شاعروں کی یہ پُرانی عادت ہے کہ ہر معاملے میں خواہ مخواہ سینہ کوبی کرتے رہتے ہیں۔ نگاہیں ملاکر بدل جانے والوں کو مخاطب کرکے کہا جاتا ہے کہ اُن سے کوئی شکایت نہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ کل تک جو اپنا کہتے تھے وہی آج بیگانے بن بیٹھے ہیں۔ اور پھر اپنی دیوانگی کا ماتم بھی کرتے ہیں کہ بیگانوں کو اب تک اپنا سمجھ رکھا ہے! غزلوں اور گیتوں میں اِس نوعیت کے مضامین دیکھ کر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ شاعر آخر کِس زمانے میں جی رہے ہیں۔ بے چاروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اہلِ سیاست نے بات ختم کردی ہے۔ سلیکشن کی بنیاد پر اقتدار کے مزے لوٹنے والے چوہدری شجاعت حسین الیکشن ہار کر بھی جیت گئے ہیں۔ اُن کی وکھری سوچ نے ہماری پوری سیاست کا احاطہ کرلیا ہے۔ ایک چھوٹے سے شہر سے اُبھرنے والے سیاست دان نے وہ آفاقی اور عالمگیر فارمولا دیا ہے جو بڑے بڑے تنازعات کے ہوش ٹھکانے لگا رہا ہے! ایک زمانے سے ہماری سیاست کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ لڑتے رہو، ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے ہوئے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہو۔ سیاست کے نام پر دھینگا مُشتی تھی، کھینچا تانی تھی۔ بات گالی سے شروع ہوکر گولی تک پہنچنے میں دیر نہیں لگاتی تھی۔ قوم یہ تماشا دم بخود ہوکر دیکھا کرتی تھی۔ مگر یہ سب کب تک چلتا؟ عقل کی ہو نہ ہو، بے وقوفی کی آخر کوئی حد ہوتی ہے۔ قوم اور وطن کے لیے بھول کر بھی نہ سوچنے والوں نے ’’دو طرفہ دلچسپی‘‘ کے اُمور پر غور کیا، خوب سوچا کہ لڑتے رہنے میں آخر فائدہ کیا ہے۔ اور پھر اِس نتیجے پر پہنچے کہ لڑنا بچگانہ حرکت ہے۔ ہوسکتا ہے اُنہیں قوم کا خیال آگیا ہو کہ وہ پہلے ہی پتا نہیں کن کن باتوں سے پریشان ہے تو اب اور کیا پریشان کیا جائے! دلیر مہدی نے بھی راہ دکھائی کہ ’’رانجھا میاں چھڈو یاری، چنگی نئی اے عشق بیماری‘‘ یعنی ’’بے فضول‘‘ کی باہمی لڑائی میں کچھ نہیں رکھا۔ خواہ مخواہ دِلوں میں میل آتا رہتا ہے، بات چیت بھی بند ہوجاتی ہے۔ یعنی معاملات ’’طے‘‘ کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں! ایک زمانے سے چوہدری شجاعت قدم قدم پر بظاہر قوم کو مگر در پردہ قوم کے ’’راہ نُماؤں‘‘ کو بتا رہے تھے کہ ان کے پاس ایک فارمولا ہے جو تمام تنازعات کے لیے مولا جٹ ہے! وہ ’’مِٹّی پاؤ‘‘ کہتے ہوئے قوم کو امن کی راہ دکھاتے رہے مگر قوم سُنتی تھی نہ اہلِ سیاست۔ بات یہ ہے کہ تیر اور شیر دونوں کی رفتار سائیکل کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ آگے نکل جاتے تھے اور چوہدری صاحب پیچھے رہ جاتے تھے۔ جب اُن کی بات پر غور کیا تو اہلِ سیاست کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ چوہدری صاحب کبھی کبھی سمجھ میں آنے والی باتیں بھی کر جاتے ہیں! غلاظت پر عطر کے چھڑکاؤ سے بات بنتی نہیں۔ خوشبو کا اثر ختم ہوتے ہی شکل و عمل کے اعتبار سے غلاظت پھر نمایاں ہو جاتی ہے۔ ایسے میں مِٹّی ڈالنا یعنی دفن کردینا ہی غلاظت کا پائیدار اور حتمی علاج ہے۔ بعد میں کوئی قبر کشائی پر تُل بھی جائے تو اُس کے ہاتھ غلاظت کی صرف باقیات آئیں گی! ’’مِٹّی پاؤ‘‘ فارمولا یہ ہے کہ جب ایک ہی دریا میں رہنا ہے تو آپس میں بیر کیا رکھنا۔ لیجیے، اِس خیال کا ذہنوں میں بجلی کی طرح کوندنا تھا کہ کہانی ہی ختم ہوکر رہ گئی یا یوں کہہ لیجیے کہ گل ای مُک گئی! پاکستان کے قیام کو 66 برس بیت چکے ہیں۔ اب بھی ’’میچیورٹی‘‘ پیدا نہ ہوتی تو پھر کب ہوتی؟ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا وصف اہلِ سیاست میں مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔ چوہدری شجاعت کے سدابہار فارمولے کی روشنی میں آصف علی زرداری نے ایسی سیاست کو جنم دیا جو اب کسی بھی بڑے تنازع کو پیدا نہیں ہونے دے گی۔ اور جو تنازعات ابھی گھٹنوں گھٹنوں چل رہے ہیں اُنہیں جوانی کی منزل تک شاید ہی پہنچنے دے! ابتدا پرویز مشرف سے ہوئی جنہوں نے روشن خیالی کے نام پر مختلف الخیال بلکہ باہم متصادم نظریات کے حامل افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اِس عمل کی کوکھ سے وہ حالات پیدا ہوئے جنہوں نے مفاہمت کی سیاست کو راہ دی۔ سیاست میں حتمی دوستی ہوتی ہے نہ دشمنی۔ مگر اب ہر طرف حتمی دوستی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ راوی اب بہت دور تک چَین ہی چَین لکھتا دکھائی دے رہا ہے۔ باکسنگ، کشتی، کرکٹ اور دوسرے بہت سے کھیلوں میں میچ فکسنگ بہت پہلے سے مَروّج ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کے نام پر سیاست میں یہ نُدرت اب متعارف کرائی گئی ہے۔ ہم نے پانچ سال تک اِسی گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ اب کس میں دم ہے جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چُکنے کا دعویٰ کرے کیونکہ اب لے دے کر صرف یہی ایک یعنی مفاہمت کا گھاٹ رہ گیا ہے۔ جب جی چاہے، خوب سیر ہوکر پیجیے اور اپنے دِل و دِماغ سے تمام تنازعات دھو ڈالیے! آصف زرداری کا کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے پانچ سال تک سب کو اُن کی حدود میں رکھا ہے۔ ع … اِس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا جنگل کے درندے واقعی عقل اور چالاکی دونوں سے محروم ہیں۔ جو کام وہ چھینا جھپٹی سے کرتے ہیں وہ مل بیٹھ کر اور مل بانٹ کر بھی کیا جاسکتا ہے! درندوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تو مفاہمت کی سیاست اپنائیں، باری طے کرلیں! یہاں بھی تو باری پر اتفاق ہوچکا ہے۔ یہ باری اقتدار کی نہیں، قومی وسائل کے جسم سے بوٹیاں نوچنے کی ہے۔ فری اسٹائل کشتی کے جوڑی والے مقابلے میں جب ایک پہلوان تھک جاتا ہے تو رنگ سے باہر کھڑے ساتھی کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے اور یوں تازہ دم پہلوان رنگ میں کودتا ہے۔ آٹھ دس سال سے کچھ ایسے ہی دل خراش مناظر ہم بھی اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں! کل تک اہلِ سیاست ایک دوسرے پر اِتنا کیچڑ اُچھالتے تھے کہ کبھی کبھی تو نوبت کیچڑ درآمد کرنے تک پہنچ جاتی تھی! وقت نے ایسا پَلٹا کھایا ہے کہ اب بازار سے مَکّھن غائب ہوتا جارہا ہے! جو زبانیں گالیاں دیتے نہ تھکتی تھیں ، وہ اب ایک دوسرے کے حق میں یوں شیرہ شیرہ ہوئی جاتی ہیں کہ سُننے والوں کے کان جلیبی کی طرح تَر ہو جاتے ہیں! ع تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا وزیر اعظم ہاؤس میں صدر کو دیئے گئے الوداعی ظہرانے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ آصف زرداری نے سیاست میں گرم جوشی، ذاتی تعلق، اپنائیت اور سماجی رشتوں کو عمدگی سے رواج دیا۔ چہ خوب۔ سُننے والوں کو کانوں پر اور پڑھنے والوں کو آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ مِٹّی پاؤ فارمولا ایسے ہی گل کھلاتا ہے۔ بندے کا اپنے کانوں، آنکھوں اور حافظے پر سے ایمان اُٹھ جاتا ہے! الوداعی ظہرانے میں صدر زرداری کا کہنا تھا کہ سیاست کی طرف پانچ سال بعد جائیں گے، ابھی میاں صاحب کی راہ نُمائی (!) میں کام کرنا ہے۔ سیاست پانچ سال بعد؟ اِسے کہتے ہیں سیاست۔ آصف زرداری کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کمزور ہوا تو عرب دنیا میں اُٹھنے والا طوفان پاکستان تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اِس انتباہ سے ہم پر خوف کے مقابلے میں حیرت زیادہ طاری ہے۔ عرب دنیا میں تو آمریت ہے جس کے باعث لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں کون سی آمریت ہے؟ یا واقعی جمہوریت کے پردے میں آمریت کی مختلف شکلیں مُروّج ہیں؟ عرب دنیا میں تو لوگ قومی وسائل ڈکار جانے والوں اور مغربی حکومتوں کے تلوے چاٹنے والوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمران کیوں خوفزدہ ہیں؟ کیا یہ سوچ کر کہ عرب دنیا کی طرح یہاں بھی نمائشی جمہوریت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں؟ کہیں وہ نوشتۂ دیوار تو نہیں پڑھ بیٹھے؟ مفاہمت کی سیاست کے نام پر ایک دوسرے کے کردہ و ناکردہ گناہوں اور جرائم کو معاف کرنے کی روش بظاہر اِس نیت کے ساتھ ہے کہ سیاست پاک ہوجائے۔ سیاست کی ’’تطہیر‘‘ کا ایسا شاندار اور تیر بہ ہدف تصور شاید ہی کسی قوم کے پاس ہو! سیاست تالاب سے گندا پانی نکالنے کے عمل پر ویسے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اچھا ہے کہ سیاسی تالاب میں صاف پانی ہو۔ مگر کیا کیجیے کہ اہلِ سیاست کی نیت سے ڈر لگتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ڈینگی بخار پھیلانے والا مچھر صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے! اِسی لیے ڈاکٹرز گھروں میں صاف پانی ڈھک کر رکھنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ہمیں تو سیاسی تطہیر کا عمل قوم کے حلق میں ہڈی کی طرح پھنستا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر پورا سیاسی تالاب ’’صاف‘‘ پانی سے بھرگیا تو ہم قوم کا خون چُوسنے والے مچھروں کی افزائش روکنے کے لیے اِس تالاب کو کہاں تک اور کس طرح ڈھکتے پھریں گے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved