تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     13-02-2023

دہشت گردی اور شدت پسندی کا چیلنج

تیس جنوری کو پشاور میںایک مسجد میں خود کش حملے سے پاکستان کی ریاست اور سماج کودرپیش سنگین خطرات کی بھرپور یاد تازہ ہو گئی ۔ یہ حملہ ہمیں ایک بارپھر 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر خود کش حملے کے سوگوا رلمحات میں لے گیا۔ اس تازہ ترین دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کی زیادہ تعداد کا تعلق کے پی پولیس سے تھا۔
پاکستانی حکومت او رعوام اس امر پر خوش تھے کہ 2014-18ء کے عرصے میں قبائلی علاقوں میں ہونے والے سکیورٹی آپریشنز میں دہشت گردی کا تقریباًپچاسی فیصد تک قلع قمع ہو گیا ہے۔ وقتاًفوقتاًکچھ واقعات ضرور ہوتے رہتے تھے مگر صورتحال پوری طرح سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں تھی۔ اگست 2021ء میں طالبان کی کابل میں واپسی کے بعد ایک بار پھر دہشت گردی سر اٹھانے لگی ۔ پاکستان کے سویلین اور عسکری حلقے افغانستا ن میں طالبان کی نئی حکومت کے حامی تھے کیو نکہ وہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں اس تبدیلی کے بعد استحکام کا دور آئے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کے سرحدی اضلاع میں بھی استحکام اورامن وامان بحال ہو جائے گا۔ یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ مفروضہ تھا جو افغانستان او راس کے ارد گرد شدت پسندی اور دہشت گردی کے نظریاتی مآخذوں کا ادراک کرنے میں بری طرح ناکام ہو گیا۔
2021-22ء کے دوران افغانستان سے متصل پاکستانی علاقوں میں رفتہ رفتہ دہشت گردی میں اضافہ ہوتا گیا جبکہ کابل حکومت دانستہ یا نادانستہ اپنا یہ وعدہ ایفا کرنے میں ناکام ہوگئی کہ وہ اپنی سرزمین سے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ وہاں سے آنے والے واضح سگنلز کو بھی پاکستانی اتھارٹیز نے نظر انداز کردیا ۔ ان سگنلز میں کابل حکومت کی طرف سے یہ انکار بھی شامل ہے کہ افغانستان میں مقیم کوئی دہشت گرد گروپ پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے میں ملوث ہے، نیز یہ کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وجوہات پاکستان کے اندر موجود ہیں۔ سکیورٹی فورسز پرسرحد پار افغانستا ن سے شدت پسند گروپس حملے کر رہے ہیں‘ کئی مواقع پر افغانستان کی بارڈر سکیورٹی نے حملے کیے ہیں‘ ان افغان گروپس نے پاکستان کی لگائی ہوئی حفاظتی باڑ پر حملے کیے اورجب پاکستا ن نے اس باڑ کی مرمت کرنے کی کوشش کی تواس کی مزاحمت کی گئی ۔ افغانستان دوطرفہ اور ٹرانزٹ تجارت کے حوالے سے بھی رنجید ہ ہے‘ ابھی تک یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ تباہ شدہ سرحدی باڑ مرمت کے بعد پوری طرح مؤثر ہوئی ہے یا نہیں۔
جب دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہواتوسوات‘ سابق قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں عوام نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے لیے عوامی ریلیوں اور پُرامن مارچ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان علاقوں کے عوام کو شد ت پسند گروپوں کی بیخ کنی سے فائد ہ ہوا تھا‘ دہشت گرد ی کی روک تھام سے سماجی او رمعاشی ثمرات حاصل ہوئے ۔ اب لوگوں کو امن اور معاشی ثمرات کا بھرپور ادراک ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ان کے لیے خطرات بننے والے عناصر کی سرکوبی کرے۔ پشاور میں مسجد پر دہشت گردی کے حملے کے بعد‘ پہلے ہی اختتامِ ہفتہ پر شہر میں پُرامن ریلیاں نکلیں جن کے شرکا نے حکومت سے دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا۔ کے پی کی صوبائی اور وفاقی حکومت کی طرف سے روایتی سا رد عمل دیکھنے میں آیا ۔ دونوں حکومتوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور متاثرہ افراد کے لیے ریسکیو اور ریلیف کا کام کرنے کے علاوہ مالی امداد کا اعلان بھی کیا ۔ اپیکس کمیٹی کا مشاورتی اجلاس ہوا‘ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی پیشکش کی گئی‘ نیشنل ایکشن پلان کی بحالی اور دہشت گردوں کو کسی قسم کی رعایت نہ دینے کی بات ہوئی۔ وفاقی حکومت نے کابل حکومت کے سامنے بھی یہ معاملہ اٹھا یا مگر تاحال وہاں سے کوئی مثبت رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ حکومت نے یہ دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے کہ کچھ علاقوں میں وسیع پیمانے پر کارروائی کرنے کے بجائے انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر انسدادِ دہشت گردی کی مخصوص کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ دوسری اپروچ پر عمل کرنے سے سویلین آبادی کے لیے سنگین مسائل جنم لیتے ہیں۔ مخصوص سکیورٹی آپریشنز کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے سویلین پہلو کی طرف بھی بھرپور توجہ دی جائے۔ سویلین شعبے کے درج ذیل ایشوز پر خاص توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
اول: ایک جامع او رمؤثر سویلین رد عمل کا تقاضا ہے کہ حکمران پی ڈی ایم اتحاد او رپی ٹی آئی کی اپوزیشن کے مابین جاری شدید محاذآرائی کی فضا ختم کی جائے ۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کی تضحیک اور غیر ضروری الزام تراشی پرمبنی سیاست ہو رہی ہے۔ پشاور مسجد میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو وزیر دفاع او روزیر داخلہ‘ دونوں نے اپنی تقاریر میں جہاں دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا وہیں دونوں نے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کے لیے عمرا ن خان کو موردِالزام ٹھہرایا ۔ وزیر اعظم نے سیاسی محاذآرائی ختم کرکے متحد ہوکردہشت گردی کے خلاف لڑنے کی بات تو کی مگر ساتھ ہی عمران خان پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام بھی لگا دیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے اے پی سی کی تجویز پیش کردی جس میں پی ٹی آئی کی شرکت کی خواہش کا اظہا ربھی کردیا۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی قائدین کو اس امر کا ادراک نہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بیک وقت انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک دوسر ے کے ساتھ تعاون بھی کریں‘ سیاسی لڑائیوں میں بھی ملوث رہیں‘ عدالتی مقدمات اور منفی ایف آئی آرز کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ انسدادِ دہشت گردی اور معاشی بحالی کی جامع پالیسی کی تیار ی او رنفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال ہے۔
دوم: اہم حکومتی عہدوں پر فائز شخصیات سمیت عوام کا ایک بڑا طبقہ جس دُہرے ذہنی معیار میں الجھا ہوا ہے‘ اسے ختم کرکے فوری طورپر یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ فکری د وغلا پن دہشت گردی میں ملوث عناصر میں پایا جاتا ہے ؟ کیا طالبان اس میں ملوث ہیں یاپھر طالبان کے بھیس میں بھارتی ایجنٹس اس دہشت گردی میں ملوث ہیں؟ کیا تمام طالبان برے نہیں ہیں؟ کیا ان گروپس کی شدت پسند آئیڈیالوجی دہشت گردی کو جنم دیتی ہے یا پاکستان کی امریکی صفوں میں شمولیت اس کی اہم وجہ ہے ؟ عوا م کی اکثریت دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے مگر یہاں وہ لو گ بھی موجودہیں جو ایسے عسکری گروپس پر تنقید کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں جو دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری تک قبول کرلیتے ہیں۔ افغانستان کی کشیدہ صورتحال میں عالمی طاقتوں کا کیا کردار بنتا ہے؟ سوم : مذہبی اور کلچرل شدت پسند ی اور مدرسوں اور ریاستی سرپرستی میں چلنے والے سکولوں میں عدم برداشت کے خاتمے کے لیے جامع پالیسی وضع کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ فرقہ واریت پر مبنی گروپس اور نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرور ت ہے ۔ اسی طرح کشمیر کی جنگ ِآزادی کے نام پر عسکریت پسندی کی اجازت بھی نہیں دی جانی چاہئے ۔ چہارمـ: نوجوان نسل میں بڑھتے ہوئے احساسِ پسماندگی و محرومی پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے دلوں میں امید اور روشن مستقبل کی جوت جگائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی بگڑتی صورتحال بھی شدت پسندنظریات او رگروپس کے پروان چڑھنے کا باعث بنتی ہے۔ پنجم : اچھی گورننس اور انسانی وسائل کی ترقی کسی معاشرے کے شدت پسندی اور عدم برداشت کی طرف جھکائوپر روک لگانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
شدت پسندی اور دہشتگردی سے نبردآزما ہونے کیلئے سویلین اور انٹیلی جنس پر مبنی ایک جامع اور مخصوص ملٹری اپروچ پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved