تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     13-02-2023

واصف خان کا وصف

معاشرہ ہمارا ہو یا کوئی اور‘ ہر نوع کے انسانوں سے بستا اور آباد رہتا ہے۔ ہاتھ کی ساری انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ دوڑ کے میدان میں کھلاڑیوں کو جب ایک لکیر پر کھڑا کر کے پٹاخہ چلا کر مقابلے کا آغاز کیا جاتا ہے تو یہ منظر دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ طویل دوڑ میں ہزاروں افراد حصہ لیتے ہیں۔ مرد‘ خواتین‘ جوان اور بوڑھے بھی۔ بھاگتے بھاگتے کچھ ہلکان ہوجاتے ہیں۔ کچھ کی خواہش ہوتی ہے کہ بے شک وہ گھنٹوں پیچھے رہ جائیں لیکن منزلِ مقصود پر ضرور پہنچیں۔ ہم سب زندگی کی دوڑ میں ہیں۔ مقام‘ کامیابی‘ سکون‘ راحت‘ نظریات اور ترجیحات کو ترتیب دینے میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔ بازار ہویا کوئی بڑا شہر‘ یا پھر مختلف ممالک کو دیکھ لیں‘ ایمان دار‘ مخلص‘ محنتی‘ خود کماکر کھانے والوں اور دوسروں کی امداد کرنے اور پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور اپنے کام کو فرض سمجھ کر کرنے والوں کی کمی نہیں۔ دوسری قسم کے لوگ سرکاری طاقت کے بل بوتے پر لوٹ مارکا بازار گرم کرتے ہیں۔ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ اور چور بازاری ا ور ہر اس دھندے میں مصروف ہوتے ہیں جس سے دوسرے افراد اور معاشرے کو نقصان پہنچے۔ کوئی ملک اور معاشرہ دورِ حاضر یا ماضی میں اچھے اور برے لوگوں کے امتیاز سے خالی نہیں۔ اس تقسیم کے دونوں طرف آبادی کا کون سا حصہ زیادہ ہے‘ اس کے بارے میں کوئی معروضی شواہد پیش نہیں کیے جاسکتے۔
عملی اور فلسفیانہ مباحث کا جائزہ لیں تو عوام الناس کے بارے میں دو متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ یونانی مفکرین اور آج کے زمانوں کے حکمران طبقے اور اشرافیہ کی رائے عام لوگوں کے بارے میں نہایت ہی منفی ہے۔ لوگوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے اخلاق اچھے نہیں ہوتے۔ وہ ہر غلط کام کر گزرتے ہیں۔ نکمے ہیں‘ اور تہذیب تو انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ درویش ایسے خیالات کو دقیانوسی‘ جاہلانہ اور طبقاتی سوچ کا مظہر خیال کرتا ہے۔ مغرب کے قدامت پسند ہوں یا ہماری اشرافیہ کی یک طرفہ سوچ‘ وہ انسانی مساوات‘ بھائی چارے اور برابری کے کسی فلسفے کو نہیں مانتا۔ احساسِ برتری اورکمتری‘ یہ نفسیاتی مسائل اخلاقی انحطاط کا شکار لوگوں کو گھیرے میں لیے ہوتے ہیں۔ ہم انسانوں کو ان کے رنگ و نسل‘ مذہب‘ عقیدہ‘ امارت اور غربت کی پروا کیے بغیر فطری طور پر برابر خیال کرتے ہیں۔ لیکن سماجی پس منظر‘ نظام حکمرانی اور حکمران طبقات کی لوٹ مار کے رویے عام لوگوں کو ایک لکیر پر کھڑا نہیں ہونے دیتے۔ اب تو فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ اپنی زندگی کا دوتہائی نوجوانوں کے ساتھ جامعات میں گزارنے سے انسانی فطرت اور معاشرتی ناہمواریوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ پس ماندہ طبقات کے بچوں کو معیاری تعلیم کا موقع ملتے دیکھا تو اُنہوں نے لمبی چھلانگیں لگا کر بہتوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس لیے تو درویش معیاری سرکاری تعلیم سب کے لیے کی بات کرتا ہے کہ قومیں اور معاشرے اس کے بغیر انسانوں کو ایک لکیر پر کھڑا نہیں ہونے دیتے۔ اب نجی اداروں نے معیار قائم کرلیے ہیں۔اس طرح اشرافیہ اور بالائی طبقات کے لیے دوڑ کی لکیر عام آدمی سے بہت آگے تک کھینچی جاچکی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے سکول‘ کالج اور کچھ جامعات ہیں جو مکمل طور پر خیراتی ہیں۔ اکثر میں فیس صرف ان گھرانوں سے وصول کی جاتی ہے جو ادا کرسکتے ہیں۔ جو نہیں کرسکتے‘ انہیں جمع شدہ فیسوں میں سے اور اہلِ ثروت سے درخواست کرکے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ اپنی جامعہ کے بارے میں کبھی تفصیل سے کچھ مضامین لکھنے کا ارادہ ہے تاکہ آپ صرف معاشرے کے تاریک پہلوئوں کو ہی نہ دیکھیں‘ روشنی کے ان میناروں کی طرف بھی نظر کریں جہاں حکمرانوں کی اندھیر نگریوں میں لاکھوں پاکستانیوں نے اپنی محنت کی کمائی سے چراغ روشن کررکھے ہیں۔ ان چراغوں سے کئی گنا اور چراغ روشن ہوتے رہیں گے۔ جی چاہتا ہے کہ ایک نئے سفر کا آغاز کروں اور ڈھونڈوں ایسے لوگوں کو جن کے سینے علم کی روشنی سے منور تھے ہی‘ وہ سخاوت میں بھی مغرب یا مشرق کے جدید معاشروں سے پیچھے نہیں۔ اس سلسلے میں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ایسے انسان دوست میرے ارد گرد موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے ایسے بہت سے اہلِ دل افراد کی صحبت اور محبت اور ان کے بارے میں آگاہی کا موقع نصیب ہوا۔ پروفیسر واصف خان لمز کے بانیوں میں سے ہیں۔ اُن کا شمار اُن اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اس کی تعمیر کی پہلی اینٹ رکھی۔ دوعشرے قبل یہاں سے دعوت ملی بھی تو بس اسی جگہ کے ہوکر رہ گئے۔ ہم بھی اس ماحول کے ایسے اسیر ہوئے کہ بس کچھ نہ پوچھیں۔ یہاں کے دوستوں میں جس نے مجھے ذہانت‘ قابلیت‘ حسِ مزاح‘ آزاد روی اور جدیدیت کے پہلوئوں کے اعتبار سے بے حد متاثر کیا‘ وہ واصف خان ہیں۔ اہلِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اہلِ دل بھی ہیں۔ بالکل صوفیوں کی سی عادات‘ سادہ اور پُروقار اور بے تکلف سلیقے اور روایات کو ئی ان سے سیکھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی ہے‘ مختصر سہی مگر فلسفہ ٔ زندگی کا کوئی خوبصورت رنگ کسی تازہ دیسی گلاب کی خوشبو کی طرح بکھر جاتا ہے۔ مجھے احساس دلا کر کہ دیکھو‘ بوڑھے ہوگئے ہو‘ کیا کرو گے زمینوں کا اور جو تم نے جنگلوں میں جھونپڑیاں بنا رکھی ہیں‘ کس کام آئیں گی‘ کچھ گہری بات کر جاتے ہیں جو مجھے فوراً کسی سوچ کے دھارے میں بہا لے جاتی ہے۔ کچھ ماہ‘ یا شاید سال‘ ہوئے‘ فرمایا کہ وہ آبائی زمین بیچ کر ایک سکول تعمیر کرا رہے ہیں۔ اُن کے اس نیک ارادے کی خبر ان کے سابق شاگردوں کو پہنچی تو اُنہوں نے اپنے دل اور بچت کے دروازے اُن پر اس طرح کھول دیے جیسے کسی زمانے میں انہوں نے علم و دانش کے خزانے لٹائے تھے۔ تقریباً پانچ کروڑ کی رقم اس سکول کوبرکی کے قریب ایک گائوں میں کھولنے اور چلانے کے لیے درکار تھی۔ ساٹھ لاکھ تو صرف ان طالب علموں نے اکٹھے کیے جن کو وہ ذاتی طور پر جانتے بھی نہیں تھے اور نہ ہی کبھی پڑھایا تھا۔ چار کروڑ ستر لاکھ مجموعی طور پر جمع ہوگئے جس میں تقریباً دس فیصد کے لیے اُنہوں نے اپنے ذرائع استعمال کیے۔ پھر مجھے سمجھ آئی کہ ''یہ کیا کروگے سب کچھ جو تم جمع کر رہے ہو‘‘ کا نظریۂ حیات سے کیا تعلق بنتا ہے۔
ایک اور واقعہ بھی یہاں بیان کرتا چلوں۔ چند سال قبل ان کے گھر میں ڈاکا پڑاتو ڈاکو جن کا آج تک کوئی پتا نہیں چل سکا‘ ان کے بھرے گھر میں موجود بہت کچھ لوٹ کر لے گئے۔ اگلے روز ملاقات ہوئی تو صبر وشکر‘ سکون اور اطمینان کی کرنیں ان کی پیشانی سے پھوٹ رہی تھیں۔ سامان میں وہ نایاب گھڑی بھی تھی جو نیل آرمسٹرانگ نے چاندپر اترتے وقت پہن رکھی تھی۔ لاکھوں‘ اب تو ملینز میں ہوگی۔ شاگردوں نے سنا تو بالکل ویسی ہی ایک گھڑی برطانیہ سے خرید کر تحفے میں دے دی۔
اُنہوں نے خود سے ایک سوال کیا کہ تم نے زندگی میں کیا کمایا ہے؟ اس کا جواب ان کے ذہن نہیں‘ دل نے دیاکہ یہ شاگردوں کا احترام ہے۔ اگلا قدم تھا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے مجھے جو رزقِ حلال عطا کیا ہے‘ اس کا استعمال کیا ہو؟ زندگی کا یہ وصف واصف خان ہی جانتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved