ماضی کا ہر منظر انجن کی طرح بے شمار ریل کے ڈبے کھینچتا آتا ہے۔ میں نے کئی سال پہلے ''میں ہوں پتنگ کاغذی‘‘ کے عنوان سے ایک کالم میں بسنت کا ذکر کیا تھا۔ اب پھر فروری کا مہینہ آیا ہے توکتنی ہی یادیں رنگ برنگی تتلیوں کی طرح منڈلانے لگی ہیں۔ ایک پوری نسل اس تہوار کے ختم ہونے کے بعد جوان ہو گئی ہے‘ جس کی یادوں میں بسنت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ پتنگ بازی کی وہ اصطلاحات بھی نہیں جانتی ہوگی جو ہماری نسل کے بچوں کو ازبر تھیں۔ تو کیا حرج ہے کہ ان یادوں‘ ان باتوں کو ایک بار پھر تازہ کر لیا جائے۔ یاد رہے کہ وہ خرابیاں‘ جو شروع سے اس کے ساتھ نتھی تھیں اور جو بعد میں ساتھ جڑتی رہیں‘ اس تحریر میں ان میں سے کسی سے انکار مقصد نہیں ہے۔ محض کچھ یادیں دہرانی ہیں۔
دنیا کے بے شمار خطوں میں جہاں موسم اور زمینی صورتحال موزوں ہوتے ہیں‘ پتنگیں اڑائی جاتی ہیں لیکن یہ خصوصیت صرف پاک و ہند کو حاصل ہے کہ یہاں پتنگ بازی‘ مقابلہ بازی بھی ہے۔ برصغیر کا بھی ہر علاقہ نہیں۔ پنجاب اور یوپی خاص طور پر۔ پھر جہاں جہاں ان کے رہنے والے گئے‘ اپنا تمدن بھی ساتھ لے گئے۔ صرف اپنی پتنگ اڑانا نہیں بلکہ دوسرے کی پتنگ کو کاٹنا اور اس کے لیے بہترین لوازمات اکٹھے کرنا بھی صرف انہی علاقوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ نظیر اکبرآبادی نے جب یہ کہا ہوگا:
میں ہوں پتنگ کاغذی‘ ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا اِدھر گھٹا دیا‘ چاہا اُدھر بڑھا دیا
تو محبوب کی دسترس اور اپنے بے اختیاری کے مضمون میں کچھ چیزوں کا وقت کے ساتھ گھٹنا‘ بڑھنا ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ میں نے لکھنؤ اور دلّی کی پتنگ بازی کا صرف ذکر پڑھا یا سنا لیکن لاہور کی بے شمار بسنتیں گزاری اور چکھی ہیں۔ اس فن نے اردو زبان کو بھی بہت سے محاورے اور شعر بخشے۔ اور کتنے ہی گیت بھی۔ لکھنؤ کا وہ کاٹا جب لاہور میں آیا تو بو کاٹا ہوگیا۔
بسنت کا پہلے سے انتظار لگا رہتا تھا۔ ہر برس پچھلے سال کی سنبھال کر رکھی ہوئی پتنگیں اور ڈوریں نکالی جاتیں۔ موچی دروازے کے اندر مشہور ترین دکان کا چکر لگایا جاتا جہاں طرح طرح کی پتنگیں‘ ڈوریں ملتی تھیں۔ پتنگ کے سائز کا معیار 'تاوا‘ ہے۔ یہ ایک تاوا گڈا ہے۔ وہ ڈیڑھ تاوا‘ وہ تین تاوا وغیرہ۔ چھوٹی بچکانہ پتنگ جس کی جھالر والی دم ہوتی تھی‘ گڈی کہلاتی ہے۔ جبکہ بغیر جھالر کے لنگر والا گڈا کہلاتا ہے۔ بانس کی ہلکی لیکن مضبوط کمان کی شکل کی ڈنڈی کانپ یا کمان کہلاتی تھی۔ جبکہ سیدھی ڈنڈی ٹھڈ یا ٹھڈا۔ انہی دونوں کو باہم جوڑ کر گڈی کاغذ چڑھایا جاتا اور مطلوبہ شکل دی جاتی۔ سائز کے علاوہ مختلف شکلیں الگ الگ نام رکھتی ہیں ۔ بڑے سائز کی گڈی پری اور کافی بڑے سائز کا پرا۔ بہت بڑے سائز کا گڈا پھاپھڑ۔ مختصر فرنچ کٹ داڑھی جیسے دم کی پتنگ کو لکھنؤ کٹ گڈا کہتے تھے۔ اس میں بھی سائز چھوٹے بڑے ہوتے تھے۔ کنکوا کا لفظ لاہور میں رائج نہیں تھا لیکن لکھنؤ میں اصل بہار اسی کی تھی۔ یہیں سے اردو محاورہ بنا کہ وہ تو کنکوے اڑاتا ہے۔ یعنی ادھر ادھر کی باتیں کرتا ہے۔ پتنگوں کی ایک بالکل نرالی قسم اس حسینہ کی طرح ہے جس کی کمر پتلی اور باقی جسم بھاری ہو۔ اور اوپر سے بطخ کی سی چونچ ہو۔ اسے لکھنؤ اور دہلی میں تکّل کہتے تھے۔ اسے لاہور میں لیکن پتنگ کہتے ہیں‘ تکّل کوئی نہیں جانتا۔ شاید سب سے خوبصورت اور سب سے مشکل پتنگ کا پیچ ہوتا ہے۔ جب یہ اٹھلاتی‘ دائیں بائیں ٹھمکتی‘ پورے تناؤ میں ہوتی ہے تو اس کی خوبصورتی اور کاٹ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس فن کے ماہر استاد پتنگ کا پیچ صرف برابر کی پتنگ سے کرتے ہیں۔ چھوٹی پتنگ سے پیچ انہیں خوشی نہیں دیتا۔ پتنگ ہی کی ایک قسم کوپ کہلاتی ہے۔ اس کا نچلا حصہ نسبتاً چھوٹا‘ گول اور سڈول ہوتا ہے۔
ڈوروں کی بھی نرالی قسمیں ہیں ۔ہر سائز‘ ہر پتنگ اور ہر مقصد کی ڈوریں علیحدہ ہیں۔ درختوں کے دو کھڑے تنوں کے درمیان‘ جن کا فاصلہ متعین ہوتا ہے‘ سوتی دھاگہ تان دیا جاتا ہے (دھاگے کی موٹائی پتنگ باز کی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے)۔ پھر دھاگے پر پسا ہوا شیشہ‘ پھینٹا ہوا انڈا‘ رنگ وغیرہ لگایا جاتا ہے۔ اس آمیزے کو لدھی یا لگدی کہتے ہیں۔ جتنا شیشہ ہوگا‘ اتنی ہی ڈور کاٹ دار ہوگی لیکن ڈور کا ملائم رہنا بھی ضروری ہے‘ اس لیے ایک حد سے زیادہ شیشہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بھُس کے ایک گولے یعنی پنّے کے اوپر کاغذ لپیٹا جاتا ہے اور اسے بوجھا کہتے ہیں۔ اس گولے کے اوپر ڈور لپیٹی جاتی ہے۔ کچھ دیر لپیٹنے کے بعد پنے کا رخ بدل کر لپیٹا جاتا ہے۔ ایک رخ لپیٹی ہوئی ڈور کو پیڑھی کہتے ہیں۔ ڈور کی مقدار کا پیمانہ گوٹ ہے۔ یعنی بارہ گوٹ کا پنا‘ چھ گوٹ کا پنا وغیرہ۔ اس کام کے ماہرین الگ ہوتے ہیں۔ ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔
پتنگ میں سوراخ بنا کر ڈور ڈالنا بھی ایک فن ہے۔ اسے کنّے یا طنابیں کہتے ہیں۔ یہی طنابیں لفظ جب پنجاب میں پہنچا تو تناویں ہو گیا۔ اگر پتنگ اشاروں پر چلے اور پتنگ باز کی مرضی کے مطابق سیدھی کھڑی رہے تو وہ سدھ ہے۔ کم ہوا کی وجہ سے اگر پتنگ کی ڈور لٹکنے لگے تو وہ پیٹا چھوڑ رہی ہے۔ لیپو وہ پتنگ ہے جس کا کاغذ ڈھیلا ہو اور پوری تان میں نہ آسکے۔ ڈور دینے کے انداز بھی الگ الگ نام رکھتے ہیں۔ دمّی دینا ان میں سے وہ انداز ہے جب ڈور تیزی سے نہ چھوڑی جائے اور پتنگ پورے تان میں ہو۔ استاد کہتے تھے کہ ڈور اس طرح دینا فن ہے جب پتا بھی نہ چلے کہ اس آدمی کا پیچ چل رہا ہے۔ میں نے سابقہ منٹو پارک میں یہ منظر دیکھا کہ ایک آدمی چادر کی بُکل مارے کھڑا ہے‘ اس کے ہاتھوں کی حرکت بہت معمولی ہے۔ بالکل قریب جانے پر پتا چلتا ہے کہ اس کا بہت دیر سے پیچ لگا ہوا ہے۔ پتنگ بازی بھی ٹیم ورک ہے‘ ایک آدمی کا کام نہیں۔ پتنگ باز کے دائیں ہاتھ ذرا پیچھے ایک آدمی پنّا ہاتھ میں پکڑے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ہوشیاری کا کام ہے اس لیے کہ پیڑھی بدلنے پر پنّے کا رخ تبدیل ہونا ضروری ہے۔ ڈور پنّے سے اچانک اکٹھی بھی نکل آتی ہے جسے پیڑھی اُچھلنا کہتے ہیں۔ اس صورت میں پنّے والے کی ہوشیاری پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح پتنگ باز کو ڈور کی ہموار ترسیل یقینی بناتا ہے۔ چرخی پر ڈور لپٹی ہو تو یہ مسائل کم ہوتے ہیں تاہم لاہور میں چرخی بہت بعد میں رائج ہوئی۔ ہاتھ مارنا‘ کانٹی مارنا‘ گٹِھ کرنا یا انٹی کرنا‘ تان چکھنا‘ چموڑنا‘ لئی بنانا‘ چیپی لگانا‘ کنّی باندھنا‘ پتنگ کا انّے لگنا‘ گھمیری کھانا سمیت بے شمار اصطلاحیں ہیں جو الگ الگ مفہوم میں رائج ہیں۔ علاقوں کے فرق سے اصطلاحات بھی بدلتی جاتی ہیں۔ سب پر بات کرنے کے لیے بہت وقت چاہیے۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ صاحبِ طرز مصور عبد الرحمن چغتائی بہترین پتنگ باز تھے اور ڈور لگانے اور پتنگیں بنانے کے ماہر۔ یہ فیصلہ دشوار تھا کہ ان کی پینٹنگ زیادہ کمال کی ہے یا پتنگ۔ مجھے علم نہیں کہ اس فن اور استادوں کے نادر واقعات پر کوئی مضمون یا کتاب لکھی گئی یا نہیں؟ کوئی تحقیقی کام ہوا یا نہیں؟ یہ ہماری ثقافت کا ایک اہم موضوع ہے جس پر کام ہونا چاہیے۔
یہ تحریر صرف اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے‘ کچھ اصطلاحات لوگوں تک پہنچانے کے لیے اور ایک ایسے تہوار کو یاد کرنے کے لیے ہے جس میں ایک زمانے میں خوبیاں زیادہ تھیں۔ پھر یہ ست رنگی تہوار لہو رنگ تہوار میں تبدیل ہو گیا۔ دھاتی ڈور سے معصوم گردنیں کٹنے لگیں ‘برقیاتی نظام کو پہنچنے والا نقصان الگ تھا۔اس کے بعد عوام ہی کی بھرپور اپیل پر کچھ حلقے آگے بڑھے اور اس لہو رنگ تہوار پر پابندی لگا دی گئی۔ اب بھی پابندی کے باوجود ہر مہینے ایسی خبریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں جن میں دھاتی ڈور سے ہونے والی اموات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اب اُس پرانے دور کا لوٹنا اُسی طرح ناممکن نظر آتا ہے جیسے پرزے پرزے پتنگ کا دوبارہ جڑنا۔ کتنی چیپیاں لگائی جا سکتی ہیں آخر؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved