تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     12-02-2023

لاجواب لوگ بے مثال سروس

بنجاروں کی روح یوں شدت سے مچلتی ہے کہ پھر سمت کے ادراک کی فکر رہتی ہے نہ ہی منزل کا تعین ہو پاتا ہے۔ ایسے میں پیاروں کو آوارہ گرد ثابت کرنے کا ایک اور موقع فراہم کروا بیٹھتا ہوں۔ کافی مدت‘ قریباً چار ماہ مملکت خداداد سے باہر جانے کے ایک سے زائد مواقع میسر آئے‘ خواہش کے باوجود اذنِ سفر موصول نہیں ہوا۔ مت پوچھیں کہ دل پہ کیا گزری‘ تاہم اس بار جب رختِ سفر باندھنے کے ایک سے زائد جواز گڑھ لئے تو جانے کا بندوبست ہو ہی گیا۔ جانا اس لحاظ سے بھی واجب ٹھہرا کہ کیلیفورنیا میں برسوں سے مقیم دیرینہ دوست عزیزم قیصر شاہ کا اصرار اس قدر بڑھا کہ25 سالہ یاری داؤ پر لگ گئی‘ مزید براں واشنگٹن میں مقیم صحافی دوست اور یاروں کے یار مجیب الرحمان کے دربار میں غیر حاضری پر مسلسل دھمکی آمیز پیغامات سے دل پسیج کر رہ گیا تھا‘ تاہم جب خبر ملی کہ یارِ غار اسد جان حال مقیم لندن بمعہ صحافی دوست گوہر علی انکل سام کے ہاں آ رہے ہیں تو پھر جیسے کوئی بدمست بیل کھونٹی اکھاڑ کر کے باڑے سے بھاگتا ہے اسی طرح بیگ اٹھایا اور چل پڑا۔
ملی جذبے سے سرشار ہو کر ایک مرتبہ پھر قومی ایئر لائن پی آئی اے کا انتخاب کیا اور براستہ ترکی سان فرانسسکو کی راہ لی۔ اس روٹ کا انتخاب اس لئے بھی کیا تاکہ قیامت خیز زلزلے سے برادر اسلامی ملک ترکی میں جو تباہی ہوئی‘ جانی و مالی نقصان پر اظہارِ ہمدردی اور ان کے غم میں شرکت ہو جائے۔ مقصد ترکی کی تکلیف کو قریب سے محسوس کرنا اور اظہارِ یکجہتی تھا مگر یہ حسرت دل میں ہی رہی کیونکہ پی آئی اے نے حسبِ معمول بے اعتنا محبوب کی طرح ایسا دغا دیا کہ اس مرتبہ سچ مچ دل ٹوٹا۔ صبح چار بجے ایئرپورٹ پہنچے تو پتا چلا کہ پی آئی اے کی پرواز مقررہ تاریخ کے بجائے اگلے دن اڑان بھرے گی۔ ٹریول ایجنٹ سے رابطہ ہوا‘ ٹکٹ پر درج تاریخ بار بار دیکھی دن وہی‘ تاریخ وہی روانگی کا وقت وہی‘ فلائٹ نمبر وہی۔ اگر کچھ نہیں تھا تو ہماری سیٹ کی کنفرمیشن۔ ایئرپورٹ پر خدمات انجام دینے والے دوستوں کی مدد حاصل کی‘ ائیرپورٹ میں موجود پی آئی اے کے دفتر کے چکر لگائے ‘ ہر طرح کے جتن آزمائے مگر لاجواب لوگوں نے بے مثال سروس فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ لاکھ جتن کے بعد آخر حل یہ نکالا گیا کہ اگلے دن سفر کیا جائے اور وہ بھی استنبول سے اگلی فلائٹ کی اَن کنفرم فلائٹ آپشن کے ساتھ۔ قصہ مختصر جذبہ حب الوطنی کو سینے میں دباتے ہوئے پی آئی اے کا ٹکٹ کینسل کرنا پڑا۔ پی آئی اے ٹریول ایجنٹ کو جبکہ ٹریول ایجنٹ پی آئی کو مورد ِالزام ٹھہراتے رہے۔ دونوں میں کون غلط اور کون درست ہے‘ اللہ ہی جانے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ ہمیں قومی اداروں کا انتخاب ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی بے حد مہنگا پڑا۔
سفر کے دیگر ذرائع تلاش کئے اور ایک مرتبہ پھر ہمارے پرانے فرمانروا تاجِ برطانیہ کی ایک ائیر لائن کام آئی اور قریباً 12گھنٹوں کی اذیت کے بعد براستہ انگلستان امریکہ روانگی ممکن ہوئی۔ یہ رام کہانی سنانے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ قومی اداروں کی بے توقیری اگر روک نہیں سکتے تو کم از کم ہاتھ ہی ہولا رکھیں‘ ہماری طرح کتنے ہی مسافر اس ایک غلطی کی وجہ سے اذیت سے دوچار ہوئے ہوں گے۔ بھاری رقم خرچ کرنے کے بعد بھی اگر اذیت ملے تو کون ہو گا جو دوبارہ پی آئی اے کا انتخاب کرے گا جبکہ اس کے پاس دیگر ایئر لائنز کے متعدد آپشنز موجود ہوں۔ قومی ایئر لائن کی تباہی کے پیچھے ایسی کئی داستانیں ہیں۔ پی آئی آے کا کوئی والی وارث ہے تو بتائے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کتنے لوگوں کے ساتھ ہوا؟ کیا ایکشن ہوا؟ مسافروں کو مالی نقصان ہوا اس کا کیا ہو گا‘ ذہنی اذیت کا کیا حساب ہو گا؟ اور سب سے بڑھ کر تباہ حال پی آئی اے کا کیا بنے گا؟ وزیراعظم شہباز شریف خود انحصاری اور قومی اداروں کو فعال کرنے کا دم بھرتے ہیں۔ ایسے کیسے ممکن ہو گا جب کارکردگی میں اداروں کا یہ حال ہو گا؟بات صرف پی آئی اے کی نہیں ریلوے کی بات کریں ‘واپڈا کو روئیں‘ ایف بی آر کا نوحہ پڑھیں‘ صحت کے شعبے کو کوسیں یا پولیس کا نوحہ لکھیں یا سرکاری تعلیمی اداروں کا رونا روئیں۔ ہر جگہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
آئی ایم ایف ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اصلاحات‘ خود انحصاری‘ اخراجات میں کمی‘ آمدن میں اضافہ۔ اس سادہ سے فارمولے پر عمل کر کے ہی قرضہ ملے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے کے وفد نے حالیہ مذاکرات میں نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں مالی بحران سے زیادہ بدانتظامی ہے‘ بدانتظامی کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ آگے جا کر بدعنوانی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک لمحے کیلئے سوچئے اگر آئی ایم ایف ہم سے اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں تو بہت پہلے اصلاحات کر لی گئی تھیں‘ خطے کے دو ممالک چین اور بھارت نے پچھلی تین دہائیوں میں معاشی اصلاحات کی ہیں‘ دونوں ممالک آج معاشی لحاظ سے خودکفیل ہو چکے ہیں۔ بھارت نے اصلاحات کا عمل مرحلہ وار کیا‘ یہاں مخصوص طبقہ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا‘ اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ یہاں طبقۂ امرا اور عام شہریوں کیلئے الگ الگ اصول ہیں۔ طبقۂ امرا کو کہیں بھی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کی سہولت کو سامنے رکھ کر خدام بندوبست کر رہے ہوتے ہیں‘ جہاز کے اڑان بھرنے سے چند لمحے پہلے یہ طبقہ گھر سے نکلتا ہے جبکہ عام شہریوں کو پانچ گھنٹے پہلے بلوا کر چیکنگ کے مراحل سے گزار کر انتظار گاہ میں بٹھایا جاتا ہے‘ حالانکہ عام شہریوں کو حاصل حقوق اور دستیاب سہولیات سے ہی کسی ریاست کو مستحکم قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب ہم کسی ترقی یافتہ ملک کا سفر کرتے ہیں تو ہم کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ عام شہری کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔ قومی اداروں کی تباہی کا آغاز دراصل یہیں سے ہوتا ہے کہ عام شہریوں اور اشرافیہ کیلئے الگ الگ پیمانے مقرر ہیں‘ اشرافیہ کو کبھی اذیت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے تو انہیں عوام کی مشکلات کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے‘ یہ دہرا معیار ترک کئے بغیر ادارہ جاتی اصلاح آسان نہیں ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک کے سفر کے مشاہدات میں بالعموم مادی ترقی کا ذکر کیا جا سکتا ہے سماجی ترقی اور بلند معیار زندگی کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے‘ شاید ہم نے یہ بات ذہن میں بٹھا رکھی ہے کہ معاشی ترقی حاصل ہونے کے بعد ہم سماجی طور پر بھی بلند ہو جائیں گے‘ ہمارا شمار بھی مہذب اقوام میں ہونے لگے گا‘ یہ سوچ ہی دراصل پستی کی علامت ہے‘ ہمیں سب سے پہلے مہذب قوم بننا ہو گا‘ ایسی قوم جہاں شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا بندوبست کیا گیا ہے جس میں ایک مخصوص طبقے کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے قومی رویے ‘یہاں پر قومی اداروں کا ذکر جان بوجھ نہیں کیا جا رہا‘ اس قابل ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط پوری کی جا سکیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو خاکم بدہن پیارا وطن آج نہیں تو کل سری لنکا بن جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved