ہجوم بہت تھا۔ وقت کم تھا۔ مدعی شور مچا رہے تھے! فرشتہ جواب مانگ رہا تھا۔ سابق صدر مملکت کسی کو تلاش کر رہے تھے۔ وہ صاحب کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ صدر صاحب نے فرشتے کی خوشامد کی کہ تھوڑا سا وقت اور دے دے!
مدعی درجنوں کی تعداد میں تھے۔ یہ سب وفاقی محکمۂ تعلیم کے اساتذہ اور افسران تھے! صاحب نے‘ جب وہ صدرِ مملکت تھے‘ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو وفاقی محکمۂ تعلیم کا سربراہ تعینات کر دیا۔ ریٹائرڈ افسر کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا! حق اس پوسٹ پر ان اساتذہ اور افسروں کا تھا جنہوں نے عمریں اس محکمے میں لگا دی تھیں۔ یہ وفاقی محکمۂ تعلیم کی‘ سب سے بڑی پوسٹ تھی۔ لوگوں نے سمجھا چلو ریٹائرڈ ہیں! ایک آدھ سال میں چلے جائیں گے! مگر سال ختم ہوا تو ان کی ایک سال کی توسیع کر دی گئی! اب تو وہ جو حقدار تھے‘ پریشان ہونے لگے۔ کچھ عدالتوں میں گئے۔ کچھ مصلوں پر بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگے! کچھ نے جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر بد دعائیں دیں! دوسرا سال ختم ہوا تو مزید ایک برس کی توسیع دے دی گئی۔ عام روایت یہی تھی کہ وہ صاحب‘ صدر صاحب کے شاید استاد بھی تھے۔ ایک توسیع‘ غالباً‘ چودھری صاحب سے بھی‘ جب وہ وزیراعظم تھے‘ دلوائی گئی۔ مجموعی طور پر پانچ بار توسیع ملی۔ اس عرصہ میں کتنے ہی حقدار ریٹائر ہو گئے! کتنے ہی عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ گئے۔ کتنے ہی مر گئے۔
اب جب صور پھنکا تو یہ متاثرین دوڑے دوڑے آئے اور صدر صاحب کے درپے ہو گئے۔ صاحب کو بتایا گیا کہ اگر کائنات کی اس سب سے بڑی عدالت کو مطمئن نہ کیا گیا تو سزا سنا دی جائے گی۔ ان کی نیکیاں ان لوگوں کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی اور ان مدعیان کے گناہ اِن کے تھیلے میں انڈیل دیے جائیں گے۔ صدر صاحب نے مہلت مانگی جو مل گئی۔ آخر بریگیڈیئر صاحب نظر آگئے۔ صاحب نے ان سے کہا کہ آپ کی وجہ سے میں پکڑا گیا! اب آپ اپنی کچھ نیکیاں ان متاثرین کو دیجئے۔ میں نے تو سب کچھ آپ کے لیے کیا تھا!وہ یہ سن کر ایک سفاک ہنسی ہنسے۔ کہنے لگے‘ وہ تو آپ کا اپنا فعل تھا! نہ تعینات کرتے مجھے! میں اپنے کیے کا حساب دوں یا آپ کے کیے کا؟ یہ کہا اور ایک فرشتہ ان کو پکڑ کر ایک جانب چل دیا! صدر صاحب کی بہت سی نیکیاں ان سے لے لی گئیں!
پاکستان میں ایک محکمہ ہے پوسٹ آفس کا۔ اس کے افسران مقابلے کا امتحان پاس کرکے آتے ہیں۔ تیس‘ پینتیس سال کی سروس اور محنت کے بعد وہ اس محکمے کے سربراہ لگتے ہیں۔ یعنی چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل! صدر صاحب نے یہاں بھی اپنے ایک دوست کو لگا دیا۔ ان کا اس محکمے سے‘ اس کے کام سے‘ دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ یعنی جو ایک ہی اعلیٰ گریڈ کی پوسٹ تھی‘ وہ بھی حقداروں سے لے لی! جن کی باری تھی‘ سربراہ بننے کی‘ وہ آرزو اور حسرت اور تپش اور ارمان لے کر گھروں کو چل دیے۔ آج وہ بھی آ موجود ہوئے اور گریبان گیر ہونے لگے۔ جس دوست کو اس منصب پر لگا کر دوست نوازی کی تھی‘ اس نے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔ باقی نیکیاں صدر صاحب کی جو بچی تھیں‘ لے کر ان مدعیوں کے تھیلوں میں ڈال دی گئیں!
ابھی یہ لوگ گئے ہی تھے کہ مشتاق رضوی آگئے اور آتے ہی گریبان سے پکڑ کر ایک طرف کو گھسیٹنے لگے! مشتاق رضوی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس کا نوٹس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی لیا تھا۔ مشتاق رضوی کی بیوہ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے بیٹھ کر دہائی دی تھی اور روئی تھی اور اُس ظلم پر فریاد کی تھی جو اس کے میاں پر ڈھایا گیا تھا۔ یہ وا قعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ صدر مملکت اپنے آپ کو ہر قانون‘ ہر عدالت‘ ہر اصول‘ ہر ضابطے اور ہر منطق سے ماورا سمجھتے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انڈونیشیا کے پاکستانی سفارت خانے میں انہوں نے اپنے ایک دوست کو سفیر لگا دیا۔ اس دوست کا اس پوسٹ پر کوئی حق تھا نہ ہی وہ اس کا اہل تھا۔ صاحب کو کون بتاتا کہ ظلم کی اصل تعریف ہی یہ ہے کہ ''وضع الشیء فی غیر محلہ‘‘۔ کسی شے کو وہاں رکھنا جہاں اس کی جگہ نہ ہو۔ جو جس منصب کا اہل نہ ہو‘ اسے اس منصب پر لگانا ظلم ہے اور بدترین دوست نوازی! سفیر کے نیچے مشتاق رضوی تعینات تھے جو فارن سروس کے سینئر اور تجربہ کار افسر تھے۔ سفیر نے سفارت خانے کی عمارت کو‘ جو حکومت پاکستان کی ملکیت تھی‘ بیچ دیا اور انتہائی غلط اور غیر قانونی طریقے سے بیچا۔ وزارتِ خارجہ سے پوچھا نہ حکومتِ پاکستان سے۔ سودا بھی شفاف نہ تھا۔ مشتاق رضوی نے اس ڈاکے کے بارے میں وزارتِ خارجہ کو اطلاع دے دی! بس یہ قصور تھا مشتاق رضوی کا! مشرف صاحب نے انہیں معطل کر دیا! پھر انہیں وزارتِ خارجہ سے نکال کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ نتھی کر دیا۔ ایسا پہلی بار ہوا۔ مشتاق رضوی کے سات آٹھ سال سروس کے باقی تھے۔ یہ سارا عرصہ ان کا بغیر کسی دفتر کے‘ بغیر کسی تعیناتی کے گزرا۔ وہ ایک قابل اور دیانت دار افسر تھے۔ بہت اوپر تک جاتے‘ فارن سیکرٹری بننے کے اہل تھے۔ مگر گھر بیٹھے ریٹائر ہو گئے۔ ان کی عرضی تک اوپر کوئی نہیں بھیجتا تھا۔ اسی صدمے سے دل کا دورہ پڑا اور چل بسے! اس ظلم کو چھپانے کے لیے تین افسروں پر مشتمل انکوائری کمیٹی کو انڈو نیشیا بھیجا گیا۔ کمیٹی نے وہی کیا جو صاحبِ اقتدار چاہتا تھا! مشتاق رضوی کا استغاثہ مضبوط تھا! فرشتوں نے اس کے گناہ اس کے تھیلے سے نکالے اور سابق صدرِ مملکت کے تھیلے میں ڈال دیے! اب تھیلا کافی بھاری ہو گیا۔ کمر جھک گئی!
بہت کچھ اور بھی ہے! سفیرِ افغانستان ملّا عبدالسلام ضعیف کو کس طرح برہنہ کرکے امریکیوں کے حوالے کیا گیا! لال مسجد کی خونریزی سے بچا جا سکتا تھا مگر خون کے دریا بہا دیے! اکبر بگتی کو مار دیا گیا! وہ ایک محب وطن سردار تھا! الطاف حسین نے بھارت میں پاکستان کے خلاف زہر بکھیرا اور اس کے وجود کو چیلنج کیا۔ جب دہلی میں پاکستانی سفارت خانہ غم میں ڈوبا ہوا تھا تو اسے حکم پہنچا کہ الطاف حسین کو سرکاری عشائیہ دیا جائے! بینظیر بھٹو کی جائے قتل کو چند گھنٹوں کے اندر اندر دھو دیا گیا۔ یہ سب کچھ ایک طرف اور ڈاکٹر شازیہ خالد کا معاملہ ایک طرف! پاکستان کی اس بیٹی کی آبرو ریزی کی گئی۔ ملزم کے بارے میں پرویز مشرف نے ٹیلی وژن پر آکر کہا کہ وہ بے گناہ ہے! کوئی تفتیش نہ انکوائری! ڈاکٹر شازیہ کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ نظر بند کر دیا گیا۔ پھر زبردستی باہر بھیج دیا گیا! بی بی سی پر جو انٹرویو ڈاکٹر شازیہ نے بعد میں بیرونِ ملک سے دیا اس میں انہوں نے بتایا کہ انہیں باہر بھیجنے میں ایک ٹی وی اینکر اور ایک نیوز ایجنسی کے اُس وقت کے ایک ڈائریکٹر کا کردار بھی تھا! ڈاکٹر شازیہ خالد کا کیس بہت درد ناک ہے۔ انٹرنیٹ پر اس کی لرزہ خیز‘ مہیب‘ تفصیلات موجود ہیں! سابق صدر صاحب نے جو ظلم ڈھائے ان میں سیاہ ترین ظلم شاید یہی ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved