ابتدا میں ایک اعلانِ عام:جو لوگ عمران خان صاحب پر ایمان لائے ہیں اور انہیں معیارِ حق سمجھتے ہیں‘یہ کالم ان کے لیے نہیں ہے۔ ان کومیرامشورہ ہے کہ ایسی تحریروں سے دور رہیں‘جوان کے لیے خطرۂ ایمان ہو سکتی ہیں۔رہے وہ لوگ جو خان صاحب کے حامی ہیں اور انہیں دوسرے اہلِ سیاست کی طرح‘ اقتدار کی سیاست کا ایک کھلاڑی سمجھتے ہوئے‘انہیں دوسروں سے بہتر قرار دیتے ہیں‘ان کے لیے اس کالم کا مطالعہ امید ہے کہ زیادہ مضر نہیں ہو گا۔
عمران خان صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا یو ٹرن لیا ہے۔'مہا یوٹرن‘۔انہوں نے اقرار کر لیا ہے کہ موجودہ حکومت 'امپورٹڈ‘ نہیں ہے۔آج خان صاحب کا کہنا ہے کہ ‘رجیم چینج‘ پاکستان کے اندر بننے والا ایک منصوبہ تھا۔امریکہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔یہ تو پاکستان کا سب سے طاقتور آدمی تھا جو دراصل 'سپر کنگ‘تھا ‘ جس نے رجیم چینج کا یہ منصوبہ امریکہ کو برآمد کیا۔''وائس آف امریکہ‘‘ کو انہوں نے جو انٹر ویو دیا ‘اس کے اصل الفاظ ہیں: ''جو کچھ اب سامنے آیا ہے‘اس کے مطابق یہ امریکہ نہیں تھا جس نے مجھے حکومت سے نکالنے کے لیے کہا۔جو شہادت اب سامنے آئی ہے اُس کے مطابق ‘بدقسمتی سے یہ جنرل باجوہ تھے جنہوں نے امریکیوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ میں امریکہ مخالف ہوں۔ لہٰذامجھے نکالنے کا خیال امریکہ سے درآمد شدہ نہیں تھا۔دراصل یہ یہاں سے وہاں برآمد کیا گیا۔‘‘
'رجیم چینج ‘ وہ مہا مقدمہ ہے جو خان صاحب نے قائم کیا اور جس کی بنیاد پر انہوں نے امریکہ مخالف راہ نما کا روپ دھارا۔غیر ملکی غلامی کے خلاف ایک تحریک اٹھائی گئی اور اس قوم کے جذبات سے خوب کھلواڑ کیا گیا۔'ایبسلوٹلی ناٹ‘ اور ''ہم کوئی غلام ہیں‘‘ جیسے نعرے اپنائے گئے۔گلی بازار میں ایک ہنگامہ اٹھایا گیا کہ جیسے اس قوم کو امریکہ کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ایک مسیحا آ گیا ہے۔ اس طرح نوجوان نسل میں جو ''سیاسی شعور‘‘ پیدا کیا گیا‘اس کے مظاہر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔
اب‘ بزبانِ خان یہ آشکار ہوا کہ ''خواب تھا جوکچھ کہ دیکھا‘جو سنا افسانہ تھا‘‘۔امریکہ نے اس طرح کا کوئی منصوبہ بنایا ‘نہ خان صاحب امریکہ مخالف ہیں۔یہ منصوبہ تو پاکستان میں بنا جسے امریکہ برآمد کیا گیا۔مزید یہ بھی فرمایا: ''پاکستان کے عوام کا مفاد اسی میں ہے کہ امریکہ سے تعلقات خوشگوار رہیں۔امریکہ ایک سپر پاور ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی حصہ دار ہے‘‘۔خان صاحب کے یہ تازہ ترین خیالات سنیے اور پھر وہ تقاریریاد کیجیے‘ جن میں رجیم چینج کو امریکی منصوبہ بتایاجاتا تھا۔
یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ ا نہوں نے یہ انٹرویو ''وائس آف امریکہ‘‘ کو دیاہے۔گویا وہ جانتے ہیں کہ اس کا اصل مخاطب امریکہ اورغیر ملکی قوتیں ہیں۔رہا ان باتوں کا پاکستانی عوام پر اثر تووہ اس سے پوری طرح بے نیاز ہیں۔انہوں نے اسے کبھی اہم نہیں سمجھا۔وہ جانتے ہیں کہ ان کے عقیدت مندان کو معیارِحق سمجھتے ہیں۔وہ جھوٹ‘ کذب‘ غلط بیانی‘مکاری اور کرپشن جیسے اوصاف کی ان کی طرف نسبت کو قبول کر نے پر آمادہ نہیں۔کیونکہ ان کا فرمایا مستند ہے‘سچ ہے‘غلطی سے پاک ہے اور اخلاص و دیانت پر مبنی ہے۔جھوٹ جیسے اوصاف کا انتساب ان کے مخالفین کے نام ہے اور اس کے لیے یہ دلیل بہت ہے کہ خان صاحب انہیں جھوٹا قرار دیتے ہیں۔
خان صاحب کا یہ سمجھنا بے بنیاد نہیں۔ امرِ واقعہ یہی ہے۔عمران خان ایک کلٹ ہیں اور کلٹ کے اقوال وافعال کو عقل کے پیمانے پر نہیں پرکھا جاتا۔عام آدمی کی ناقص عقل‘ان کی ذہنی سطح اور پہنچ کا ادراک نہیں کر سکتی۔اس کا فرض بس اتنا ہے کہ خان صاحب کے کہے اور کیے کو معیارمان لے اور ماورائے عقل و خردحقائق کو جاننے کی سعی لاحاصل نہ کرے کہ وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
لیکن جو آدمی ‘عقل رکھتا ہے‘کیا اس کے لیے بھی یہ ممکن ہے کہ وہ اس مہا یوٹرن کو معمول کا ایک واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دے؟ کیا اس کی کوئی عقلی توجیہ ہوسکتی ہے؟عقلِ عام کے لیے پہلے ہی دن سے واضح تھا کہ 'رجیم چینج‘ محض ایک افسانہ ہے جو سیاسی مقاصد کے لیے لکھا گیا۔اس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔اس کی حقیقت محض اتنی تھی کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے اقتدار کو ختم کرنے کے درپے تھے۔اس کے لیے ایک آئینی راستہ عدم اعتماد تھا۔جب وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو خان صاحب کی حکومت ختم ہو گئی۔اب اس پر تو بات ہو سکتی ہے کہ اس میں ہمارے ریاستی اداروں کا کر دار کیا تھا؟اس کی ایک معقول وجہ ہے۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا ایسا واقعہ شاذو نادر ہی ہوا جب اقتدار کی تبدیلی میں مقتدرہ کارفرما نہ ہو۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ اس بار بھی یہی تاریخ دہرائی گئی ہے تو اسے بے بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔
'سائفر‘کا قصہ اس سے الگ اوربالکل واضح تھا۔یہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی انہونی بات نہیں تھی۔سفارت کار کا رویہ قابلِ اعتراض تھا اور پاکستان کی طرف سے اس کا جواب دے دیا گیا۔'سائفر‘ کی حقیقت بس اتنی تھی۔اس وقت بھی پاکستان میں حکومت کی تبدیلی میں امریکہ کا کوئی ہاتھ دکھائی نہیں دیاتھا۔پروپیگنڈے نے لیکن اسے ایک پورا مقدمہ بنا دیا اور لوگ اس پر ایمان لے آئے۔اس وقت یہ سوال اٹھا یاگیا تھا کہ امریکہ خان صاحب کا مخالف کیوں ہوگا؟انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ایسا کیا کر دیا جو امریکہ کو بہت ناگوار گزرا؟
اس کا ایک ہی جواب دیا گیا:خان صاحب روس سے تعلقات بحال کر رہے تھے۔سستا تیل لینا چاہتے تھے۔وقت نے اب ثابت کر دیا ہے کہ یہ بھی محض افسانہ تھا۔ عمران خان صاحب کے دورِ اقتدار میں روس سے تیل لینے کے لیے کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں اگر کوئی پیش رفت ہوئی تو وہ اس حکومت کے دور میں جسے 'امپورٹڈ‘ کہا گیا۔روس کا وفد پاکستان کا دورہ کر چکا۔یہ قدم تو ایسا ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
سیاست اسی طرح ہوتی ہے۔عام طور پر اس میں سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں ہوتی اور اس میں کسی سیاست دان کا کوئی استثنا نہیں۔تاہم بڑے لیڈر ایک درجے میں احتیاط کرتے ہیں۔وہ اس بات کی گنجائش رکھتے ہیں کہ انہیں ایک بات سے پھرنا پڑے تو ان کے الفاظ ہی ان کے راستے کی دیوار نہ بن جائیں۔خان صاحب اس کا تکلف نہیں کرتے۔ ان کے سامنے آج ایسی کئی دیواریں کھڑی ہو چکی ہیں۔اگر اس انٹر ویوکے ساتھ خان صاحب کے اس بیان کو بھی شامل کردیا جائے جو شوکت خانم کے فنڈز کے سوئے استعمال پر انہوں نے عدالت میں دیا ہے توان کی دیانت و امانت بھی 'رجیم چینج‘ کی طرح ایک افسانہ دکھائی دیتی ہے۔
یہ عبرت کا مقام ہے‘ان لوگوں کے لیے جو سیاست میں مسیحا تلاش کرتے ہیں۔سیاست اقتدار کے لیے ہوتی ہے اوراس میں سچ جھوٹ کی تمیز کم ہی کی جاتی ہے۔عوام کو یہ جان کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ انہیں ایسے انسانوں کے مابین انتخاب کر نا ہے جواقتدار کے لیے ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہیں۔انہوں نے یہ دیکھنا ہے کہ ان میں سے کون بہتر ہے۔یہ فیصلہ عقل سے ہوگا‘جذبات سے نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved