تیس جنوری‘ دن ساڑھے بارہ بجے کی بات ہے۔ میں زندگی کی بھاگ دوڑ میں اپنے دفتر میں مصروف تھا کہ میرے واٹس ایپ پر امجد بھائی یعنی جناب امجد اسلام امجد کا صوتی پیغام وصول ہوا ''جی! سعود! ماشاء اللہ۔ بہت محبت میری جان! میں اس وقت حرم شریف میں ہوں۔ کعبے کے سامنے بیٹھا ہوں۔ رب کریم اپنا کرم فرمائے۔ تمہارے لیے بھی دعا کی۔ سب احباب کے لیے بھی۔ رب کریم ان کو قبول فرمائے۔ اور ہم سب کی زندگیوں میں اور پاکستان کی زندگی میں آسانیاں عطا فرمائے‘‘۔
یہ غیرمتوقع پیغام تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ امجد بھائی گھر والوں کے ساتھ عمرے کے سفر پر ہیں۔ یہ خوشی کی بات تو تھی ہی جس میں اضافہ اس بات کا بھی تھا کہ انہوں نے مجھے ہمیشہ کی طرح اس موقع پر بھی یاد رکھا لیکن اس میں فکر کا پہلو بھی تھا۔ میں گزشتہ کچھ عرصے سے امجد بھائی کی گرتی صحت کی طرف سے فکر مند تھا۔ کئی ماہ پہلے ان کے ساتھ امریکہ کے سفر میں‘ جو ان کیساتھ میرے اَن گنت سفروں میں سے آخری تھا‘ میں دیکھ چکا تھا کہ انہیں چلنے میں ڈگمگاہٹ کا سامنا ہے اور زیادہ فاصلہ پیدل چلنے اور زینے اُترنے چڑھنے کی تاب نہیں ہے۔ میں نے ان سے اس موقع پر کہا بھی‘ جیسا کہ اس سے پہلے کئی بار کہہ چکا تھا کہ وہ اپنے سفر اور مصروفیات کم کریں اور آرام کے لیے زیادہ وقت نکالیں۔ یہ مجھے علم تھا کہ وہ اس بات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیں گے حالانکہ وہ خود اپنی گرتی صحت کی طرف سے فکرمند تھے۔ لیکن اس کی بہت بڑی وجہ ان کی ہردلعزیز شخصیت نیز لوگوں کی ان سے اور ان کی احباب سے دو طرفہ محبت تھی۔ لوگ اپنی محفل سجانے کے لیے انہیں لازمی خیال کرتے تھے اور قدر دانوں اور دوستوں کی بات ٹالنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔
چند دن مزید گزرے تو کسی دوست نے بتایا کہ کسی جگہ گر جانے سے امجد صاحب کی ٹانگ پر چوٹ آئی ہے۔ میں نے خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔ وہ عمرے سے اس وقت تک واپس نہیں لوٹے تھے۔ مجھے خیا ل آیا کہ امجد بھائی سے بہت دن سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ ورنہ کچھ دن گزرتے تھے تو کہیں نہ کہیں ملاقات ہو جاتی تھی۔ اور یہ سلسلہ سال ہا سال پر محیط تھا۔ میرا دفتر مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی کے بالکل قریب ہے‘ وہ جب کبھی ادھر آتے تو مجھے فون کرتے اور میرے دفتر میں ان سے گھنٹوں کی ملاقات ہوا کرتی۔ نیلا گنبد کے مشہور نان چھولے انہیں پسند تھے تو وہ بھی اس ملاقات میں اکثر شامل ہو جاتے۔ لیکن ان دنوں اتفاق سے چند مشاعروں اور محفلوں میں جہاں ہمیں یک جا ہونا تھا‘ کوئی ایسی صورت بنتی رہی کہ دونوں میں سے کوئی ایک شرکت نہیں کر سکا۔ امجد بھائی جملے باز‘ بذلہ سنج‘ نکتہ شناس اور حاضر جواب دوست تھے۔ ان کی طبیعت کی خرابی کے باوجود ان کی شگفتہ طبعی اور زندہ دلی میں فرق نہیں آتا تھا۔ ہم ملتے تھے تو حالات‘ شخصیات‘ ادبی صورتحال اور ادیبوں و شاعروں پر مزیدار تبصرے ہوا کرتے تھے۔ اس لیے ان سے ہمیشہ تازہ دم کرنے والی اس ملاقات کا انتظا ر رہتا تھا۔ اب جو کچھ دن ہوگئے تو یہ تشنگی بڑھ گئی تھی۔ حرمِ کعبہ سے ان کے موجودہ پیغام نے میرا دھیان عمرے کے اس سفر کی طرف موڑ دیا جو برسوں پہلے انور مسعود صاحب‘ مرحومہ صدیقہ باجی‘ امجد اسلام امجد اور فردوس بھابھی کے ساتھ کیا تھا۔ وہ ایک یادگار سفر تھا اور ان کے ساتھ ہر سفر ہی یادگار ہوا کرتا تھا۔ ان کے ساتھ اندرون اور بیرون ملک بہت سے سفر کیے تھے۔ ہندوستان‘ امریکہ‘ دبئی‘ دوحہ‘ مسقط‘ بحرین وغیرہ۔ ان میں کئی جگہ تو کئی بار سفر کیا۔ اپنے سینئر ادیبوں‘ شاعروں میں کسی کے ساتھ میرے اتنے سفر نہیں ہوئے جتنے امجد بھائی کے ساتھ ہوئے۔ اور وہ کیسے اچھے ہم سفر تھے‘ کیسے عمدہ رفیق اور کیسے دل دار دوست۔ کون سا طریقہ ہے‘ کون سی جگہ‘ جہاں یہ سب تفصیل سے ذکر کیا جا سکے؟
منتظر تھا کہ عمرے سے واپسی پر ان سے ملنے جاؤں گا لیکن پتا نہیں تھا کہ ایک بری خبر گھات لگائے بیٹھی ہوگی اور 10فروری کو نکل کر سیدھا دل پر وار کرے گی۔ اب کے ملاقات آخری ہوگی اور بالکل نئے ڈھب سے ہوگی۔ میں اس دن دفتر پہنچا ہی تھا کہ ایک دوست نے امجد صاحب کی وفات کی خبر سنائی اور تصدیق چاہی۔ میں نے اسی دھڑکتے دل کے ساتھ فون کیا کہ یا الٰہی مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو۔ لیکن ہونی کو کون روک سکا ہے۔
میں فوراً اُن کی رہائشگاہ پر پہنچا۔ وہی جگہ جہاں بے شمار مرتبہ امجد بھائی کو رات گئے مشاعروں سے واپسی پر الوداع کہا تھا۔ وہی جگہ جہاں ملنے جاتے تو وہ خوش آمدید کہنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ وہی گھر جو انہوں نے بہت چاؤ سے بنایا تھا اور ایک ایک کونہ بڑی محبت سے سب کو دکھایا تھا۔ وہی گھر جب وہ مشاعروں میں یہ نظم پڑھتے تھے تو ہماری آنکھوں کے سامنے آتا تھا ''اتنی بڑی ان دنیاؤں میں/ اپنے نام کی تختی والی ایک عمارت/ کتنے دکھوں کی اینٹیں چن کر/ گھر بنتی ہے‘‘۔
میں گھر میں داخل ہوا تو گھر والوں کے سوا چند ہی لوگ موجود تھے۔ ان کا بیٹا علی ذیشان‘ فردوس بھابھی‘ ان کی بیٹی ایک سکتے کے سے عالم میں تھے لیکن بڑی ہمت کے ساتھ اسی گھر میں موجود تھے جو ایسے حادثے کے بعد کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ امجد بھائی اپنی خواب گاہ میں اپنے بستر پر سیدھے لیٹے تھے۔ پرسکون چہرے پر کسی تکلیف یا بے چینی کے آثار نہیں تھے۔ گزشتہ رات انہیں کھانسی کی شکایت تھی‘ اس لیے دوا لیتے رہے۔ رات دو بجے بیٹے نے کھانسی کا شربت دیا۔ نیبولائزر بھی لیا۔ اس کے بعد وہ سو گئے۔ بیگم اسی کمرے میں موجود تھیں لیکن کسی بے چینی‘ تکلیف کی کوئی آواز نہیں تھی۔ صبح ساڑھے نو بجے انہیں جگانے کی کوشش کی لیکن خوابِ عدم سے بھلا کوئی کبھی جاگا ہے؟ ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے پہلے وہ یہ جہان چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ایک گہری نیند سے دوسری گہری نیند کا یہ سفر کب شروع ہوا‘ کب مکمل ہوا‘ کچھ پتا نہیں۔ پانچ دن پہلے عمرے کے سفر سے لوٹ کر‘ وہاں ہر اس زیادتی کو معاف کرکے جو زندگی میں کبھی ان کے ساتھ لوگوں نے کی تھی‘ دوستوں کو فون کرکے‘ محبتیں بھیج کر‘ پاک صاف ہوکر آئے اور آتے ہی چلے گئے۔ جیسے مغفرت کا پروانہ ساتھ لے کر آئے ہوں۔ ایسی بھرپور زندگی‘ ایسی پرسکون موت کتنوں کے حصے میں آتی ہے؟
مجھے چالیس سال کے لگ بھگ اس تعلق‘ اس دوستی پر بولنا پڑے‘ لکھنا پڑے تو کیا کہوں گا۔ ان پر ایک کتاب ستارے مرے ہم سفر چھاپنے‘ مفصل مضمون لکھنے‘ ان کے فن و شخصیت پر اکادمی ادبیات پاکستان کی کتاب تحریر کرنے کے بعد ہر طرح زبانی اور تحریری خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں لکھا‘ کچھ بھی نہیں کہا۔ ان کی شاعری‘ شخصیت‘ دوستی‘ ہم سفری‘ دلداری سبھی تشنہ الفاظ ہیں۔ اور تشنہ بھی ایسے ویسے۔ وہ پاکستانی ادب کا بھی چہرہ تھے اور لاہور کا بھی۔ کیسے تصور کیا جائے کہ ادب میں اور لاہور میں رہنا ہوگا لیکن امجد بھائی نہیں ہوں گے۔
امجد بھائی! اس دن میں نے آپ کی سرد پیشانی کو بوسہ دیا۔ لوگوں کے اژدہام کو نماز جنازہ میں شریک ہوتے‘ غم کرتے دیکھا۔ میانی صاحب کے اسی احاطے میں جہاں آپ کے بزرگ زمین کے سپرد کیے گئے تھے‘ جو میرے اپنے بزرگوں کی آرام گاہوں کے بالکل سامنے ہے‘ آپ کو اپنے سامنے مٹی میں اتارا۔ مٹھیاں بھر کر نئی ڈھیری پر مٹی ڈالی۔ سب ہو گیا مگر اب میرے سامنے دو مسئلے کیسے حل ہوں گے۔ ایک تو یہ اب آپ کے بعد لاہور کی ادبی زندگی جو بہت پھیکی ہوگی‘ کیسے گزاری جائے۔
تو نہیں ہے تو کس طرح گزرے
تو ملے گا تو مشورہ کروں گا
اور دوسرے یہ کہ یہ جو خبر ہمیں ملی ہے کہ امجد بھائی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کی تصدیق کیسے کی جائے؟ اس خبر کا یقین کیسے کیا جائے؟ یہ بھی کوئی یقین کرنے والی خبر ہے امجد بھائی!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved