عالمی برادری کی جانب سے فراموش کردہ شام میں خانہ جنگی بارہویں سال میں داخل ہوئی تو سرحدی علاقے ہولناک زلزلے سے لرز اٹھے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق شام میں زلزلے سے مجموعی طور پر ایک کروڑ دس لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جن میں اب تک پچیس سو سے زیادہ لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ زلزلے کے تین دن بعد تک کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ حکومت کے زیرِکنٹرول علاقوں تک بہت کم امداد پہنچی ہے جبکہ باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں تک امدادی سامان کا ایک بھی قافلہ نہیں پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق شام میں زلزلے سے متاثر ہونے والے ایک کروڑ افراد میں سے چالیس لاکھ پہلے ہی صاف پانی اور خواراک جیسی بنیادی ضروریات کے لیے امدادی اداروں پر انحصار کرتے ہیں؛ تاہم شام پر عائد پابندیوں کی وجہ سے زلزلہ متاثرین کی امداد کا عمل اُس طرح مربوط اور قوتِ رفتار نہیں رکھتا، جیسا ترکیہ میں دکھائی دیتاہے۔ شام کے لیے اقوام متحدہ کے مقامی نمائندے المصطفیٰ بن الملیح نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی امداد کا ذخیرہ اگلے چند دنوں میں ختم ہو جائے گا، ورلڈ فوڈ پروگرام کے پاس صرف ایک ہفتے کے لیے ایک لاکھ لوگوں کی خوراک کا ذخیرہ موجود ہے۔ امدادی قافلوں کی نقل و حمل میں رکاوٹ بننے والی تباہ حال شاہراہوں کے علاوہ شام پر پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر سست ردّعمل بھی مشکلات کا سبب بن رہا ہے؛ چنانچہ اقوام متحدہ اورعالمی امدادی ایجنسیوں کو حکومت کے زیرِ کنٹرول ایریا تک رسائی کے لیے بشارالاسد حکومت سے مذاکرات اور باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں تک رسائی کے لیے سلامتی کونسل پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کیلئے شام کے سفیر بسام صباغ نے بتایا کہ پابندیاں کی وجہ سے اب تک مٹھی بھر ممالک ہی شام کو امدادی سامان سے لدے طیارے بھیج سکے ہیں جن میں ایران، روس، متحدہ عرب امارات، الجزائر اور پاکستان شامل ہیں۔ المصطفیٰ بن الملیح نے کہا ہے کہ دس لاکھ سے زائد آبادی والے شہر حلب میں، 30 ہزار متاثرین سکولوں اور مساجد میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور تقریباً 70 ہزار سڑکوں پہ شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔
زلزلے کے بعد جس وقت بین الاقوامی ریسکیو ٹیمیں‘ جو زندگی کا سراغ لگانے والے کتوں سے لیس ہیں‘ دنیا کے کونے کونے سے ترکیہ پہنچ رہی تھیں‘ اس وقت شام میں صرف مقامی رضاکار ہی ملبے کے ڈھیروں تلے سسکتی زندگیوں کو تلاش کرتے نظر آئے۔ سیرین سول ڈیفنس رضاکار گروپ نے اپنے وڈیو پیغامات میں دکھایا کہ شہری اپنے ہاتھوں سے ملبے تلے دبے زندہ انسانوں اور اپنے پیاروں کی لاشوں کھودنے میں مصروف تھے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قدرتی آفات کی تشخیص کرنے والی خصوصی ٹیمیں دمشق روانہ کر دی گئی ہیں؛ تاہم ترکیہ اور شام میں غیر متناسب ردعمل کا تعلق ملکی وابستگی سے متعلق لوگوں کے متحرک ہونے کی صلاحیت پہ منحصر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے پاس پہلے سے شام اور سرحد کے اُس پار ترکیہ میں عملے کے تقریباً 700 ارکان موجود تھے۔ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی خاطر اس عملے نے شام کے گوداموں میں موجود خوراک، ادویات اور ایمرجنسی کٹس پر انحصار کیا لیکن وہ متاثرہ علاقوں میں ابھی تک ایسی اشیا پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے جن کی عام طور پر آفات کے بعد ضرورت پڑتی ہے۔ شام کو ایندھن اور جنریٹرز کے علاوہ امدادی کارروائیوں کے لیے بھاری مشینری، ایمبولینسوں اور ٹرکوں کی مرمت کے لیے پرزوں کی قلت کا بھی سامنا ہے؛ تاہم ابھی بہت سے پیچیدہ سوالات اس امر کا تعین کریں گے کہ شامی باشندوں کے لیے ریلیف کی رفتار اور اُس بحران کی حد کیا ہے جسے زلزلے نے دوچند کر دیا ہے۔کیا شام کی حکومت عالمی قافلوں کو باغیوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں تک پہنچنے کی اجازت دے گی؟ کیا باغی گروپ شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں سے امداد قبول کریں گے؟ کیا بین الاقوامی عطیہ دہندگان بشار الاسد کی حکومت اور اس سے وابستہ تنظیموں کے ذریعے لاکھوں ڈالر کی امداد تقسیم کرنے پر تیار ہو پائیں گے؟ان حالات میں ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ سیاست سے قطع نظر‘ ہر کوئی انسانیت کو اولیت دے گا، تمام حکام سیاسی تنازعات سے بالاتر ہو کر مصیبت زدہ انسانوں کی بقا کو اولین ترجیح بنائیں گے۔ شام کے بحران پر اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے علاقائی رابطہ کار مہند ہادی نے بتایا کہ شام میں موقع پر موجود دیگر امدادی ایجنسیاں بھی متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرزکی ٹیموں نے زلزلہ مرکز کے قریب واقع شمالی صوبے ادلب کے 23 مقامی ہسپتالوں کو طبی اشیا اور کٹس فراہم کرنے کے علاوہ 3400 سے زائد زخمیوں کا علاج کیا۔ اس تنظیم کے مطابق زلزلے سے شمال مغربی شام میں ہسپتالوں کے عمارات کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ وہاں بڑی تعداد میں مریض پھنسے ہوئے ہیں۔ تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''جس بڑے پیمانے کی تباہی ہوئی ہے، اتنے ہی بڑے پیمانے پر بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت پڑے گی‘‘۔
قبل ازیں شام کے داخلی سیاسی تنازعات میں پانچ لاکھ سے زیادہ ہلاکتوں کے علاوہ کم و بیش ایک کروڑ تیس لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، 62 لاکھ سے زیادہ شامی اندرونِ ملک نقل مکانی اور قریباً 56 لاکھ لوگ لبنان، اردن اور ترکیہ کے علاوہ یورپ کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شامی حکومت کی جانب سے پُرامن شہری مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی شورش تیزی کے ساتھ پہلے داخلی انتشار میں ڈھلتی گئی اور پھر عالمگیر مسلح تنظیموں کی تلویث اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا وسیلہ بنی۔ شامی حکومت کو آج بھی باغیوں کے علاوہ داعش، القاعدہ، کرد مزاحمت کاروں اور دیگر غیر ملکی ملیشیائوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ بدامنی کو جواز بنا کر روس، امریکہ اور علاقائی ممالک نے مداخلت کرکے کبھی نہ تھمنے والی جنگ کی آگ بھڑکائی؛ البتہ امریکہ کی طرف سے شام میں رجیم چینج کا ارادہ ترک کرنے کی وجہ سے ملک کا ریاستی ڈھانچہ مکمل انہدام سے بچ گیا لیکن اس کے باوجود داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ، تنازعات سے متاثرہ پناہ گزینوں کی آبادکاری کا ایشو اور کیمپوں میں پڑے غیرملکیوں کی اپنے آبائی ممالک کی طرف واپسی جیسے لاینحل مسائل اس ملک کی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔ عراق اور شام میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں شکست کے بعد زوال آشنا داعش اب بھی پوری طرح مسخر نہیں ہو سکی؛ اگرچہ عالمی سطح کے اس شدت پسند گروپ کی قوت میں کافی حد تک کمی آ چکی ہے اور اس سے وابستہ لاکھوں لوگ گھروں کو لوٹ گئے ہیں لیکن کسی خطۂ زمین پر قبضہ نہ رکھنے کے باوجود آج بھی یہ مہیب حملے جاری رکھنے کی صلاحیت سے بہرور ہے۔ داعش طرف سے پیچھے چھوڑا ہوا سب سے بڑا مسئلہ وہ ہزاروں بے گھر افراد ہیں جو کیمپوں میں یا عراق اور شام میں اپنے آبائی علاقوں سے دور ہیں۔ مزید برآں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو داعش سے وابستہ افراد سے ایسا سلوک چاہتے ہیں جیسے یہ ماضی کا کوئی مسئلہ ہو۔ یہ رویہ بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ داعش کے تنازع میں سکیورٹی ایشو کے سوا کیا بچا ہے،عراق اور شام کی فورسز بہ آسانی اسے سنبھال سکتی ہیں۔ بعض کے خیال میں داعش کل، آج اور آئندہ کل کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا کثیر نسلی چیلنج ہے جو صرف شام، عراق یا افریقہ تک محدود نہیں بلکہ افغانستان اور جنوبی ایشیا میں بھی بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔ محض اسی وقت ہی نہیں‘ جب اس پورے خطے میں گزشتہ چالیس سالوں پہ محیط انتہا پسندی کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں ایسے گروہوں کے پروان چڑھنے کے وسیع امکانات دکھائی دیتے ہیں بلکہ اگلے 10 سے 20 سالوں میں یہ مسئلہ مختلف انداز سے ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔ یو ایس سنٹرل کمانڈ کے سابق کمانڈر جنرل کینتھ میک کینزی نے 2020ء میں کہا تھا کہ داعش کی لازوال شکست سے بے گھر ہونے والے شہریوں اور ان تمام لوگوں کیلئے آگے بڑھنے کا راستہ ہموارکیا جائے جو مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، بصورت دیگر ہم حقیقت میں کبھی بھی داعش کو مکمل شکست نہیں دے سکتے، یہ مسئلہ واپس آنے والا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved