تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-02-2023

کل آپ کچھ اور تھے

بہت کچھ ہے جو ہمیں یاد رہ جاتا ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہم یاد رکھنا چاہتے ہیں مگر یاد نہیں رکھ پاتے۔ یہ کھیل عجیب ہے۔ ہمارے حافظے کی بظاہر کوئی حد نہیں مگر حالات اُس کی حدود کا تعین کرتے ہیں۔ کسی بھی ذہن کی وسعت اور صلاحیت و سکت کا بالکل درست اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہم معلومات کے اربوں ٹکڑے محفوظ رکھ سکتے ہیں، درجنوں زبانیں سیکھ سکتے ہیں، بہت سے علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت پیدا کرسکتے ہیں مگر پھر بھی ہم اپنے عجیب و غریب ذہن سے بھرپور استفادہ نہیں کر پاتے۔ ذہن سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے لیے زندگی کا منظم ہونا لازم ہے۔ جو لوگ منظم انداز سے جیتے ہیں وہ ذہن سے یوں مستفید ہوتے ہیں کہ زندگی کا معیار بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ کسی نعمت کا حامل ہونے میں اور اُس سے مستفید ہونے کے قابل ہونے میں بہت واضح فرق ہے۔ عام آدمی اس فرق کو سمجھتا ہے نہ اس کے بارے میں کبھی سوچتا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کسی کو باپ کے مرنے پر ترکے میں بہت بڑا بزنس مل جائے اور بینک بیلنس بھی خوب ہاتھ لگے مگر اُسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اس دولت سے مزید دولت کیونکر حاصل کی جاسکتی ہے۔
ہم حافظے ہی کی بنیاد پر اپنے لیے کسی راہ کا تعین کر پاتے ہیں۔ ہم زندگی بھر جو کچھ سیکھتے ہیں وہ حافظے میں محفوظ رہتا ہے۔ اگر سیکھی ہوئی زیادہ باتیں اچھی طرح محفوظ رہیں تو انسان کے لیے بہت کچھ کرنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اُس کا کیریئر بھی پیش رفت سے ہم کنار ہوتا ہے اور سماجی اعتبار سے بھی اُس کی ساکھ بہتر ہوتی ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں وہ بھی ہمارے حافظے ہی میں جمع ہوتا جاتا ہے۔ ذہن پُرسکون حالت میں ہو تو حافظہ قابلِ رشک انداز سے کام کرتا ہے۔ ذہن کو متاثر کرنے اور اُسے افتراق و انتشار کی نذر کرنے والے عوامل زیادہ ہوں تو حافظہ بھی شدید منفی اثرات قبول کیے بغیر نہیں رہتا۔ ہم پل پل بدل رہے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے گھر کی مرغی دال برابر قرار دے کر یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے یا پھر بے نیازی برتی جارہی ہے۔ پل پل بدلنا چونکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے اس لیے ہماری خصوصی توجہ کا مستحق نہیں ٹھہرتا۔ پل پل بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ ماحول میں جوکچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہمارے حافظے، شخصیت اور فکری ساخت کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ اس کا نتیجہ؟ ہم بدلتے جارہے ہیں۔ ہماری فکری ساخت کسی مقام پر نہیں رُکتی۔ معمول کے مطابق رونما ہونے والی تبدیلیاں اِسے متاثر اور تبدیل کیے بغیر نہیں رہتیں۔ عام آدمی اس اہم تبدیلی کو زیادہ محسوس نہیں کرتا۔ بیشتر سرے سے محسوس ہی نہیں کرتے کہ ایسا کچھ ہو بھی رہا ہے۔
جو کچھ بھی ہم دیکھتے اور سنتے ہیں وہ ہمارے حافظے اور فکری ساخت کا حصہ ہی نہیں بنتا بلکہ بلکہ اُسے بوجھل بھی بناتا جاتا ہے مگر بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی۔ یومیہ بنیاد پر تبدیل ہونے والی فکری ساخت ہم سے نئی باتیں کہلواتی ہے، نئے فیصلے کراتی ہے۔ یہ سب کچھ چونکہ یومیہ بنیاد اور معمول کی سطح پر ہوتا ہے اس لیے ہم اِسے عمومی سطح پر زیادہ محسوس نہیں کرتے۔ کیا ہم ماضی میں جاکر اپنے وجود سے اپنا موازنہ کرسکتے ہیں؟ کیا ماضی کے حوالے سے زیادہ سوچنا ہمیں کچھ زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ماضی ہماری مدد کر بھی سکتا ہے تو بس ایک حد تک۔ ہم ماضی سے سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں مگر یہ سبق محض سبق ہی ہوتا ہے۔ باقی جو کچھ بھی سیکھنا ہے وہ اپنے طور پر ہی سیکھنا ہے۔ اپنے ماضی سے بھی زیادہ استفادہ اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ ہم تب کچھ اور تھے! آپ بھی اپنے ماضی سے زیادہ فائدہ اس لیے نہیں اٹھا سکتے کہ تب آپ بھی وہ نہیں تھے جو اس وقت ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان بدلتا جاتا ہے مگر خود اُسے اس کا زیادہ احساس یا اندازہ نہیں ہو پاتا۔
بیدار مغز انسان یہ بات کبھی نہیں بھولتا کہ گزرتا ہوا وقت اُسے بدلتا جارہا ہے اس لیے وہ پرانی سوچ کی مدد سے موجودہ مسائل کو حل نہیں کرسکتا۔ انسان کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ سیکھے بغیر موجودہ مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جو ماحول پر نظر رکھتے ہیں، اُس سے ہم آہنگ رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اپنے وجود کو اَپ گریڈ کیے بغیر کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پائے گا۔ یہی سوچ آپ کو بھی پیدا کرنا ہوگی۔ انسان متحرک وجود ہے۔ وہ جمادات میں سے نہیں کہ کروڑوں یا اربوں سال میں تبدیل نہ ہو۔ انسان جس قدر وقت گزارتا جاتا ہے اُس کے فکر و نظر میں تبدیلی رونما ہوتی جاتی ہے۔ وہ اپنا جائزہ نہ لے تب بھی تبدیلی کا اندازہ و احساس ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی پوری دیانت اور باقاعدگی سے اپنا جائزہ لیتا رہے تو معلوم ہوتا رہتا ہے کہ سوچ کس حد تک بدلی ہے اور کام کرنے یا سیکھنے کی لگن کا گراف کس مقام پر ہے۔ محض اندازے لگانے اور سرسری جائزہ لینے سے بات نہیں بنتی۔ معیاری طرزِ زندگی اُسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے وجود میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیتا رہے تاکہ لائحۂ عمل ترتیب دینا آسان ہوتا جائے۔
ہر انسان ہزاروں سال کے تفاعل کے ممکنہ نتائج اور اثرات کا مجموعہ ہے۔ ڈھائی‘ تین ہزار برس کے دوران دنیا بھر کی نسلوں نے جو کچھ سوچا اور کیا ہے وہ اب مجموعی طور پر ہر انسان کا ورثہ ہے۔ اب کسی ایک انسان کا ذہن بھی مکمل محفوظ نہیں۔ جو کچھ دکھائی اور سنائی دیتا ہے وہ ذہن کا حصہ بن کر انسان کو کسی نہ کسی حد تک تبدیل کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہزاروں برس کی دانش کا مجموعہ بھی ہمارے ذہن کا حصہ بننے پر تلا رہتا ہے۔ یہ معاملہ ہم سے بھرپور توجہ چاہتا ہے۔ اگر ڈھنگ سے جینا ہے، اپنی صلاحیت و سکت کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانا ہے تو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہی پڑے گا کہ ہمارا ذہنی سفر کسی مقام پر رُکتا نہیں، کچھ نہ کچھ نیا ہم سیکھتے ہی رہتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا ہی فضول ہے کہ ہم کسی نئے مسئلے کو پُرانی سوچ کے ذریعے حل کرسکتے ہیں۔ البرٹ آئن سٹائن نے یہی بات خاصے بلیغ انداز سے یوں بیان کی ہے کہ کسی بھی مسئلے کو مؤثر طور پر اُس ذہنی سطح پر رہتے ہوئے حل نہیں کیا جاسکتا جہاں وہ پیدا ہوا تھا یعنی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ذہن کا تھوڑا بلند ہونا ناگزیر ہے۔ جس نے بھی یہ حقیقت سمجھ لی وہ کامیاب رہا۔ فی زمانہ ٹیکنالوجی کی بھرمار ہے۔ ایسے میں بہت کچھ نیا سامنے آتا رہتا ہے یعنی اب سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے اور سیکھنا تقریباً لازم ہوچکا ہے۔ نہ سیکھنے کا آپشن تو (دیگر تمام زمانوں کی طرح) اب بھی موجود ہے مگر اِس کا نتیجہ بھی ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ جو بھی سیکھنے سے گریز کی راہ اپناتے ہیں وہ سیدھا ناکامی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔
زندگی ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے، بہت کچھ مانگتی ہے اور یہ کسی بھی درجے میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہم بھی تو بہت کچھ کرنا اور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ آج کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تو آج کی دنیا سے مطابقت رکھنے والا فریم آف مائنڈ پیدا کیجیے۔ گزرے ہوئے کل میں آپ کچھ اور تھے۔ تب آپ کی جتنی بھی قابلیت تھی وہ ساری کی ساری اب کارگر نہیں۔ آج کے مسائل آج کی سوچ اور مہارت سے حل ہوں گے۔ جنہیں آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ اپنے زمانے میں جیتے ہیں، گزرے ہوئے زمانوں میں کھوئے رہنے کی صورت میں وہ اپنے وجود کو محض زنگ ہی لگاسکتے ہیں۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اپنے وجود میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا درست اندازہ لگائیے اور ایسا لائحۂ عمل ترتیب دیجیے جو آپ کے آج کو زیادہ بار آور بنائے۔ گزرے ہوئے کل کی مہارت سے آج کی پیچیدگی دور نہیں کی جاسکتی۔ آج کی حدود میں رہنا سیکھئے، آج کے مسائل آج کی مہارت سے حل کرنے کو ترجیح دیجیے۔ کل آپ کچھ اور تھے اور آج کچھ ہیں۔ کل کی صرف یادیں ہیں۔ آج سامنے کی حقیقت ہے اور اِسی کے تقاضے نبھانے کو ترجیحات میں سرِفہرست رکھنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved