لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ آئین کے مطابق 90روز کے اندر ان کا انعقاد ہو جائے۔واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحریک انصاف کے چیئرمین کے حکم پر وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور محمود خان نے تحلیل کر ڈالی تھیں۔ چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھے لیکن اُن کی جماعت اتحاد کے بندھن میں بندھی تھی۔اُنہوں نے خان صاحب سے بار بار عرض کیا کہ اسمبلی کو تحلیل نہ ہونے دیا جائے۔آئندہ عام انتخابات تک اُنہیں کام جاری رکھنے کا موقع ملا رہے لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی۔پہلے پنجاب اور اُس کے بعد خیبرپختونخوا کی اسمبلی اُن کی ضد کو پیاری ہو گئی۔دونوں صوبوں میں سے کسی کے گورنر نے نئے انتخابات کی تاریخ نہیں دی۔دونوں نے یہ گیند الیکشن کمیشن کی کورٹ میں دھکیل دی۔الیکشن کمیشن اس معاملے پر ابھی تک غور و خوض میں مصروف ہے۔ مختلف اداروں کی طرف سے البتہ اُس کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی ''یقین دہانیاں‘‘ کرائی جا رہی ہیں۔وزارتِ خزانہ انتخابی اخراجات کے لیے مطلوب رقم دینے سے انکاری ہے‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے معاونت سے معذوری کا اظہار کر رہے ہیں کہ اُنہیں دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے وقت درکار ہے‘ وہ اپنے جوانوں پر فی الحال انتخابی عمل کی نگرانی کا بوجھ نہیں لاد سکتے۔اور تو اور‘ عدالت عالیہ نے بھی اپنے افسروں کی خدمات فراہم کرنے سے معذرت کر لی ہے کہ زیر التوا مقدمات کی تعداد بڑھ چکی ہے۔اگر جج صاحبان انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہو جائیں گے تو اُن میں اضافہ ہو جائے گا۔الیکشن کمیشن سر پکڑ کر بیٹھا ہوا ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ دستور کے مطابق ہر ادارہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کرنے کا پابند ہے لیکن اُن کے الفاظ ہوا میں اُڑ رہے ہیں‘ اُنہیں زمین پر اترنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔وفاقی حکومت کے کئی ذمہ داروں کا البتہ یہ کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہونے چاہئیں۔سیاسی مبصرین کی بڑی تعداد بھی اسی خواہش کا اظہار کر رہی ہے۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک جگہ بیٹھ جاتیں اور اتفاق رائے سے انتخابی لائحہ عمل تیار کر لیا جاتا۔تمام اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت کرانے کا اہتمام اس طرح ممکن ہو جاتا لیکن فریقین ایک دوسرے کو زِچ کرنے کی خواہش پالنے کے علاوہ کچھ اور کر نہیں پا رہے یا کرنا نہیں چاہتے۔ ایسے میں لاہور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر حکم حاصل کر لیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اس پر جشن منا رہے ہیں‘مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں‘ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں‘لاہور ہائی کورٹ کی بلائیں لے رہے ہیں‘اعلان کر رہے ہیں کہ عدلیہ نے اپنا وقار بلند کر لیا ہے جبکہ وفاقی حکومت اور اس کے متعلقین اور متوسلین منہ لٹکائے بیٹھے ہیں۔خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جائے گی اور معاملہ لٹکا دیا جائے گا۔انٹرا کورٹ اپیل کے بعد سپریم کورٹ تک بھی جایا جا سکتا ہے‘ ایسا ہو گا یا نہیں‘ یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے۔فی الحال پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔
یہ بات دو+دو= چار کی طرح واضح ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے 90دن کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد ہو جانا چاہیے۔اس بارے میں دستور کے الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے۔دستور میں ایک دفعہ ایسی بھی موجود ہے جس کے تحت اگر کوئی کام وقت ِ مقررہ پر نہ ہو تو بعد میں بھی انجام دیا جا سکتا ہے‘ تاخیر کی وجہ سے وہ غیر آئینی یا غیر قانونی نہیں ہو گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی غیر معمولی صورت حال کی وجہ سے انتخابات بروقت منعقد نہ ہو سکیں تو وہ بعد میں بھی کرائے جا سکتے ہیں۔وقت گزاری کے بعد یہ مؤقف اختیار نہیں کیا جا سکتا کہ چونکہ وقت ِ مقررہ گزر چکا ہے‘اس لیے اب انتخابات کی ضرورت نہیں رہی‘اُن کے بغیر ہی کام چلا لیا جائے‘ جیسا کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران چلایا جاتا رہا‘1977ء سے ہوتا ہوا معاملہ1985ء تک جا پہنچا۔ دلچسپ ترین نکتہ یہ ہے کہ آئین کی مذکورہ شق کو التوا کا جواز بنایا جا رہا ہے کیونکہ آئین میں یہ درج ہے کہ 90روز بعد بھی انتخابی عمل وقوع پذیر ہو سکتا ہے‘اس لیے ہم انتخابات90 روز کے بعد کسی روز کرا لیں گے۔یہ منطق نہ دستور کا تقاضا ہو سکتی ہے نہ عقل ِ سلیم کا۔اگر اسے تسلیم کر لیا گیا تو پھر کوئی بھی انتخاب وقت ِ مقررہ پر نہیں ہو سکے گا‘ مجبوری کو ضروری قرار دینے والے التواء کا کھیل کھیلتے چلے جائیں گے۔
جناب عمران خان سمیت تمام سیاسی رہنمائوں سے گزارش کی جا رہی ہے کہ خواہ وہ حزبِ اقتدار میں ہیں یا حزبِ اختلاف میں وہ ایک میز پر بیٹھیں اور قومی انتخابات کی تاریخ طے کر لیں۔ قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بیک وقت انعقاد اُسی صورت ممکن ہو گا۔ اس وقت یقینا غیر معمولی صورت حال درپیش ہے کہ اگر90روز کے اندر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے ہیں تو فوراً بعد قومی اور دوسری دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہو گا۔کم و بیش ایک سال تک قوم کو انتخابی بخار میں مبتلا رکھنے اور کمزور معیشت کو مزید کمزور کرنے سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ انائوں کے خول توڑے جائیں اور اتفاقِ رائے سے تاریخ طے کر لی جائے۔اس کے راستے میں آئین رکاوٹ نہیں بنے گا۔ سب راضی ہوں گے تو قاضی کو بھی دخل دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
امجد اسلام امجد رحمتہ اللہ علیہ
پاکستان کے انتہائی ممتاز ڈرامہ نویس‘ شاعر اور کالم نگار امجد اسلام امجد بھی اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو چکے ہیں۔اُنہوں نے کم و بیش آٹھ دہائیاں اس جہانِ رنگ و بو میں گزاریں‘شعر و ادب کی دنیا میں گزشتہ 50سال سے اُن کا سکہ چل رہا ہے۔ اُن کی درجنوں کتابیں چھپ چکیں‘اُنہوں نے بھی بہت لکھا اور اُن پر بھی بہت لکھا گیا۔اعلیٰ ترین اعزازات اُنہیں عطا ہوئے۔ صدرِ مملکت نے گزشتہ دنوں ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا‘ جو انہوں نے 23مارچ کو وصول کرنا تھا۔ وہ پاکستان کی ادبی اور ثقافتی شناخت تھے۔ سیرت پر ڈاکیو منٹری بنانے کا اعزاز بھی اُنہوں نے اپنے نام کر لیا تھا‘ اس کا ایک حصہ مکمل ہو کر اہل ِ دل سے داد وصول کر چکا تھا۔ اُن کا تفصیلی تذکرہ پھر ہو گا۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے‘چند روز پہلے عمرہ کر کے آئے تھے‘ بار گاہِ رسالتؐ میں نعت کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی‘ واپس آتے ہی ابدی نیند سو گئے ؎
ہے رشک ایک عالم کو جوہر کی موت پر
یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved