود ملعون ہیں، وہ غریب اُس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنی کشتی خود کھیتا ہے‘‘۔ ''یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں رکھ سکتے، وہ لوگ جن کا کردار بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام درست کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا درس دینے کے لیے نکلتے ہیں، کس قدر مضحکہ خیز بات ہے‘‘۔
''ہمارے افسانوی ادب میں جن عورتوں کا ذکر کیا جاتا ہے، اُن میں سے اسی فیصد ایسی ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہیں، اُن میں اور اصل عورتوں میں وہی فرق ہے جو ٹکسالی روپے اور جعلی روپے میں ہوتا ہے‘‘۔ '' مجھ پر فحش گوئی کے الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن ایسے الزامات لگانے والے یہ نہیں جانتے کہ میں بھلا اُس معاشرے کی چولی کیا اُتاروں گا جو پہلے ہی پوری طرح سے برہنہ ہے‘‘۔ ''گداگری قانوناً بند کردی جاتی ہے لیکن وہ اسباب دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جو انسان کو گداگری پر مجبور کرتے ہیں، عورتوں کو سربازار جسم فروشی کے کاروبار سے روکا جاتا ہے لیکن اِس کے محرکات کے استیصال کی طر ف کوئی توجہ نہیں دیتا‘‘۔
بس کچھ ایسا ہی تھا سعادت حسن منٹو‘ جو عظیم افسانہ نگار ہونے کے باوجود زمانے بھر کی تنقید برداشت کرتا رہا۔ صرف اِس پاداش میں کہ وہ کبھی گند کو قالین کے نیچے دھکیل دینے کا قائل نہ ہو سکا۔ یہ تو اُس کے چند جملے ہیں، ہم اُس کی کچھ مزید تحریریں بھی بیان کرنا چاہتے تھے لیکن اِس خیال نے باز رکھا کہ کہیں ملامتیں ہماری طرف نہ لڑھکا دی جائیں کہ ہمارے ہاں اب یہی چلن جڑ پکڑ چکا ہے۔ سعادت حسن منٹو منافقت کا بہت بڑا مخالف تھا۔ اُس کے نزدیک ہمارے بیشتر معاشرتی رویے منافقت پر مبنی ہیں۔ دیکھا جائے تو اِس میں کچھ غلط نظر نہیں آتا۔ آج سیاسی میدان پر نظر ڈالی جائے تو آڈیوز‘ وڈیوز لیک کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان آڈیوز‘ وڈیوز سے جہاں چہروں سے نقاب اترتے جا رہے ہیں وہیں آفرین ہے ان پر بھی جو یہ سب کچھ لیک کر رہے ہیں۔ اپنے اصل فرائض کو پس پشت ڈال کر لوگوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ابھی تک جو کچھ سامنے آیا ہے‘ وہ دیگ کے چند ہی دانے ہیں‘ ورنہ تو دیگوں کی دیگیں سٹاک میں پڑی ہیں۔ اگر ایک آدھ دیگ بھی پوری طرح باہر آگئی تو اندازہ لگالیجئے کہ کیا ہنگامہ برپا ہوگا۔ منٹو بھی ایسی ہی باتوں اور اخلاقی گراوٹوں کو اجاگر کرتا تھا اور معاشرے کی ملامت کا نشانہ بنتا تھا۔ اگر وہ یہ سب کچھ سہتا رہا تو آج بھی چند سچ کہنے والے موجود ہیں اور وہ بھی ویسے ہی حالات کا سامنا کررہے ہیں جن حالات کا سامنا منٹو کرتا رہا تھا۔ کہنے کو آج جمہوریت کا دور دورہ ہے لیکن عملاً آج بھی ہمارے ملک میں وہی شاہانہ نظام کام کررہا ہے جس میں سچ بولنا ہی سب سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ جب حکومتیں اور طاقتور طبقے خود ہی آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیریں گے تو پھر معاشرے میں کیونکر استحکام کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟جب معاشرہ سچ برداشت کرنے کی عادت ہی نہیں اپنائے گا تو چیزیں کیسے بہتری کی طرف جاسکیں گی؟یہ سچ کو نہ برداشت کرنے کی عادت ہے کہ جس کے باعث آج کوئی بھی سچ نہیں بولنا چاہتا، نتیجتاً اوپر سے نیچے تک صرف جھوٹ ہی سننے کو مل رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved