زلزلوں کو خطرناک ترین قدرتی آفات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بہت خوفناک ہوتے ہیں اور ہمیشہ اچانک ہی آتے ہیں۔ بڑے زلزلے ہر بار اپنے ساتھ بے پناہ تباہی لاتے ہیں۔ سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود زلزلوں کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے اساتذہ ہمیں بتاتے تھے کہ زلزلے زمین کی پرتوں کے ہلنے کی وجہ آتے ہیں۔ زمین مسلسل گردش اور حرکت میں رہتی ہے اور مسلسل تغیر کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں اور ان کی وجہ سے زمین پر بہت زیادہ تباہی ہوتی ہے۔ میں نے بطور طالب علم جغرافیہ پڑھ رکھا ہے۔ مجھے نقشے بنانے اور پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں اکثر فالٹ لائنز کے بارے میں پڑھتی اور زمین کی پرتوں پر غور کرتی‘ جن کو پلیٹس کہا جاتا ہے۔ بعض شہر تو پورے کے پورے فالٹ لائنز پر قائم ہیں۔ وہاں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کشمیر‘پشاور اور اسلام آباد میں آئے دن زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک کا سب سے بڑا اور خوفناک زلزلہ 2005ء میں آیا تھا۔ اس میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ اس زلزلے کے بعد سے مجھے زلزلوں سے بہت خوف محسوس ہوتا ہے۔زلزلے نہ صرف انسانوں کو خوفزدہ کرتے ہیں بلکہ ان کو معاشی طور پر بدحال بھی کردیتے ہیں۔ جو لوگ ان کا سامنا کرتے ہیں‘ وہ زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی امراض کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت مدت گزر جاتی ہے مگر انسان اس ڈر اور خوف کی کیفیت سے نکل نہیں پاتا۔ اس کو ادویات اور تھراپی کی ضرورت پڑتی ہے۔ نظروں کے سامنے پلک جھپکنے میں عمارتوں کا گر جانا‘ زمین کا ہلنا اور لوگوں کا ملبے تلے دب کر زخمی ہوجانا یا ہلاک ہوجانا ایک بہت بڑا ٹراما ہے۔ زلزلوں کی ایک گونج بھی ہوتی ہے‘ اگر یہ زیادہ ہو تو شیشے تک ٹوٹ جاتے ہیں‘ ان کے سبب آتشزدگی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ جنہوں نے یہ سب کچھ جھیلا ہو‘ ان کو اس ٹراما سے نکلنے کے لیے بہت وقت لگ جاتا ہے۔
اس وقت ہمارا برادر مسلم ملک ترکیہ اس تکلیف سے گزر رہا ہے۔ وہاں زلزلہ آیا اور یہ اتنا شدید تھا کہ ہزاروں بلند و بالا عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ ہزاروں لوگ جانبر نہیں ہوسکے۔ترکیہ اور شام میں زلزلہ صبح کے وقت آیا۔ اس وقت آسمان پر بجلی بھی چمک رہی تھی جبکہ بعض علاقوں میں برفباری ہو رہی تھی۔ اس زلزلے کے جھٹکے اردن، عراق، لبنان اور یونان تک محسوس کیے گئے لیکن زیادہ نقصان ترکیہ اور شام میں ہوا ہے۔ لوگ اس وقت آرام سے گہری نیند سورہے تھے جب صبح 4 بج کر 17منٹ پر آنے والے زلزلے کے بعد ہر طرف قیامت برپا ہوگئی۔ کئی کئی منزلہ عمارتیں یوں گریں جیسے ریت کا ڈھیر ہوں، کئی سڑکیں اور پل بھی ٹوٹ گئے۔ ترک میڈیا کے مطابق اب تک ملبے سے گیارہ ہزار سے زائد لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ 32 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ماہرِ ارضیات کے مطابق زمین کی عرب پلیٹ اور اناطولیہ پلیٹ پر آنے والا یہ زلزلہ خشکی پر آنے والے بڑے زلزلوں میں سے ایک تھا۔ اس زلزلے کا مرکز ترکی کا علاقہ قاہرمان ماراش تھا اور زلزلے کی شدت 7.8تھی۔ ترکیہ کے 10 صوبے اس زلزلے سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت ترکیہ میں چوتھے درجے کی ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ لوگ اس وقت سخت سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بے شمار افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔متاثرہ علاقوں میں وقفے وقفے سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں۔ ترکیہ اور شام سے ایسی ایسی وڈیوز سامنے آئی ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ عالمی برادری نے فوری طور پر امدادی ٹیمیں ترکیہ اور شام بھیجنا شروع کردی ہیں۔ سب سے پہلے آذربائیجان کے فوجی ترکیہ پہنچے اور امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد امریکہ‘ یورپی یونین‘ میکسیکو‘برطانیہ‘ یونان‘ روس‘ مالٹا‘کویت‘ چین‘ قازقستان‘ فرانس‘ نیٹو اور دیگر ممالک نے بھی اپنے دستے روانہ کیے۔ پاکستان نے نہ صرف امدادی سامان کا ایک طیارہ بھیج دیا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ریسکیو اور ریلیف کے لیے اہلکار بھی بھیجے جارہے ہیں تاکہ اس مشکل وقت میں برادر مسلم ملک کی مدد کی جا سکے۔ متحدہ عرب امارات نے 50 ملین ڈالر اور کینیڈا نے 10 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔
دنیا بھر سے آئے ریسکیو اہلکار ملبے تلے دبے لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں مگر جیسے جیسے وقت گزررہا ہے‘ لوگوں کے زندہ ملنے کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ رو رہے ہیں‘ خوف زدہ ہیں‘ ان کے پاس گرم کپڑے اور کھانے کی چیزیں نہیں ہیں؛تاہم ترکیہ کی حکومت تیزی سے متاثرہ لوگوں تک پہنچ رہی ہے اور ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں؛ تاہم سڑکیں ٹوٹنے سے متاثرہ علاقوں میں پہنچنے میں دقت کا سامنا ہے۔ ایسے میں ہیلی کاپٹروں سے مدد لی جا رہی ہے مگر اس طرح امدادی کام سست روی کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ ہیلی کاپٹروں کی تعداد محدود ہوتی ہے جبکہ ان میں نہ تو ہیوی مشینری متاثرہ علاقوں تک پہنچائی جا سکتی ہے نہ ہی زیادہ امدادی سامان لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
شام میں بھی بہت برا حال ہے۔ یہ ملک جنگ کی وجہ سے بدحال ہے۔ اس کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں کہ اپنے طور پر اتنے بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں کرسکے۔ برطانوی جریدے گارجین کے مطابق شام میں ہلاکتوں کی تعداد 2 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ وہاں بھی موسم سخت سردہے جبکہ وسائل نہایت محدود، اب چونکہ زلزلے کو چار دن ہو چکے ہیں‘ ایسے میں لوگوں کے زندہ بچنے کی امید دم توڑ رہی ہے۔ منفی درجہ حرارت اور اتنے بڑے پیمانے پر تباہی اور قدرتی آفات کے سامنے انسان بے بس ہوجاتا ہے۔ شام ہی سے خبر ملی کہ زلزلے کے دوران ایک حاملہ خاتون دم توڑ گئی لیکن اس کی بچی کو زندہ بچا لیا گیا اور بحفاظت نکال لیا گیا۔ جس کی زندگی اللہ تعالیٰ نے لکھی ہوئی ہے‘ وہ اتنے ہولناک زلزلے میں بھی بچ جاتا ہے۔ شام کی حکومت نے یورپی یونین سے باضابطہ طور پر امداد کی درخواست کی ہے۔ ترکیہ نے پہلے ہی یہ درخواست کر رکھی ہے مگر اب اس نے بھی کمبلوں، خیموں اور ہیٹرز کے لیے مزید درخواست کی ہے۔ شام میں ریلیف کے کاموں میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ متاثرہ علاقوں میں کہیں کنٹرول حکومت کے پاس ہے اور کہیں مختلف باغی گروپوں کے پاس۔ باغیوں کے ڈر سے کئی ممالک اپنی ٹیمیں شام بجھوانے سے گریزاں ہیں۔
اس زلزلے میں جہاں ہزاروں قیمتی جانیں چلی گئیں‘ وہاں لاکھوں لوگ زخمی ہیں اورراتوں رات کھلے آسمان تلے آگئے ہیں۔ ایک ہی جھٹکے میں انہوں نے اپنے پیارے بھی کھو دیے اور اپنا مال و اسباب بھی لٹا بیٹھے۔ عمارتوں کے گرنے کی وجہ سے لوگ ڈر کے مارے اپنے گھروں میں بھی نہیں جا رہے۔ بہت سے لوگ سڑکوں پر آگ جلا کر بیٹھے ہیں اور مدد کے منتظرہیں۔ ایسے زونز‘ جو فالٹ لائن پر ہیں اور جہاں پہلے بھی زلزلے آچکے ہیں‘ وہاں بلند و بالا عمارتوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس زلزلے میں بھی سب سے زیادہ نقصان بلند رہائشی عمارتوں کے گرنے سے ہوا ہے۔ مجھے اسلام آباد میں بلند رہائشی عمارتیں دیکھ کر ہمیشہ خوف محسوس ہوتا ہے۔ یہاں تو بلند عمارتوں میں آگ لگ جائے تو فائر بریگیڈ کی سیڑھی تک نہیں پہنچ پاتی‘ اگر خدانخوستہ زلزلہ آجائے تو کیا ہو گا؟ مجھے یاد ہے کہ جب مارگلہ ٹاور زمین بوس ہوا تھا تو انتظامیہ فوری طور پر کچھ کرنے سے قاصر تھی۔ اب ترکیہ اور شام میں متعدد رہائشی عمارتیں مہندم ہوگئی ہیں اور امدادی کارروائیوں میں مشکل پیش آرہی ہے۔ عالمی برادری کو اس وقت شام اور ترکیہ سمیت دیگر ان ممالک کی مدد کرنی چاہیے جو اس قدرتی آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ متاثرین کو گرم کپڑوں‘ کھانے پینے کی چیزوں‘ صاف پانی اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔ جو لوگ زخمی ہیں‘ ان کو علاج اور تھراپی کی ضرورت ہے۔ ان کی بحالی کاکام بھی ضروری ہے کیونکہ یہ اپنے گھروں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ اس وقت ساری دنیا کو مدد کے لیے سامنے آنا ہوگا اور متاثرین کی مدد کرنا ہوگی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved