تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     11-02-2023

ریشنل سوچ کہاں سے آئے گی؟

جس معاشرے میں جہالت اور تنگ نظری کوٹ کوٹ کے بھری ہو‘ اس معاشرے کو ڈالروں سے زیادہ ریشنل سوچ کی ضرورت ہے۔ پرابلم یہ ہے کہ ڈالر تو بلیک میں یا مہنگے داموں مل جاتے ہیں‘ ریشنل سوچ کس مارکیٹ میں دستیاب ہے؟ کیونکہ طور طریقے ہم نے اپنے بدلنے نہیں اور جس قسم کا معاشرہ بنا چکے ہیں وہی قائم رہے گا۔ اس لیے خیال اٹھتا ہے کہ ہمارا قومی مرض لاعلاج ہے۔ کسی حکیم کے پاس کوئی پھکی نہیں جس کے استعمال سے ہماری سوچ بدل جائے۔ ایسے ہی ہم نے رہنا ہے‘ سوچ نام کی چیز تو ویسے اس سرزمین پر کم ہی دستیاب ہے تو بتائیے ہمارے معاملات کا علاج کیا ہے؟کئی قارئین لکھتے ہیں کہ بولی جاتے ہو (ان کا اصل مطلب ہوتا ہے کہ بکواس کری جاتے ہو) لیکن کوئی حل تو بتاؤ۔ ذہن کو کھوج کھوج کر تھک چکا ہوں کیونکہ کوئی حل نظر نہیں آتا۔ ہمارے کہنے پر کسی نے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بند کر دینی ہیں؟ ہمارے اصرار پر شادی ہال مسمار ہو جائیں گے؟ چلاتے رہیں کہ ہمارے نظام میں عدم توازن پیدا ہو چکا ہے اور جہاں سیاسی ادارے کمزور ہو چکے ہیں اور کئی دوسرے ادارے (نام کیا لینا‘ نام لیں تو ہمارے اپنے ہی گھبرا جائیں گے) زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔ اس نعرے سے بڑا کوئی فریب نہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ ہرکوئی جانتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں طاقت کے سرچشمے کہاں سے پھوٹتے ہیں‘ انہی کی چلتی ہے۔ ہمارے رونے دھونے پر یہ صورتحال کیا تبدیل ہو جائے گی؟ اسی لیے پھر دہرائے دیتے ہیں کہ جن مسائل نے ہمیں گلے سے پکڑ لیا ہے‘ وہ لاعلاج ہیں۔ ان کا علاج ہمارے پاس ہے لیکن جب ہم نے کچھ کرنا نہیں اور نہ تبدیل ہونا ہے‘ ہمارے اندر سے وہ حل کیسے باہر آئیں گے؟
سیاست دانوں کے ہاتھوں میں بات رہی نہیں۔ ہونا تو اب یہ چاہیے کہ چیف جسٹس آف پاکستان صورتحال کا سو موٹو نوٹس لیں‘ حکومت کو بلائیں اور سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ یعنی عمران خان کو بلائیں اور حکم صادر کریں کہ لایعنی باتی بند کرو اور فیصلہ یہ ہے کہ نوے دن میں نہیں‘ پینتالیس دنوں میں انتخابات کرائے جائیں‘ قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کیلئے۔ الیکشن کمیشن کو بھی بلایا جائے اور یہ حکم صادر ہو کہ انتخابی مہمات میں غیرضروری پیسہ خرچ نہ ہو۔ بڑے بینروں پر مکمل پابندی ہو۔ یہ حکم بھی ہو کہ انتخابات سے پندرہ دن پہلے اور الیکشن تاریخ تک پورے ملک میں کوئی ڈالا نما اور پراڈو نما گاڑی سڑکوں اور دیہی راستوں پر نہ چلے۔ یعنی پندرہ یوم کیلئے پورے ملک میں بڑی موٹر کاروں پر مکمل پابندی ہو۔ دورانِ انتخابی مہم شادی ہال بند کیے جائیں۔ الیکشن کرانے کیلئے فوج کی مدد نہ مانگی جائے۔ افواج اپنے فرائضِ منصبی ادا کریں۔ سکیورٹی اور امنِ عامہ کے لحاظ سے خطرات بہت ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں تقریباً باقاعدہ جنگ جاری ہے اور افواجِ پاکستان کی نظریں ان خطرات پر ہونی چاہئیں۔ امنِ عامہ قائم رکھنے کا بوجھ صوبائی پولیس فورسز اٹھائیں۔ چاروں یا پانچوں آئی جی پولیس سپریم کورٹ طلب کیے جائیں اور انہیں پاکستان کی بقا اور سالمیت کے ترلے دے کر کہا جائے کہ وہ آنکھیں ملیں اور جاگیں اور اپنی ڈیوٹیاں صحیح طریقے سے دیں۔ تمام آئی جیز کو کہا جائے کہ اپنی زیرکمان فورسز کو یہ آرڈر آف دی ڈے جاری کریں کہ خدا کے واسطے الیکشن مہم کے دوران رشوت لینا بند کر دیں۔ دوسرا آرڈر آف دی ڈے پولیس فورسز کیلئے یہ ہونا چاہیے کہ دائمی طور پر نہیں تو وقتی طور پر ہی سہی‘ تھانوں میں غیرانسانی سلوک اور رویے بند کیے جائیں۔ منسٹروں‘ مشیروں اور وزیروں سے سکیورٹی واپس لے لی جائے۔ کسی نیتا‘ کسی لیڈر کی گاڑی کے پیچھے پولیس کے ڈالے نہ لگے ہوں۔ ہاں‘ ایک اور چیز‘ دورانِ الیکشن مہم لاؤڈ سپیکروں کے استعمال پر مکمل پابندی ہو۔ جلسے ہوں‘ چار دیواری میں‘ باہر کوئی آواز نہ جائے۔جیسے بھی ہو‘ الیکشن کرائے جائیں۔ ادارے کیا اور ان کے سربراہ کیا‘ آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔ البتہ یہ حکم بھی سپریم کورٹ سے آئے کہ کوئی امیدوار ایک سے زائد حلقے سے نہیں لڑ سکے گا۔ کوئی قومی اسمبلی کا امیدوار ہے تو وہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار نہیں ہو سکے گا۔ یہ جو پانچ‘ پانچ حلقوں سے انتخاب لڑنے کی رسم ہے‘ اس سے زیادہ کوئی بیکار بات ہو سکتی ہے؟ ایک بات دہشتگردی کے بارے میں۔ اگر دہشت گردی کے کوئی واقعات ہوتے ہیں تو پھر کیا کریں؟ دہشت گردی کے واقعات تو ویسے ہی ہو رہے ہیں۔ اگر دورانِ انتخابی مہم میں کچھ واقعات ہوتے ہیں تو بطورِ قوم ہم انہیں برداشت کریں۔حکومتوں نے تو کچھ کرنا نہیں‘ کچھ معاشی فیصلے بھی سپریم کورٹ کر لے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھنی چاہئیں‘ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لیکن یہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے شہروں کے جو پوش علاقے ہیں یا جو بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں‘ وہاں بجلی کی قیمتیں بڑھا دی جائیں اور شہروں کے نسبتاً کم ترقی یافتہ علاقوں میں بجلی کی قیمتیں ویسے ہی رہیں۔ جو ہم چولھوں میں گیس استعمال کرتے ہیں‘ یہ ہماری ایک عیاشی تھی جسے مزید آگے نہیں لے جایا جا سکتا۔ اس لیے چولھوں اور ہیٹروں کی گیس کی قیمت بڑھانا ازحد ضروری ہے۔ ویسے بھی اس عیاشی نے ہمارے گیس کے ذخائر ضائع کردیے ہیں۔ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
آزاد یا اِنڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ جو معاہدے پہلی بینظیر بھٹو اور زرداری حکومت میں طے ہوئے تھے‘ وہ ملک کیلئے مہلک اور تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ قانونی پیچیدگیوں کو بالائے طاق رکھ کر یہ معاہدے ہولڈ پر رکھ دیے جائیں۔ سرکلر ادائیگیوں کی مد میں کوئی ادائیگیاں نہ کی جائیں۔ جب انتخابات ہو جائیں اور ایک مقبولِ عام قیادت معرضِ وجود میں آجائے تب پاور شعبے کے سرکلر ڈیٹ کے بارے میں دائمی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور چیز بھی ضروری ہے‘ مفت بجلی کی روایت ختم کی جائے۔ افسران جو بھی ہوں‘ جس محکمے سے بھی ان کا تعلق ہو‘ ان کیلئے کوئی مفت بجلی نہ ہو‘ کوئی مفت پٹرول کا کوٹہ نہ ہو۔
اداروں نے کچھ نہیں کرنا‘ وسوسوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ کچھ کرنے کی ہمت سے یکسر عاری نظر آتے ہیں۔ سیاستدانوں کی حالت قوم دیکھ چکی ہے۔ اس لیے آخری امید ہی رہ جاتی ہے۔ ایک تو پروردگار سے دعا ہو کہ ہم خطاکار ہیں‘ گناہوں سے زیادہ بطورِ قوم ہم بیوقوفیوں کے مرتکب رہے ہیں۔ ہماری خطاؤں کو معاف کیا جائے۔ پروردگار کے بعد سپریم کورٹ رہ جاتی ہے۔ جس حالت کو ملک پہنچ چکا ہے‘ اس میں چھوٹی موٹی روزکی کارروائیوں کا کیا معنی اور کیا فائدہ؟ قوم کی حالت پکار رہی ہے کہ آئے کوئی آگے جو اس قوم کو تباہی سے بچائے۔ مائی لارڈز‘ آپ خود دیکھ چکے ہیں اور کسی نے کچھ کرنا نہیں۔ جنہیں کچھ کرنا چاہیے اپنی عیاشیوں میں گم ہیں۔ جو اس ملک کے بڑے ہیں انہیں ایک لت لگ چکی ہے کہ جس طریقے سے بھی ہو‘ پیسے بنائی جاؤ۔ دولت کے انبار پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں لیکن انہیں قرار نصیب نہیں ہوتا۔ صبح شام اس سوچ میں گزر جاتی ہے کہ اور مال کیسے بنائیں۔ عوام کی امیدیں بھی اٹھ چکی ہیں‘ کسی پر امید نہیں رہی۔ آپ ہی کچھ کریں‘ سب نیتاؤں کو اپنے سامنے بلائیں اور بس سخت اقدامات کا اعلان کردیں۔ قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ کچھ نہ کیا گیا تو بس پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ تباہی کے اس دہانے پہ پہنچ چکے ہیں کہ آگے سوائے مکمل بربادی کے کچھ نہیں۔
کسی مردم شماری کی اس وقت ضرورت نہیں۔ الیکشن کمیشن فضول کی تاویلیں دیتا ہے‘ اس کی نہ سنی جائے۔ گورنر صاحبان آئینی ماہر بن گئے ہیں‘ ان کی بھی نہ سنی جائے۔ سکیورٹی خطرات تو ویسے ہی ہیں‘ ان کے حوالے سے کوئی مزید بہانے نہ سنے جائیں۔ وکلا صاحبان اپنے رویے درست کریں‘ سپریم کورٹ کے سپاہی بن جائیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved