تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-02-2023

ذہنی امراض کہاں سے آئے؟

ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے مختلف النوع مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ دھنسنے کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے اور دلدل کا دائرۂ کار بھی وسعت اختیار کر رہا ہے۔ سَمت سے محروم معاشروں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ جب آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو تو کوئی بھی مسئلہ دیکھتے ہی دیکھتے بحران کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ کوئی معمولی سا مسئلہ بھی عدمِ توجہی سے ایسی بھیانک شکل اختیار کر لیتا ہے کہ اُسے دیکھ دیکھ کر دل دَہلتا رہتا ہے اور حل کی کوئی معقول تدبیر آسانی سے نہیں سوجھتی۔
یہ بالکل فطری بات ہے کہ کسی بھی پس ماندہ معاشرے میں ذہنی امراض تیزی سے پنپتے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی ذہنی امراض کے پنپنے کی رفتار تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ صورتِ حال بہت تیزی سے انتہائی نازک شکل اختیار کر رہی ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ سرکاری اور نجی سطح پر ذہنی امراض کے معالج بہت کم ہیں۔ حکومت کو تو خیر اب تک اس معاملے میں کوئی بڑا قدم اٹھانے کی توفیق عطا نہیں ہوئی‘ نجی شعبے میں بھی ذہنی امراض کے ماہرین کی تعداد خاصی کم ہے اور جو لوگ اپنے کسی عزیز کا علاج کرانا چاہتے ہیں اُنہیں اول تو اچھے معالج نہیں ملتے اور جو ملتے ہیں وہ بہت زیادہ فیس چارج کرتے ہیں۔ مالدار گھرانے ہی ایسے علاج کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے سندھ اسمبلی کے فلور پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہوش اُڑا دینے والی مہنگائی نے معاشرے کو ذہنی امراض کی طرف دھکیل دیا ہے، روز افزوں مہنگائی کے ہاتھوں ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تیزی سے گھٹتی ہوئی قوتِ خرید عام پاکستانی کے لیے سوہانِ روح ہوچکی ہے، ایسے میں ذہن پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر عذرا فضل نے ذہنی امراض کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ بروقت ہے۔ عام پاکستانی اس وقت شدید نوعیت کے ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ کوئی وقتی کیفیت نہیں کیونکہ حالات کی خرابی کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی اور اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ اب بہت دیر تک عام پاکستانی شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے گا۔ کم و بیش ہر معاملے میں نظام جواب دے چکا ہے۔ لوگ نظم و ضبط کے عادی ہیں نہ صبر و تحمل کے۔ سچ تو یہ ہے کہ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں گیا۔ بے لگام نوعیت کی زندگی بسر کرنے کی خواہش اور لگن روز بروز توانا تر ہوتی جارہی ہے۔ لوگ کسی بھی معاملے میں کسی بھی پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ معاملہ ہٹ دھرمی کی منزل میں ہے۔
کسی بھی پس ماندہ معاشرے میں جو خرابیاں پنپتی جاتی ہیں وہ اب ہمارے ہاں قدم قدم پر دکھائی ہی نہیں دے رہیں‘ خوفزدہ بھی کر رہی ہیں۔ یہ خرابیاں زندگی کا پورا ڈھانچا تباہ کرتی جارہی ہیں۔ ایک طرف معیشت داؤ پر لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف معاشرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ زندگی اب صرف اس قدر رہ گئی ہے کہ کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کیجیے۔ اکثریت نے طے کرلیا ہے کہ حیوانی سطح سے بلند ہوکر جینا ہی نہیں۔ زندگی ایسی نعمت ہے جس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا مگر ہم نے اِسے بے وقعت بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔ زندگی جیسی عظیم نعمت کو بھی حقیر سی خواہشات کی نذر کیا جارہا ہے۔ ایک بات البتہ ایسی ہے جو مان تو لی گئی ہے مگر دوسرے رخ سے۔ جو معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ روز افزوں مہنگائی نے عوام کو ذہنی امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بھی یہی بات کہی ہے۔ بات چونکہ صوبائی وزیر صحت کی زبان سے ادا ہوئی ہے اس لیے لوگوں نے غور سے سنی ہے مگر کیا حقیقت یہی ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی نے لوگوں کو ذہنی مریض نہیں بنایا بلکہ ذہنی امراض نے مہنگائی اور دوسری بہت سی قباحتوں کی راہ ہموار کی ہے! یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر آج کل ہم معاشی اعتبار سے جہاں کھڑے ہیں‘ وہاں بہت کچھ ہے جو ہمیں بدحواس کیے دیتا ہے۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
وہ اس قدر پریشان ہے کہ اپنی پریشانی کے اسباب کے بارے میں سوچنا اور اُن کا کوئی حل تلاش کرنا بھی بھول گیا ہے۔ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی تگ و دَو زندگی جیسی نعمت کو بے رحمی سے ڈکار رہی ہے۔ ایسے میں مشکلات صرف بڑھ سکتی ہیں‘ گھٹ نہیں سکتیں۔ آج عام پاکستانی معاشی، معاشرتی اور نفسی اعتبار سے جہاں کھڑا ہے وہاں اُسے کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ اس حالت کا وہ خود ذمہ دار ہے۔ یہ درست ہے کہ ساری کی ساری ذمہ داری اُس کی اپنی نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت حد تک اِس ہمہ گیر خرابی کا ذمہ دار ہے۔ ہاں‘ اُسے اس کا احساس نہیں۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ اُسے لوریاں دے دے کر سلایا جاتا رہا ہے۔ میڈیا میں اُسے باشعور بتایا جاتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اُس میں غیر معمولی ہمت اور لگن پائی جاتی ہے! کیا واقعی ایسا ہے؟ یہ محض بڑھک ہے‘ اور کچھ نہیں۔ آج ہم جہاں کھڑے ہیں‘ کیا وہاں تک ہمیں صرف حکومت لائی ہے؟ سارا الزام سیاست دانوں اور ریاستی مشینری کے سر منڈھ کر ہم سُکون کا سانس لیے سکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے!
عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اُس پر بہت کچھ تھوپا گیا ہے۔ یقینا ایسا ہوا ہے مگر صرف یہی نہیں ہوا۔ یہ بھی تو ہوا ہے کہ بہت کچھ عوام نے اپنے سروں پر خود لاد لیا ہے! آج ہماری بہت سی قباحتیں اپنی پیدا کردہ ہیں۔ بیرونی قوتوں کے ایجنڈے اپنی جگہ‘ مگر وہ ایجنڈے ہمارے رشتوں اور تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ یہ بگاڑ تو ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ کوئی بھی بیرونی قوت براہِ راست یعنی سامنے آکر ہمارا ہاتھ پکڑ کر تو ہمیں کسی طرف نہیں لے کر جاتی۔ فیصلے تو ہم خود کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم خرابیوں کی طرف بھی جاسکتے ہیں اور اچھائی کی طرف بھی، یعنی یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ٹیکنالوجی کا مثبت پہلو دیکھنا ہے یا منفی۔ اس وقت ہر سطح پر خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی طبقہ ایک خاص حد تک ہی زیادتی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ ظلم سہنے والے اگر مزاحمت کریں تو ظالم کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں اور آ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملات بہت مختلف رہے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بہت سی خرابیوں کو ہم نے خود ہی بڑھنے دیا؟ اب جب وہ خطرناک حد تک پہنچ گئی ہیں تو ہم پریشان ہیں اور رو پیٹ رہے ہیں۔ پریشانیوں میں گھرنے کے بعد رونا پیٹنا فطری ہے مگر مقبول نہیں! یہ طریق انسان کو کچھ نہیں دیتا اور قدرت کو بھی مطلوب نہیں۔ پریشانی کا رونا نہیں رویا جاتا‘ حل تلاش کیا جاتا ہے۔
طرزِ زندگی ہی سے تو اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ ہم کس طور جیے جائیں گے اور بالآخر کہاں پہنچ کر سکون کا سانس لیں گے۔ ہم نے چار پانچ عشروں کے دوران جو طرزِ زندگی اپنائی ہے کیا وہ ہمیں کہیں اور پہنچا سکتی تھی؟ آج ہم اپنے آپ کو مختلف النوع بحرانوں میں گھرا ہوا پاتے ہیں تو اِس کے لیے کون سی بیرونی قوت ذمہ دار ہے؟ کیا یہ سب امریکہ، یورپ اور اسرائیل وغیرہ کی سازشوں کا نتیجہ ہے؟ کیا ہم اپنی تمام خرابیوں کے لیے بیرونی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہراکر سکون کا سانس لے سکتے ہیں؟ کیا پوری ہوش مندی کے ساتھ جینے والی اقوام ایسی ہوتی ہیں؟
ہوش مندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہماری ذات اور معاشرے میں جتنی بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں اُنہیں تسلیم کرنے کے بعد اُن کی ذمہ داری کا تعین کریں۔ پھر اُن خرابیوں سے جان چھڑانے کی ذہنیت پروان چڑھائیں۔ یہ سب کچھ ہمیں خود ہی کرنا ہے۔ مہنگائی ہمارے خراب حالات کا محض ایک حصہ اور ایک نتیجہ ہے۔ مہنگائی کو اپنی تمام خرابیوں‘ بالخصوص ذہنی الجھنوں کے لیے موردِ الزام ٹھہراکر ہم بری الذمہ قرار نہیں پاسکتے۔ بیشتر ذہنی امراض ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اپنی موجودہ طرزِ فکر و عمل پر نظرِ ثانی کے ذریعے ہی ہم متوازن طرزِ زندگی کا تعین کرسکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved