دو روز قبل ’’دنیا‘‘ کے ایک مضمون میں ملکی ترقی میں حائل رکاوٹوں کا ذکر ہے ۔ہماری افرادی قوت تعلیم اور ہنر میں کم تر ہے ۔ ٹیکس وصولی کے نظام میں کرپشن اورامرا ٹیکس چور ہیں۔خسارے کے بجٹ کی وجہ سے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہوتا ہے ۔ اپنے مخصوص ایجنڈے کی وجہ سے وہ معاشی صورتِ حال کو مزید بگاڑنے والی شرائط عائد کرتاہے ۔ قرضوں میں اضافے سے روپے کی قدر گرتی ہے (اور یہ امر بذاتِ خود ڈالر میں لیے گئے قرض میں اضافے کاباعث ہے )۔ ابتر معاشی صورتِ حال (اور دہشت گردی )سے بیرونِ ملک سے آنے والی سرمایہ کاری میں کمی ہوتی ہے ۔دوسری طرف سکیورٹی پہ مامور ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں کہ انہیں درکار وسائل فراہم نہیں کیے جا سکتے ۔ صرف یہی نہیں ، عظیم الشان ملکی وسائل جنہیں کبھی کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی ہاتھ نے چھوا۔ سالانہ دو ہزار ارب روپے کی کرپشن معیشت کے لیے ناسور ہے۔ احتساب کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ سابق صدر کے خلاف 60ملین ڈالر( 6ارب روپے )کے سوئس مقدمات کا ذکر ببانگِ دہل ہوتا رہا لیکن پچھلے پانچ برس میں قرض لیے گئے 8ہزار ارب کا کوئی تذکرہ نہیں ۔ بڑے حکومتی ادارے سالانہ 500ارب نگل جاتے ہیں ۔ تقریباً اتنا ہی نقصان توانائی کے بحران کی وجہ سے ہے ۔ کارخانے بند ہیں ۔ دوسری طرف پٹرول ،گیس اور بجلی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے ( حالیہ بیشتر اضافے آئی ایم ایف کے مرہونِ منّت ہیں ) پیداواری لاگت بے حد بڑھ چکی ہے ۔ پاکستانی صنعت کار اب ملکی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور نہ عالمی مارکیٹ میں مقابلے کے قابل ۔ نتیجے میں درآمدات میں اضافہ اور برآمدات گررہی ہیں۔ بیروزگاری کا ایک طوفان ہے ۔ نوکری سے محروم نوجوان جرائم میں ملوّ ث ہوتے ہیں ۔صرف کراچی نہیں ، ملک بھر میں جرائم تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں ۔ معیشت کی تباہی میں سیاسی عدم استحکام بھی اپناکردار ادا کرتاہے۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار کے پہلے دو سال ججوں کی بحالی کے لیے جاری تحریک میں گزر گئے ۔ ملک کے طول و عرض میں دو بار لانگ مارچ اور دھرنے ہوئے۔ میمو سکینڈل اس قدر خوفناک تھا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھاگم بھاگ واشنگٹن کار خ کرنا پڑا۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام لپیٹنے کی پیشکش اور فوج کے خلاف امریکی انتظامیہ کی حمایت کا مطالبہ ۔ سول اور عسکری قیادت میں کشیدگی ۔ایک مرحلے پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج اور پھر اپنی صوبائی حکومت تشکیل دینے کی ناکام کوشش کی۔ زرداری عہد کے ابتدائی برسوں میں عمران خان ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنے دے رہے تھے۔عام انتخابات سے چند ماہ قبل طاہر القادری پارلیمنٹ کے سامنے آسن جمائے بیٹھے تھے ۔ دفاعِ پاکستان کونسل انڈیا سے نفرت اور انتقام کے نعرے بلند کر رہی تھی۔ امریکہ سے طویل کشیدگی بھی اسی دور کا حصہ ہے۔ ایک مرحلے پر دو اہم قومی اداروں میں تنائو پیدا ہوا لیکن پھر دونوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ادھر افغانستان کی امریکی جنگ کے اثرات ۔ کل 20 ، 22ارب ڈالر کے بدلے ہمیں کم از کم 100ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ افرادی قوت کی تعلیم اور تربیت کے بغیر معیشت سمیت ریاست کے کسی ایک بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں اور نوجوان سب سے زیادہ اہم ہیں ۔ نوجوانوں کی پرجوش شرکت کے بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی قوم آزادی کی جنگ جیت سکتی ہے۔ کم عمر افراد میں توانائی اور جذبہ‘ عمر رسیدہ افراد کی نسبتاً زیادہ ہوتاہے اور تخلیقی صلاحیتیں بھی ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی صلاحیت زوال پذیر ہو جاتی ہے ۔اعضا میں پہلے جیسی قوت نہیں رہتی ، حواس کمزور ہونے لگتے ہیں اور یادداشت بگڑنے لگتی ہے ۔ سائنسدانوں کے مطابق دماغ میں موجود ایک خاص پروٹین کم ہونے لگتی ہے تو یادداشت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ صرف یہ ایک مسئلہ ہزار ہا طریقوں سے انسانی کارکردگی کو متاثر کر تا ہے ۔ عام انتخابات سے قبل 18سے 35برس کے انہی نوجوانوں میں مقبولیت کے بل پر عمران خان کو کامیابی کا یقین تھا، جو ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹروں کا 47فیصد تھے۔ شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے درست وقت پر صورتِ حال بھانپ لی۔ لیپ ٹاپ سمیت نوجوانوں کے مختلف منصوبوں پر پنجاب حکومت نے 47ارب روپے خرچ کیے۔پیلی ٹیکسی کے لیے بھی عمر کی حد 35برس تھی ۔انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی پر اگرچہ پنجاب میں بڑے پیمانے کی دھاندلی کا الزام ہے اور منتخب حلقوں میں انگوٹھوں کے نشان جانچ کر ہی صورتِ حال واضح ہوگی لیکن ان منصوبوں نے کچھ نہ کچھ رنگ بہرحال دکھایا ہے ۔ نوجوانوں کی حمایت جیتنے کے لیے ایک طرف چمکتے دمکتے منصوبے ہیں اور دوسری طرف توجہ کے متقاضی اصل مسائل ۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ زار سے سب واقف ہیں ۔ جس نسل نے بالآخر ملک کی باگ ڈورسنبھالنی ہے ، تعلیم کے ابتدائی 14برس یادداشت کے سوا اس کی کسی صلاحیت کو نکھارنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد اب اس کا استحصال شروع ہوتاہے ۔اول تو ملازمت ملتی ہی نہیں ۔پھر بینک سب سے زیادہ نوکریاں فراہم کرنے والا سیکٹر ہے ۔گنی چنی شاخوں والے معمولی بینکوں میں بھی ملازمت پہ رکھتے ہوئے 2سے 3لاکھ کے ایک بانڈ (Bond)پر دستخط کرائے جاتے ہیں ۔ قانونی طور پر اب وہ ملازمت چھوڑ نہیں سکتا؛البتہ ادارہ جب چاہے اسے لات مار کے نکال دے ۔ وہ کسی بارسوخ گھرانے کا نورِ چشم ہو تو اور بات ورنہ یہ رقم اس کی گردن دبا کے نکلوائی جاتی ہے۔ دوسری طرف کمرشل بینکوں کے درمیان دولت سمیٹنے کی دوڑ کانتیجہ یہ ہے کہ 8گھنٹے کی بجائے ملازمین سے 13گھنٹے کام لیا جاتاہے ۔ اربوں روپے منافع کمانے والے ادارے میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ نقصان کی صورت میں ملازم جیب سے رقم ادا کرتا ہے ۔ ایسے غیر انسانی سلوک کے بعد جذبۂ حب الوطنی کی بقا معجزہ ہی کہلا سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved