تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     09-02-2023

خوفناک زلزلہ اور سیاسی آفٹر شاکس

ہم کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائیں‘ کیسی ہی دیو ہیکل عمارتیں بنا لیں‘ ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے ڈالیں لیکن قدرت کے سامنے ہماری حقیقت ایک تنکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ترکیہ اور شام میں زلزلے سے آئی حالیہ تباہی یہ تلخ حقیقت سمجھانے کیلئے کافی ہے۔ دلخراش مناظر ہماری سکرین پر ابھر رہے ہیں۔ کثیر المنزلہ عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔ ملبے کے نیچے پھنسے افراد موبائل فونز کے ذریعے پیغامات اور اپنی لوکیشنز بھیج رہے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے لیکن بدقسمتی سے تباہی کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ ریسکیو تنظیمیں بے بس نظر آتی ہیں۔ دس بارہ منزلہ زمین بوس عمارت کے ملبے تلے دبے ہوئے لوگوں کو نکالنا ناممکن نہیں تو کم از کم جان لیوا ضرور ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 80ہزار افراد اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ موسم کی سختی کے باعث ملبے سے زیادہ سردی اور بعض علاقوں میں برفباری نے ریسکیو ورکرز کو پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔ وہ اس مشکل کا شکار ہیں کہ برف ہٹائیں یا جاں بلب افراد کو کسی طرح جلد از جلد باہر نکالیں۔ برف اور ملبے سے سڑکیں بلاک ہیں۔ ریسکیو ٹیموں کو نقل و حمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بجلی‘ گیس اور انٹرنیٹ کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ صحت کے مراکز بھی باقی نہیں رہے۔ ملبے کے ڈھیر پر کتنے ہی بے کس افراد اپنے پیاروں کی لاشوں کو تکتے یا ان کے ہاتھ پکڑے بے بسی سے بیٹھے نظر آئے۔ زلزلے کے ایک جھٹکے نے ان کی زندگی کیا سے کیا کردی۔ اس تمام صورتحال پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ اداسی کا ایک غلبہ ہے جس نے پاکستانی عوام کو بھی اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ ترکیہ کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان پر جب بھی مشکل وقت آیا ہے‘ ترکیہ نے آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے سخت حالات کے باوجود ترکیہ کی مدد کے لیے اخوت اور ایثار کا مظاہرہ کریں۔
ترکیہ اور شام میں آئے زلزلے اور آفٹر شاکس نے اقوام متحدہ کے مطابق 2کروڑ 30لاکھ افراد کو شدید متاثر کیا ہے اور تادم تحریر 11ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 40ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ زلزلہ دنیا میں اگست 2021ء کے بعد آنے والا سب سے طاقتور زلزلہ ہے جبکہ ترکیہ میں 1999ء کے بعد آنے والا یہ سب سے تباہ کن زلزلہ ہے۔ اسی طرح شام میں ہونے والا نقصان بھی دل دہلا دینے والا ہے۔ خصوصاً اِن حالات میں جبکہ شام کے باسی ایک طویل عرصے سے خانہ جنگی‘ دہشت گردی اور انفراسٹرکچر کی تباہی کا شکار ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ترکیہ کی امداد کے لیے تو امریکہ سمیت بیشتر مغربی ممالک میدان میں اتر چکے ہیں لیکن شام کے حوالے سے ان کے یہاں ایک طویل خاموشی ہے کیونکہ وہ شام کے رہنے والوں کے مسائل سے زیادہ ان کے حکمرانوں سے اپنی سیاسی مخالفت کو مد نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بہرحال‘ ترکیہ اور شام میں اس وقت غم اور تکلیف کا جو ماحول ہے‘ پاکستان بھی مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ زلزلے کی خبر آتے ہی پاکستان نے ترکیہ کے لیے ریسکیو ماہرین‘ سونگھنے کے ماہر کتے‘ سرچ کے آلات‘ جنریٹرز‘ خیمے اور موبائل ہسپتال مع ڈاکٹرز روانہ کردیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مزید ادویات اور راشن بھیجنے کے حوالے سے خصوصی احکامات بھی جاری کیے ہیں۔ ترکیہ کے ساتھ ساتھ شام کو بھی امداد اور امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے یاد رکھنا چاہیے‘ 2011ء سے خانہ جنگی کا شکار مظلوم شام بھی ہماری مدد کا مستحق ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق‘ شام میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ بھی موجود ہے جو ایک نیا سانحہ ثابت ہو سکتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں سیاسی اور معاشی زلزلوں کا آنا معمول بن چکا ہے‘ جس کے آفٹر شاکس ہمیں طویل عرصے تک محسوس ہوتے رہیں گے۔ آج آئی ایم ایف کا 9واں جائزہ مشن مکمل ہونا ہے۔ گوکہ تادم تحریر آئی ایم ایف اور پاکستان میں ہونیوالے مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے کوئی خیر کی خبر سامنے نہیں آئی لیکن امید ہے کہ آج پاکستان کے لیے قرضے کی اگلی قسط کا اعلان ہوجائے گا کیونکہ سچی بات ہے کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن بھی موجود نہیں‘ ورنہ ہم ڈیفالٹ کر سکتے ہیں۔ پہلے ہی پنجاب کے بیشتر شہروں میں پٹرول کی خود ساختہ قلت کا آغاز ہو چکا ہے۔ ڈسٹری بیوٹرز نے اس خوف سے سپلائی روک دی ہے کہ ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمد رک جائے گی جس کے باعث ملک میں تیل کی سنگین قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مطابق اس وقت تیل کی مصنوعات کا کوئی مزید آرڈر نہیں دیا جارہا ہے اور ملک میں مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے 20سے 30دنوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے اکثر شہروں میں صرف 20سے 30فیصد پٹرول پمپس کھلے ہیں جہاں پٹرول ڈلوانے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسحاق ڈار صاحب اپنی ''ڈارونامکس‘‘ اپنے پاس رکھیں اور دنیا میں اقتصادیات کے جو مسلمہ اصول رائج ہیں‘ ان پر عمل کرتے ہوئے معیشت کو چلانے کی کوشش کریں۔ آئی ایم ایف سے اگلی قسط نکلوائیں تاکہ دوست ممالک‘ جنہوں نے آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کیلئے اپنی رقوم روکی ہوئی ہیں‘ وہ بحال ہوں۔ ملک میں ڈالر واپس آئے‘ ایل سیز کھلیں اور ملک میں کاروباری سرگرمیاں پھر سے بحال ہوسکیں۔
سیاسی محاذ پر بھی حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اپنے چونچلوں سے ہی فرصت نہیں۔ حکومت اس وقت اُسی انتقامی سیاست کا مظاہرہ کررہی ہے جو تحریک انصاف نے اپنے پونے 4سالہ دور میں روا رکھی۔ یعنی ہماری سیاسی جماعتوں کے رویوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر پی ڈی ایم اپنے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں کو ناحق قرار دے کر اپنی اخلاقی بلندی کا کوئی جواز گھڑتی تھی تو وہ جواز فواد چودھری اور شیخ رشید کی گرفتاریوں سے ختم ہو چکا ہے۔ اسی طرح عمران خان صاحب جس طرح اپنے سیاسی مخالفین کو بھگوڑے اور نجانے کن کن القابات سے نوازتے تھے‘ اب خود مختلف کیسوں میں عدالتوں سے بھاگ رہے ہیں اور عدالتوں میں پیش ہونے سے کترا رہے ہیں۔ نہ وہ توشہ خانہ کیس میں پیش ہوئے اور نہ ہی ٹیریان کیس میں۔ ان کی کوشش ہے کہ اُنہیں تمام کیسز میں ضمانتیں مل جائیں اور جیل نہ جانا پڑے۔ جبکہ دوسر ی جانب وہ ''جیل بھرو تحریک‘‘ چلانے پر بھی مُصر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ جیلیں ہی بھرنا چاہتے ہیں تو پھر ضمانتوں اور قانونی موشگافیوں کے پیچھے کیوں چھپ رہے ہیں؟
اب عمران خان صاحب نے ایک اور پلان شیئر کیا ہے جس کے مطابق انہیں قتل کرنے کے لیے وزیرستان میں پیمنٹ کردی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم کے مطابق انہیں اس منصوبے کی تمام تفصیلات مل گئی ہیں۔ اگر خان صاحب کے پاس تمام تفصیلات موجود ہیں تو پھر انہیں یہ باتیں اپنے ترجمانوں کے اجلاس میں کرنے کے بجائے پبلک کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ پیسے دینے اور لینے والوں کی شناخت سوشل میڈیا کے ذریعے پبلک کردیں تاکہ یہ منصوبہ اگر موجود ہے تو اپنی موت آپ مر جائے۔ دوسری صورت میں آپ کے مخالفین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ آپ یہ کہانی اس لیے گھڑ رہے ہیں تاکہ سکیورٹی رسک کی بنا پر آپ کو اپنے کیسوں میں پیش نہ ہونا پڑے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved