مرحوم پرویز مشرف کے حوالے سے پہلے دو عدد تازہ تنازعے دیکھ لیں۔ اوّلین تنازع سینیٹ آف پاکستان میں مغفرت کی دُعا سے پیدا ہوا۔ اِسی تناظر میں کسی حساسیت کو چھیڑے بغیر کچھ حقائق ریکارڈ پر لانا ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر پہلی حقیقت یہ کہ جن سینیٹرز نے اِس موقع پر پھبتیاں کسّیں‘ وہ سارے پاکستانیوں کو اپنا ظرف دکھا رہے تھے۔ بالکل ویسا ہی ظرف‘ جو اُنہوں نے 10 اکتوبر 2002ء کے روز دکھایا تھا۔ تب جب ملاّ ملٹری الائنس کے نام سے مشہور ہونے والی سیاسی پارٹنرشپ کو عزت دیتے ہوئے پرویز مشرف کو باوردی حیثیت سے صدارت کے عہدے پر بٹھایا گیا۔ حالانکہ جرنیل ہو یا کوئی بھی دوسرا پبلک سرونٹ‘ سرکاری نوکری چھوڑنے کے دو سال بعد تک وہ سرے سے کسی بھی الیکشن میں حصہ لے ہی نہیں سکتا۔ یہ کوئی سیاسی یا پارلیمانی تقاضا نہیں بلکہ آئینی تقاضا ہے۔ جسے آئینِ پاکستان 1973ء مجریہ کے آرٹیکل 63 کے ذیلی آرٹیکل (ون) (کے) میں اِن الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا:
Article 63 (1) (K); He has been in the service of Pakistan or of any statutory body or any body which is owned or controlled by the Government or in which the Government has a controlling share or interest, unless a period of two years has elapsed since he ceased to be in such service.
1973ء کے آئین میں تین سروسز یعنی نوکریوں کا حوالہ آتا ہے۔ جن میں سے پہلی سول سروس یعنی عوام کے نوکر‘ دوسرے نمبر پر جوڈیشل سروس یعنی عوام کو انصاف دینے کے پابند اور تیسرے Essential سروسز یعنی عوام کو تحفظ دینے والے ہیں۔ یہ پابندی جس کا ذکر ابھی آیا ہے‘ بنیادی طور پر تینوں سروسز کے لوگوں پر لاگو ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ افراد اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے شروع کرکے پورے دو سال تک ہر طرح کے الیکشن کے لیے نااہل ہو جاتے ہیں۔ اِس نااہلی کے باوجود وہ لوگ جنہوں نے پرویز مشرف کو حاضر سروس اور باوردی جرنیل کے طور صدر بنوایا‘ وہ قوم کو دھوکا دینے کے لیے جو چاہے ڈرامہ کریں‘ لوگ مُلاّ ملٹری الائنس کا رومانس کبھی نہیں بھول سکتے۔ اسی رومانس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام نے ایسی وحشت گری اور لاقانونیت دیکھی‘ جس کی کوئی دوسری مثال ہمارے ملک میں نہیں ملتی۔ شاید کہیں بھی نہیں ملتی۔ دوسرا تنازع وہ ہے جس کا ذکر قمر جاوید باجوہ کے بارے میں بعد از ریٹائرمنٹ نواز لیگ کی قیادت نے شروع کیا۔ اس تناظر میں برادرم کامران خان نے‘ جو صاحبِ طرز تبصرہ کار ہیں بلکہ اب تو ٹویٹر کار بھی‘ جنرل (ر) باجوہ اور جنرل (ر) مشرف کے تنازع کو بڑی چابک دستی سے یکساں طور پر یکسو کیا ہے۔
اس حوالے سے کامران خان کے الفاظ یہ ہیں:
''عسکری قیادت کی یاددہانی: سیاسی قیادت سے دل لگی فائدہ مند نہیں‘ جنرل مشرف سے ہزاروں کرپشن کرمنل کیسز‘ دو بار وزیراعظم بننے کی آئینی قید ختم کروائی‘ NRO لیا‘ انتقال پر دو جملے افسوس بھی نہیں‘ جنرل باجوہ کی حمایت سے کھربوں روپوں کرپشن کیسز فارغ‘ اب ان کی درگت‘ اللہ کی پناہ‘‘۔
NRO-II کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والوں کا یہ رویہ بھی مُلاّ ملٹری الائنس والے سیاست کاروں سے کسی طور مختلف نہیں۔ اس وقت پاکستان مسائل کی جس گمبھیرتا میں پھنسا ہوا ہے وہ سب ''سائفر سپانسرڈ‘‘ رجیم چینج سے پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان میں معیشت کی جو ہولناک صورتِ حال آج درپیش ہے‘ ویسی خرابی کی حالت مشرقی پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھی سامنے نہیں آئی تھی۔ سیاسی بے یقینی آخری انتہا سے بھی آگے جا چکی ہے۔
عالمی اداروں کی جانب سے ہر شعبے میں پاکستان کی ریٹنگ ڈرا دینے والی حد تک اور رلا دینے والی اُونچائی تک جا پہنچی ہے۔ رجیم چینج کے بعد امپورٹڈ حکومت کو باقاعدہ یہ کہہ کر اونرشپ دی گئی تھی کہ رجیم چینج کے ساتھ ہی ڈالر مستحکم ہوگیا ہے‘ معیشت شاہراہِ کامرانی کی طرف چل دوڑی ہے۔ پھر یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جس ٹیم کو معیشت کی تجربہ کار ٹیم اور جس شخص کو گورننس کی سپیڈ کا F-16 بتایا گیا تھا‘ اُس نے 10مہینے میں ہر شعبے کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔
ایسے میں عمران خان صرف یہ یاد کراتا ہے کہ چلتی ہوئی حکومت اور درست سمت میں دوڑتی ہوئی معیشت کو کیوں ڈی ریل کیا گیا؟ واقعاتی طور پر رجیم چینج چونکہ قمر جاوید باجوہ کے دور میں سامنے آئی‘ اس لیے فطری بات ہے رجیم چینج سے پیدا ہونے والے سارے تنازعات میں اُن کا ذکر آتا رہے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں جب بھی افغان مہاجرین‘ ہیروئن یا کلاشنکوف کا ذکر آتا ہے‘ ضیاء الحق صاحب ایسے تنازعات کے بڑے فریق کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔
پرویز مشرف کے زمانے کا ایک اور بڑا اور خوفناک تنازع پاکستان میں ڈرون حملوں سے پیدا ہوا۔ جس نے قوم اور ملک کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس حوالے سے فاٹا میں ایک بڑے ڈرون حملے کے بعد امریکہ کے سیکرٹری خارجہ سینیٹر کیری پاکستان آئے۔ ان کے ساتھ یو ایس آرمی کے دو سینئر جرنیل بھی تھے۔ وزیراعظم ہائوس میں چند کیبنٹ اراکین سے اُن کی ملاقات طے ہوئی‘ جن میں مَیں بھی شامل تھا۔
اس میٹنگ سے پہلے تباہ کن ڈرون حملے کی تفصیلات پاکستانی سائیڈ کی طرف سے سامنے رکھی گئیں، جن کی روشنی میں Talking Points تیار ہوئے۔ سینیٹر کیری کی میٹنگ روم میں آمد پر ہماری سائیڈ کے 5/6 لوگوں اور وزیراعظم سے رسمی تعارف کے بعد دونوں اطراف کے درمیان گفتگو شروع ہوئی۔ جھجکتے جھجکتے وزیراعظم نے اس ڈرون حملے کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے عوام کے تحفظات کا ذکر چھیڑنا چاہا۔ سینیٹر کیری اس ذکر پر بھڑک اُٹھے۔ کہنے لگے: یہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ڈرون حملے کیوں کیے؟ آپ کو تو پتا ہے ڈرون حملے کس کے کہنے پر ہوتے ہیں؟ اس وقت کی یو ایس ایڈمنسٹریشن کو پتا تھا کہ پاکستان میں سیاسی لیڈرشپ کی اہلیت کتنی ہے۔
لیڈرشپ کی اسی اہلیت کو چیک کرنے کے لیے امریکہ کے ایک اَنڈر سیکرٹری نے وہ مشہورِ زمانہ کال کی تھی جس میں پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکی سن کر ہمارے شہنشاہِ وقت ڈھیر ہو گئے تھے۔ پاکستان ایک بار پھر چوتھی‘ پانچویں دفعہ اُس مقام پر واپس پہنچ گیا ہے‘ گزرے تھے ہم جہاں سے۔ ایک بار پھر دو تنازعات اکٹھے سر اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دونوں کا Ex-Factor امریکہ بہادر کی خوشنودی ہے‘ بلکہ دل بَری اور دل جوئی بھی۔
اللہ کرے یوکرین والی بات جھوٹ ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved