قارئین! آج ہم مجہول سیاست اور سیاسی بازیگروں کے کھیل تماشوں سے بچ بچا کر ایسے موضوع پر بات کرنے جا رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کا وہ چہرہ ہے جس پر لکھنا لکھانا تو دور کی بات حکومتیں بھی چشم پوشی ہی کرتی چلی آئی ہیں تاہم محض کارروائی ڈالنے کے لیے سبھی اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ حکمرانوں سے لیکر سرکاری بابوؤں اور این جی اوز چلانے والے سماج سیوک بھی دردِ دل سے عاری ہی پائے گئے ہیں۔ چند روز قبل نگران وزیر اعلیٰ محسن رضا نقوی کی زیر صدارت ایک اجلاس کی تصویر میں پروفیسر سعد بشیر کی جھلک نظر آئی تو کچھ اطمینان سا ہوا کہ چلو کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے جہاں نیتوں پر قفل لگ جائے وہاں کفر ٹوٹنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ خدا بھلا کرے! بلال صدیق کمیانہ کا جو پروفیسر سعد بشیر جیسے دردِ دل رکھنے والے مسیحا کو ہمیشہ سے سپورٹ کرتے آئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سے ملاقات اور ٹاسک فورس ٹائپ کمیٹی کی تشکیل کا ثواب اور سہرا بھی یقینا انہی کے سر ہے ورنہ پروفیسر سعد بشیر تو گزشتہ 30سال سے دہائی دیتے چلے آ رہے ہیں کہ کوئی تو خیال کرے کسی کو تو احساس ہو ذہنی امراض میں مبتلا مریض تو بیچارے اپنے اوپر ٹوٹنے والی آفتوں کو بیان کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے لیکن افراتفری اور نفسانفسی کے آسیب نے کسی حکومت کو توفیق ہی نہیں دی کہ ذہنی اور نفسیاتی امراض کے شکار مریضوں کو دیوانہ سمجھنے کے بجائے کم از کم مریض کا درجہ ہی دے دیتے‘ مریض سمجھنا تو درکنار کسی سے انسان سمجھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
جم خانہ کی بیٹھکیں ہوں یا مربی حسن نثار کے گھر محفلِ یاراں‘ ایک دوسرے کے دفاتر میں ملاقات ہو یا کسی تقریب میں سینئر پولیس آفیسر بلال صدیق کمیانہ کے حواس پر ان ذہنی مریضوں کی فکر سوار رہتی تھی اور انتہائی درد مندی سے یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ دیوانوں پہ کیا گزری ہے! دیوانوں کے اس مقدمے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے پروفیسر سعد بشیر جیسے دردِ دل رکھنے والے مسیحا کو بھی ساتھ جوڑ رکھا تھا۔ سعد بشیر جہاں بھی ان کے ساتھ آتے جاتے تو کاغذوں کا وہ پلندہ بھی اٹھائے پھرتے جس کا ایک ایک صفحہ دل دہلا دینے والی داستان اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا۔ شاید درد اور کرب میں ڈوبا ہوا کاغذوں کا وہ پلندہ نگران وزیر اعلیٰ کے دل کا بھی کام تمام ہی کر گیا۔ اسی لیے تو فوری طور پر ٹاسک فورس کا قیام اور زیر علاج مریضوں کے لیے وہ کام شروع کیا گیا ہے جس کے وہ بحیثیت انسان مستحق ہیں۔
اس موقع پر سابق گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل(ر) خالد مقبول کا ذکر نہ کرنا بھی کم ظرفی ہوگی‘ محسن نقوی سے پہلے وہ واحد حکمران گزرے ہیں جنہوں نے مینٹل ہاسپٹل کو اَپ گریڈ کر کے اسے انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کا درجہ دیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اَپ گریڈ کرنے کا جنون جنرل صاحب کو مینٹل ہسپتال بھی لے گیا تھا جہاں مریضوں کی حالتِ زار اور درد ناک مناظر کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر اسے اَپ گریڈ کرنے کا فیصلہ تو کر ڈالا لیکن عمل درآمد پر مامور بے حسی کے ماروں نے مریضوں کو اَپ گریڈ نہیں کیا۔ رنگ روغن کرایا گیا‘ عمارتوں کی حالت سدھاری گئی‘ نیا فرنیچر لایا گیا‘ دفتروں کو سجایا گیا‘ الغرض من چاہی انتظامی سہولتوں کے باوجود مریضوں کی حالتِ زار جوں کی توں رہی۔
پروفیسر سعد بشیر نے وزیراعلیٰ کی طرف سے مینڈیٹ ملتے ہی ذہنی امراض کے ماہرین پر مبنی رضا کاروں کی ٹیم کام پر لگا دی ہے۔ مریضوں کا آڈٹ شروع ہو چکا ہے‘ ابتدائی مرحلے میں ایک ہزار زیر علاج مریضوں میں سے 2009ء سے داخل 261مریض ایسے پائے گئے ہیں جن کا علاج گھر پر رہتے ہوئے بھی ممکن ہے اور اگر علاج میں غفلت اور کوتاہی نہ برتی جائے تو وہ بہتر زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں‘لیکن ان کے گھروالے انہیں واپس لے جانے کو تیار نہیں۔ اسی طرح 70سے 80ایسے مریضوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو اپنے گھروں کو جاکر نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ پروفیسر سعد بشیر کا کہنا ہے کہ 52ایکڑ پر محیط ذہنی امراض کی علاج گاہ میں مطلوبہ سہولتیں ناکافی ہی نہیں بلکہ تقریباً ناپید ہیں۔ سہولتوں کی کمیابی کا رونا روئیں یا انسانیت کی نایابی کا۔ جو مریض اپنے دل کا حال اور کیفیات بیان کرنے سے قاصر ہوں اُن پر ٹوٹنے والی قیامت کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔
سٹاف کی کمی کا عذر اپنی جگہ‘ رویہ اور سلوک ایسا کہ پتھر بھی رو پڑے‘ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ مریضوں کی سکرینگ کا عمل بھی جاری ہے۔ ان کے اہلِ خانہ سے رابطے کی کوششیں بھی جاری ہیں جبکہ اکثر مریضوں کے گھروالوں نے غلط فون نمبر لکھوانے کے بعد پلٹ کر خبر تک نہیں لی۔ اس پر بھی کام جاری ہے کہ گھروالے ایسے مریضوں سے کیوں قطع تعلق کیے ہوئے ہیں؟ وہ مالی مسائل کا شکار ہیں یا کوئی سماجی مسئلہ ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی رابطے اور وسائل بروئے کار لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ علاوہ ازیں جنہیں اپنے مریضوں کی وجہ سے معاشرے میں شرمندگی یا جگ ہنسائی کا خدشہ ہے‘ ان سبھی کی کونسلنگ کے علاوہ یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ انہیں اپنے پیاروں سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ ان کی بیماری کوئی خود اختیاری تو ہے نہیں‘ ایسے میں انہیں کس ناکردہ جرم کی سزا دے رہے ہیں۔ ان کی دلجوئی اور ہمدردی کے بجائے ان سے قطع تعلق کرنا غیر انسانی عمل ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو جہاں آزمائش اور امتحان میں ڈالتا ہے وہاں ان کا کڑا وقت ٹالنے کے لیے بھی بندوں کا انتخاب کرتا ہے۔ خدا نے نگران وزیر اعلیٰ سید محسن رضا نقوی کے ہاتھوں جو کام شروع کروایا ہے وہ اپنے مختصر دورِ اقتدار میں اسے پورا ہوتے ہوئے بھی دیکھ لیں کیونکہ نہ تو آنے والے وقت کا کچھ پتہ ہے اور نہ آنے والوں کی نیتوں اور ارادوں کا!
ایسے مریض یقینا خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی خصوصی اہمیت کو تسلیم کرنا ہی وہ پہلا قدم ہے جو ان کی بحالی اور نارمل ہونے کے اسباب پیدا کر سکتا ہے۔ جب تک ان کی اس اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا‘علاج معالجے کے لیے مطلوبہ ایس او پیز پر عمل نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک یہ مریض بیچارے دیوانے ہی کہلائے جاتے رہیں گے۔ پروفیسر سعد بشیر نے ان مخصوص اہمیت کے اہم مریضوں کے آڈٹ کا کام تو شروع کر ڈالا ہے لیکن حکومتی سرپرستی کے بغیر یہ سفر نہ طے ہو سکتا ہے اور نہ ہی مکمل! ایسے میں مریضوں کے لواحقین کو درپیش مسائل اور خدشات دور کرنے کے لیے بھی ایک کمیٹی ضرور تشکیل دی جانی چاہیے جو مریضوں کو گھر میں موافق ماحول اور بروقت مطلوبہ ادویات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ تقریباً سوا سو سال پرانی علاج گاہ کو پاگل خانہ بنائے رکھنے والوں کو خدا پوچھے کہ انہوں نے کتنی زندگیاں برباد اور کتنی ہی زندہ درگور کر ڈالیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہر دور میں نمائشی گورننس کے جوہر دکھانے والے اصلاحات اور اقدامات کے چیمپئنز علاج معالجہ اور دیگر سہولیات کا حساب تو درکنار ان بے کس اور لاچار مریضوں سے روا رکھے جانے والے غیرانسانی سلوک کا حساب بھی نہیں دے سکتے۔ وزیراعلیٰ صاحب! آڈٹ صرف مریضوں کا نہیں ان مریضوں پر خرچ ہونے والی رقوم اور بدسلوکیوں کا بھی ہونا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved