محترم آصف علی زرداری نے بطور صدرپاکستان پانچ برس مکمل کرنے کو ایک بڑا کارنامہ قراردیا ہے جس سے ان کے کہنے کے مطابق جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ ایک سول حکومت گئی اور دوسری سول حکومت آگئی۔ اطمینان سے انتقالِ اقتدار ہوگیا۔ اگر یہی جمہوریت کا ثمر ہے تو وہ تو حاصل ہوچکا۔ مگر لوگ خوش کیوں نہیں ہیں۔ وہ کیوں محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی جب سے جمہوریت آئی ہے یہ تلخ ہی ہوتی جارہی ہے۔ کوئی ادارہ بظاہر جمہوری حکومت کے قابو میں دکھائی نہیں دیتا۔ بڑے بڑے اداروں میں جو فیصلے ہوتے ہیں وہ قومی مفاد میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ جب فیصلے سامنے آتے ہیں تو کسی فیصلے کا حکومت دفاع کرتی دکھائی دیتی ہے تو کسی فیصلے کو اس قابل بھی نہیں گردانتی کہ اس کا دفاع ہونا چاہیے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو ایوب خاں کی حکومت نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ ایسا پرامن دور تھا کہ آج کے دورسے موازنہ کریں تو آج معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنت میں رہ رہے تھے۔ بھارت اور پاکستان کی صورتحال کے حوالے سے ایوب دور میں ایک لطیفہ مشہورتھا کہ پاک بھارت سرحد پر دوکتوں کا آمنا سامنا ہوا۔ پاکستانی کتا موٹا تازہ تھا جبکہ بھارتی کتا بالکل نیم جاں۔ بھارتی کتے کو پاکستانی کتے نے کہا کہ جب تمہیں کھانے پینے کو وہاں کچھ نہیں ملتا تو وہاں کیوں بیٹھے ہو ادھر آجائو تو بھارتی کتے نے جواب دیا کہ یہاں بھونکنے کی آزادی ہے اس لیے میں ادھر ہی ٹھیک ہوں۔ گویا ایوب دور میں عوام کے پاس سب کچھ تھا بس تحریر وتقریر کی آزادی نہیں تھی۔ غالباً اسی وجہ سے جن لوگوں نے ایوب خاں کے خلاف تحریک چلائی ان کو کامیابی حاصل ہوئی۔ گھٹن کے مارے لوگ انہیں برے لفظوں میں یاد کرنے لگے اور پھر پچھتائے اور آج تک بسوں کے پیچھے تحریر کرتے ہیں ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘ یحییٰ خاں کا دور اگرچہ قیامت خیز تھا۔ ہم سازشوں کا شکار رہے مگر عمومی طورپر لوگ اسی طرح خوشحال تھے جیسے ایوب دور میں رہے۔ پھر سقوط مشرقی پاکستان ہوا اور بھٹو صاحب برسراقتدار آئے۔ اس جمہوری دور کو مختلف حوالوں سے بہت یاد کیا جاتا ہے مگر جب عوامی خوشحالی کا حوالہ آتا ہے تو یاد رکھیں کہ 1977ء میں بھٹو صاحب نے جب انتخابات کا اعلان کیا تو ان کی مخالف اپوزیشن کا سب سے بڑا نعرہ یہ تھا کہ وہ برسراقتدار آکر 1971ء والی اشیائے صرف کی قیمتیں واپس لائیں گے۔ وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب کے عوامی دور میں مہنگائی بڑھتی رہی تھی اور موصوف کی ایٹمی پروگرام کے آغاز سمیت دیگر پالیسیاں اہم ضرورہوں گی لیکن عوام کی خوشحالی ان کے دور میں بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ گویا ایوب اور یحییٰ کے ادوار کی نسبت بھٹو صاحب کے جمہوری دور میں مہنگائی کافی بڑھی اور جیسا میں نے عرض کیا کہ اپوزیشن نے انتخابات میں نعرہ دیا کہ وہ 1971ء والی قیمتیں واپس لائے گی۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا زمانہ آگیا۔ ان کو بہت برا بھلا کہا جاتا ہے۔ جب موصوف برسراقتدار تھے تو اس وقت بھی ادیبوں وشاعروں کی محفل میں ان کے متعلق ایسے فی البدیہہ اشعار سنے جاتے تھے ع خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے خصوصاً آپ کے جنرل ضیاء سے اس کے علاوہ موصوف کے بہت سے لطیفے بھی مشہورتھے۔ ان کی اسلام پسندی کو بھی لوگ شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ڈاکٹراسرار احمد جیسے مذہبی لوگ جنرل صاحب کے قریب گئے مگر جلد ہی پیچھے ہٹ گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے اس نام نہاد آمرانہ دور میں بھی عوام عمومی طورپر خوشحال تھے۔ مہنگائی پر مناسب حدتک قابو تھا۔جنرل ضیاء الحق کا طیارہ پھٹنے کے بعد جو ہمارے جمہوری ادوار آئے ان میں جمہوریت کے باوجود عوام کی خوشی ماند پڑتی گئی اور اکتوبر 1999ء میں جب جنرل مشرف نے جمہوریت کا گلا گھونٹا تو مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ جنرل مشرف نے پہلے دوبرس کے دوران ایسی موثر حکمرانی کی کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے مگر ان کو پتہ نہیں کیا مجبوری تھی کہ وہ اپنے اقتدار کو جمہوریت تڑکا لگانے پر تل گئے اور نتیجے کے طورپر چودھری شجاعت اور ق لیگ سامنے آئے۔ پھر یہ نیم جمہوری دور شروع ہوا تو عوام کی مشکلات بڑھنے لگیں۔ مشرف کو سیاستدانوں نے وہ پلٹے دیے کہ بات این آر او تک جا پہنچی اور پھر اصلی جمہوری زرداری دور شروع ہوگیا۔ خدا شاہد ہے کہ جتنا اس جمہوری دورنے عوام کا خون چوسا ہے اس کی ماضی میں مثال موجود نہیں ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ماضی میں جتنے بھی غیرجمہوری دورگزرے ہیں اس میں عوام زیادہ تر خوشحال رہے ہیں اور جتنے جمہوری دور ہم نے بھگتے ہیں ان میں ہماری تکلیفیں محض بڑھتی رہی ہیں۔ تو آخر یہ جمہوریت کب ہمیں سُکھ دینا شروع کرے گی؟ نئی حکومت اتنے وعدے وغیرہ کرنے کے بعد آئی ہے اور آتے ہی قربانیاں مانگنا شروع کردی ہیں۔ کہتے ہیں کہ حکمرانوں سمیت بہت سے بااثر پاکستانیوں کے اربوں ڈالر غیرممالک کے بنکوں میں ہیں۔ عوام سے قربانیاں مانگنے کے بجائے ان امیرو کبیر پاکستانیوں سے کیوں قربانیاں نہیں مانگی جاتیں۔ اس صورتحال میں جب میں حکمرانوں کو یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ ہم نے سول حکمرانی کے پانچ سال مکمل کرکے ایک دوسری سول حکومت کو انتقال اقتدار کرکے جمہوریت کی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بھئی اللہ کے بندو تم سینکڑوں مسلح لوگوں کی حفاظت میں گھومتے پھرتے ہو۔ ہوائی اڈے سے گھرتک ہیلی کاپٹر میں جاتے ہو۔ پولیس کا ایک خاطرخواہ حصہ ہمہ وقت تمہاری سکیورٹی پر لگارہتا ہے پھرتم کیسے کہتے ہو کہ ہم پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے۔ لوگوں کی حالت قابل رحم ہوچکی ہے۔ سرکاری فیصلوں سے روز ایک نیا زخم لگ رہا ہے اور قائدین کا جمہوریت کا راگ ان زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔ لوگ یہ سب کچھ برداشت کررہے ہیں اور حکمرانوں کو برابھلا کہہ رہے ہیں لیکن حکمران عوام کی سنتے ہی نہیں۔ ان حالات میں مستقبل قریب میں اگر پاکستانی عوام کو جمہوریت کے لفظ ہی سے نفرت ہوجائے تو سوچئے پھر قصور کس کا ہوگا ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved