تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-02-2023

نازک بمقابلہ تاریخ ساز

اسد عمر صاحب کہتے ہیں ملک نازک نہیں بلکہ تاریخ ساز وقت سے گزر رہا ہے۔ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں ہیجانی کیفیت ہے، سب کو دکھائی دے رہا ہے کہ پرانے نظام کے دن ختم ہوچکے ہیں، قوم فیصلہ کر بیٹھی ہے، اب کوئی اُسے روک نہیں سکتا، اس جنگ میں ہر طبقے کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، آئی ایم ایف سے مذاکرات کے معاملے پر عجیب و غریب کہانیاں سُنائی دے رہی ہیں۔ اسد عمر چونکہ سیاست دان ہیں اِس لیے وہ موجودہ صورتِ حال کو سیاسی عینک ہی سے دیکھیں گے اور ایسا کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ سوال نیت کے اِخلاص کا ہے۔ اگر نیت میں اِخلاص نمایاں ہو تو معاملات کو کھل کر بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسد عمر سیاست کے میدان میں خاصے تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ اُنہوں نے ملک بھر میں پائی جانے والی مجموعی ہیجانی کیفیت سے متعلق بات درست کی ہے۔ اس وقت ملک کا کوئی بھی حصہ ہیجان سے محفوظ نہیں۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ تو پریشان ہے اور کہیں دور کوئی محفوظ ہے۔ ملک کے حالات خراب ہیں تو سبھی کے لیے خراب ہیں۔
پُرانے نظام کی بات غور طلب ہے۔ ہمارے ہاں سسٹم کا رونا بہت رویا جاتا ہے۔ آئے دن یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پُرانا نظام جانے کو ہے اور نیا نظام بس آنے ہی والا ہے۔ نئے نظام کی آمد کا دعویٰ اِس طور کیا جاتا ہے گویا یہ کوئی کپڑے بدلنے کا معاملہ ہے! کسی بھی نظام کی بساط لپیٹنے میں ایک زمانہ لگتا ہے اور پھر نئے نظام کے متعارف کرائے جانے کے لیے بھی میدان تیار کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ محض زبان ہلا دینے سے کسی نظام کی بساط لپیٹ لی جائے اور نیا نظام لے آیا جائے۔ ہمارے ہاں سادہ لوحی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت کی تبدیلی کو بھی نظام کی تبدیلی قرار دے کر دل بہلایا جارہا ہے۔ چند ماہ سے ''رجیم چینج‘‘ کی اصطلاح بہت مقبول ہوئی ہے۔ کیا عمران خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی اور اُس کے اتحادیوں کی حکومت کوئی رجیم تھی؟ یا آنے والی حکومت رجیم ہے؟ رجیم کا لفظ بالعموم کسی مخصوص نوعیت کی حکومت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایران اور شمالی کوریا کی حکومتیں یا پھر عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں معمر قذافی کی حکومتیں۔ اِس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ جس طرح ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں بالکل اُسی طور ہر معاملے، ہر ایشو اور ہر واقعے کے دو مختلف پہلو یا رخ ہوتے ہیں۔ ایک ہی صورتِ حال ہمارے لیے مسئلہ ہوسکتی ہے مگر کسی اور کے لیے وہ سنہرا موقع بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اور اگر ہم بھی عقل سے کام لیں تو مسئلے کی شکل میں سامنے آنے والی صورتِ حال کو اپنے لیے چیلنج میں تبدیل کرکے اُس سے کچھ نہ کچھ فوائد کشید کرسکتے ہیں۔ ہاں‘ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ایسا محض سوچنے سے نہیں ہو جاتا۔ معاملات کو اُن کی ظاہری شکل سے ہٹ کر دیکھنے کے لیے دیدۂ بینا درکار ہوتا ہے۔ دیدۂ بینا یونہی پیدا نہیں ہو جایا کرتا ع
یہ تو اِک عمر کی ریاضت ہے
اس میں بھلا کیا شک ہے کہ ملک انتہائی سنگین حالات سے دوچار ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ کسی بھی مسئلے کو بحران بنتے اب زیادہ دیر نہیں لگتی۔ حالات کی ایسی نہج واقعی انتہائی خطرناک اور حوصلہ شکن ہوا کرتی ہے۔ ایک مدت سے یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے یا نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ راگ اِتنا الاپا گیا ہے کہ اب تو اِسے سن کر اُبکائی سی آنے لگتی ہے۔ ایک ہی بات تواتر سے کب تک سنی اور جھیلی جاسکتی ہے؟ معاملات اُس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ لوگ رونا رونے کے لیے تو تیار رہتے ہیں مگر جب اُنہیں بتایا جائے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اُس سے ہٹ کر بھی چند ایک باتیں ہیں جن پر متوجہ ہونا لازم ہے تو بِدکنے لگتے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ معاملات کو درست کیسے کیا جاسکتا ہے۔ سارا زور صرف رونا رونے پر اور شکوہ کرتے رہنے پر ہے۔ لوگ حالات کے بگاڑ سے پریشان ہیں اور کسی نہ کسی طور اپنا دُکھڑا رونا چاہتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ع
نہ رو اے دِل! کہیں رونے سے تقدیریں بدلتی ہیں
یہ بات شاید ہمارے ہاں کم ہی لوگوں نے سنی اور سمجھی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام کی عمر اِتنی زیادہ ہے کہ اب تو یاد بھی نہیں آتا کہ حقیقی سیاسی استحکام کب تھا اور کبھی تھا بھی یا نہیں۔ آج کی نسل نے تو سیاسی استحکام دیکھا ہی نہیں ہے۔ اُس نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر طرف صرف ابتری دیکھی ہے، حالات کو بگڑتے ہی دیکھا ہے۔ بگڑے ہوئے حالات حواس پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف تو معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف کام کرنے کی اور معاملات کو درست کرنے کے لیے درکار لگن بھی متاثر ہوتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں بہتری کی صورت مشکل سے نکل پاتی ہے۔ انسان مایوسی کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور مایوس رہنے ہی میں زیادہ عافیت محسوس کرتا ہے۔ قنوطیت پسندی کا سبب تلاش کرنا بھی کچھ مشکل نہیں۔ قنوطیت پسندی انسان کو عمل سے دور کرتی ہے۔ مایوس رہیے اور کچھ نہ کیجیے۔ ایسی حالت سے دور رہنا کون گوارا کرے گا؟ ملک کی نازک حالت اہلِ وطن کے دل دہلا رہی ہے۔ اہلِ سیاست کی چرب زبانی ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ بیانیوں کے نام پر اول فول بکا جارہا ہے، ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالا جارہا ہے۔ یہ روش دیکھ دیکھ کر لوگ مزید پژمردگی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
اسد عمر وفاقی وزیر رہے ہیں اور پروفیشنل سطح پر بھی کامیاب انسان ہیں۔ اُن کی رائے کا احترام اپنی جگہ مگر صاحب! محض زبانی کلامی کچھ نہیں ہوتا۔ ہم جس نازک دور سے گزر رہے ہیں وہ ہمیں بہت کچھ کرنے کی تحریک دینے کے لیے بھی کافی ہے مگر ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ ہم اپنے حالات سے کوئی بڑا، فیصلہ کن سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں ایسی اقوام ہیں جن کے حالات بہت خراب ہیں۔ یہ اقوام اپنے حالات کی خرابی کا ادراک بھی رکھتی ہیں اور اُنہیں درست کرنے کے بارے میں بھی سوچتی ہیں۔ ہمارے ہاں معاملات علاقائی یا عالمی حالات سے اُتنے خراب نہیں ہوتے جتنے ہم اپنی محنت سے خراب کرتے ہیں! اِس وقت بھی ہر طرف سے پوری کوشش کی جارہی ہے کہ ملک زیادہ سے زیادہ ابتری کی طرف جائے۔ وطن پرستی کے نعرے تو ہم بہت لگاتے ہیں مگر وطن سے حقیقی محبت کا اظہار کرنے والے اعمال کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ وطن سے محبت کی گردان کرنے والے وطن کے کارخانوں کی بنی ہوئی اشیا کو ترجیح نہیں دیتے۔ اگر خانہ ساز اشیا استعمال کرنے کا رجحان توانا ہو تو درآمدات اچھی خاصی کم ہو جائیں۔ ملک کے حالات ہم سے بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ ہم سننے کو تیار نہیں۔ عالمی اور علاقائی حالات میں پیدا ہونے والا بگاڑ ہمیں بھی خرابیوں کی طرف لے جارہا ہے۔ ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا آ جاتا ہے۔ قوم کے نصیب میں تو جیسے الجھنیں لکھ دی گئی ہیں۔ تماشا یہ ہے کہ اپنے حصے میں پیچیدگیاں اور الجھنیں بھی ہمِیں نے لکھی ہیں۔ کئی عشروں کے دوران خرابیوں کے پنپتے رہنے سے آج ہمارے لیے عمومی سطح پر بھی ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں رہا۔ یہ نازک وقت ہم سے اہم ترین معاملات میں بیدار مغزی کا مظاہرہ کرنے کا تقاضا کر رہا ہے۔ اب بھی نہ جاگے تو پھر کب جاگیں گے؟ محض بڑبولے پن سے کچھ نہیں ہونے والا۔ نازک وقت کا رونا رونے سے یا بڑھکیں مارنے سے خرابیوں کو صرف بڑھاوا ملے گا۔ یہ وقت حقیقی مفہوم میں جاگنے کا ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ بڑے بڑے دعوے کرنے کا وقت گزر گیا۔ وقت و حالات کی نزاکت کا رونا روتے رہنے سے کہیں بڑھ کر سمجھنے، سوچنے اور عملی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اہلِ سیاست کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہے مگر وہ تو آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایسے میں عام آدمی الجھن ہی محسوس کرسکتا ہے اور کر رہا ہے۔ کچھ تو ایسا ہو جو اُمید بندھائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved