پاکستان اور بھارت کے مابین پرانے تصفیے نمٹنے کی خواہش تو رہی ایک طرف اب سندھ طاس معاہدے پر نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ بھارت نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے ہیگ کی عالمی عدالت میں بھارت کے خلاف دائرکیے گئے آبی مقدمات واپس نہ لیے تو پھر بھارت سندھ طاس معاہدے کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھے گا جو وہ اب تک کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ کرتا آیا ہے۔ بھارت نے پاکستان کی جانب سے عالمی ثالثی کی درخواست کو سندھ طاس معاہدے سے انحراف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب بھارت چناب اور جہلم کا ایک قطرہ بھی پاکستان کی جانب نہیں آنے دے گا اور دریائے سندھ کے پانی کو بھی روکے گا۔ بھارت کی جانب سے دی گئی ان خوفناک دھمکیوں پر ہمارے ہاں ابھی تک مکمل خاموشی ہے۔یہ معاملہ سر سری نہیں لیا جانا چاہیے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نریندر مودی اپنے جلسوں میں اس قسم کے اعلانات کرتا رہا ہے کہ وہ پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کر دے گا۔ گو کہ ابھی بھارت کے اگلے عام انتخابات میں کچھ وقت ہے لیکن نریندر مودی جس طرح پاکستان کے موجودہ حالات کو طنز کا نشانہ بنا کر اس کا کریڈٹ لے رہا ہے اور جس طرح انتہا پسند ہندو ووٹرز کو اپنے گرد جمع کرنے کیلئے آئے روز پاکستان مخالف بیانات کی بڑھکیں جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اس معاملے سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
اگر سندھ طاس معاہد ے کی بات کریں تو 62‘ 63 سال پہلے پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی کوششوں سے دونوں ممالک کے درمیان دریائوں کے پانی کے حوالے سے یہ متفقہ معاہدہ طے پایا تھا۔ جواہر لال نہرو اس معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے کراچی آئے تھے۔ ورلڈ بینک اس معاہدے میں ضامن ہے، لیکن اب بھارت نے اس معاہدے کے قواعد و ضوابط کو یکطرفہ طور پر بدلنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے پاکستان کو تین ماہ کا نوٹس دیا ہے کہ دونوں ملک مل کر اس معاہدے پر نظرِ ثانی کریں اور اس میں ترامیم کریں۔ اس وقت بھارت کے کشن گنگا اور ریتل ڈیم کے حوالے سے تنازع چل رہا ہے اور پاکستان نے ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں بھارت کے خلاف کیس دائر کر رکھا ہے اور عدالت سے درخواست کی ہے کہ دونوں ممالک کے اختلافات پر اپنا فیصلہ دے یا ثالثی کی کوشش کرے۔ بھارت کے یہ دونوں پن بجلی پروجیکٹس جہلم اور چناب کے دریائوں پر بن رہے ہیں۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ ان ڈیموں کے ذریعے پاکستان کے پانی کو نہ صرف بھارت روکے گا بلکہ ڈیموں کو اچانک کھول کر پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے کی کوشش بھی کرے گا۔ بھارت کے آبی منصوبوں کے متنازع ڈیزائن پر پاکستان نے اگست 2016ء میں عالمی بینک کی ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر ورلڈ بینک نے مارچ 2022ء میں عدالتی تشکیل کا عمل شروع کیا۔ 330 میگا واٹ کے کشن گنگا منصوبے کو آبی ماہرین ضرورت سے زیادہ بھارت کا سٹرٹیجک منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ اس منصوبے کا محض ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح پاکستان کے ایک ہزار میگا واٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ کو بند کر دیا جائے۔ پاکستان نے پہلے یہ اعتراض بھارت کے ساتھ بھی اٹھایا تھا مگر سندھ طاس کمیشن اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ اسی لیے اب غیر جانبدار ثالثی کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اگرچہ 2015ء میں بھی اس حوالے سے ایک درخواست کی گئی تھی مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ اگلے ہی سال وہ درخواست واپس لے لی گئی۔ اب پاکستان کے اصرار پر عالمی بینک نے غیر جانبدار ماہر اور ثالثی کا عمل بیک وقت شروع کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس معاہدے پر لگ بھگ سبھی مسائل بھارت کی جانب سے نئے ڈیموں کی تعمیر کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ 2008ء میں ہماری حکومت کی عدم توجہی اور اپنا موقف مدلل انداز میں پیش نہ کر سکنے کی وجہ سے پاکستان کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کو بگلیہار ڈیم کی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی طرح 2013ء میں کشن گنگا ڈیم پر بھی اپنا کیس بھرپور طریقے سے عالمی ثالثی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
ورلڈ بینک کے آبی ماہر کی حیثیت سے بنگلہ دیش، بھارت اوربرازیل میں 35 برس تک خدمات سرانجام دینے والے جنوبی افریقہ کے جان بریسکو (John Briscoe)نے 2006ء اور 2007ء میں بھارت اور پاکستان کی آبی معیشت پر لکھی جانے والی کتابوں اور اپنے مقالوں میں اقوام عالم کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ''مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پرپاکستان اور بھارت میں کسی بھی وقت جنگ چھڑسکتی ہے ‘‘۔دنیا بھر میں ''مسٹر واٹر‘‘ کی شہرت رکھنے والے آنجہانی جان بریسکو نے قریب ایک دہائی قبل کہا تھا کہ مستقبل میں پانی کی لہروں کے ساتھ ابھرنے والے سنگین خدشات کو دیکھتے ہوئے مجھے پاکستان اور بھارت کے عوام کی حالت پر ابھی سے ترس آ نے لگاہے اور اگر آنے والے وقت میں معیشت کی ممکنہ ابتری کی جانب دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت اور ملک کو پیش آنے والی غذائی قلت کا احساس ہی نہیں ۔ جان بریسکو نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ بھارت پاکستان پر گزشتہ کئی برسوں سے آبی حملے کر رہا ہے اور پاکستان کے غذائی مورچے تباہ ہوتے جا رہے ہیں مگر پاکستان اس حوالے سے خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ 2006آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والے India's Water Economy: Bracing for a Turbulent Future اور 2007ء میں شائع ہونے والے مقالے Pakistan's Water Economy: Running Dry میں جان بریسکو نے مستقبل کی تمام صورتحال واضح کر دی تھی۔
اگر سندھ طاس معاہدے کا جائزہ لیں تو اس معاہدے میں دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے بھارت کو پاکستان کے حصے کے پانی پر صرف اس حد تک اختیار دیا گیاتھا کہ وہ ان پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بنا سکتا ہے۔ نہ تو وہ پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کی مقدار میں کمی کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کا رخ بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن ان شقوں پر عملدرآمد تو دور کی بات‘ نریندر مودی سرکار نے اب انڈس واٹر ٹریٹی سے ہی انکار شروع کر دیا ہے۔ بگلیہار ڈیم کے معاملے پر پاکستان کا یہ اعتراض بالکل جائز اور مناسب ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے بگلیہار ڈیم پر واٹر گیٹ نصب نہیں کیے جا سکتے مگر بھارت نے ڈیموں میں جمع ہونے والی سلٹ (Silt) کا بہانہ بنایا۔ اگر صرف بگلیہار کی سلٹ (ریت، مٹی، گار) کا ہی معاملہ ہوتا تو باہمی رضامندی سے کچھ حل نکل سکتا تھا لیکن یہاں پر تو ریتل، سوالکوٹ، پاکلدل، برسار، دل ہست اور جسپا سمیت ڈیموں کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ واضح رہے کہ قریب ایک دہائی قبل جب پاکستان کوشدید بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتحال کاسامنا تھا تو بھارت نے بگلیہار ڈیم میں بے تحاشا پانی ذخیرہ کر نے کے بعد اسے یکدم چھوڑ دیا تھا۔ وہ تو خدا کا کرم ہوا کہ پاکستان میں بارشیں رک گئیں وگرنہ بارشوں کا سلسلہ چند دن مزید جاری رہتا تو پاکستان کو بھارت کے چھوڑے گئے پانی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ یہی صورتحال گزشتہ سال کے سیلاب میں بھی دیکھنے کوملی۔ جان بریسکو نے کہا تھا کہ وہ پانچ سال تک نئی دہلی میں رہنے کے بعد پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ بھارت کے دل میں پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور وہ ہمیشہ اسی تاک میں رہتا ہے کہ موقع ملے اور پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔ اس کام میں بھارتی میڈیا اپنی حکومت سے بھی دو ہاتھ آگے ہے کیونکہ جب بگلیہار ڈیم کا معاملہ ورلڈ بینک تک پہنچا تھا تو بھارت کا پورا میڈیا اپنی حکومت کے ساتھ کھڑا ہو کر پاکستان مخالف زبان بولنے لگا تھا مگر ہمارے ہاں ایک سکوت طاری رہا، جیسے ہم کسی حکم کے منتظر تھے۔ جان بریسکو کہتا ہے کہ پاکستان کو یہ شق معاہدے کا حصہ بنانی چاہیے تھی کہ پاکستان تبھی بھارت کو ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی اجازت دے سکتا ہے جب پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد اور اس کا اخراج پاکستان کی منشا کے مطابق ہو۔ نجانے ہمارے بہترین دماغ اس امر پر غور کیوں نہیں کرتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved