تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     14-02-2023

کیا ہمارے مسائل لا علاج ہیں؟

سیاستدان جب دست و گریباں ہوتے ہیں تو منتخب ایوانوں کو کمزور کر دیتے ہیں۔ ایسے میں لوگ بصد حسرت و یاس آسمان کی طرف دیکھتے ہیں یا مقتدرہ کی طرف۔ اس میں بیورو کریسی اور عدلیہ بھی شامل ہے۔ اب تو ہمارے کئی سینئر کالم نگار و تجزیہ کار منتخب ایوانوں سے ناامید ہو کر یہاں تک دہائی دیتے سنائی دیتے ہیں کہ اب تو یہ ہونا چاہیے کہ چیف جسٹس آف پاکستان صورتحال کا ازخود نوٹس لیں‘ حکومت اور سب سے بڑی پارٹی کے چیئرمین یعنی عمران خان کو بلائیں اور فیصلہ صادر فرمائیں کہ نوے نہیں بلکہ پینتالیس دنوں کے اندر انتخابات کرائیں۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس صاحب سے کی گئی استدعا میں بیسیوں طرح کے انتظامی و سیاسی فیصلہ کن اقدامات کرنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔دوسری طرف جمعرات کے روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے نیب ترامیم کے خلاف دائر کردہ مقدمے میں دیے گئے ریمارکس پر سینیٹ میں بحث ہوئی۔ چیف جسٹس صاحب نے جمعرات کے روز فرمایا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیااور یہ کہ انتخابات ہی تمام مسائل کا اصل حل ہے۔سینیٹ میں ان ریمارکس پر بحث کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن) کے دانشور سینیٹر عرفان صدیقی بھی شامل تھے۔ جمعہ کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل جج جسٹس منصور علی شاہ نے بڑے بنیادی نوعیت کے سوال اٹھائے جو عوام الناس کیلئے بالعموم اور سیاست دانوں کیلئے بالخصوص لمحۂ فکریہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا نیب ترامیم کے دوران ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والوں کا عدالت میں حقِ دعویٰ بنتا ہے‘ کیا پارلیمنٹ میں کرنے والے کام عدالتوں میں لانا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا نہیں ہے‘ کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست ہے‘ کیا قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھر عدالت آ جانا پارلیمانی جمہوریت کو کمزور نہیں کرتا‘ کیا عوامی مفاد کا تعین عدالت میں بیٹھے تین ججوں نے کرنا ہے؟
نیب ترامیم کے حوالے سے ہم اس مقدمے پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں زیر سماعت ہے؛ البتہ فاضل جج جسٹس منصور علی شاہ کے اٹھائے گئے عمومی نوعیت کے اہم سوالوں میں سے دو اہم ترین سوالات کی طرف سیاستدانوں کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے۔ پہلا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ میں کرنیوالے کام عدالتوں میں لانا منتخب ایوانوں کو کمزور کرنا نہیں؟اگر سیاستدان پاکستان میں اپنے کام خود کرنے‘ آپس میں افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنے‘ آئین کی پاسداری کرنے‘ مقتدرہ کی طرف نہ دیکھنے‘ اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار سے نہ لگانے کا کلچر اختیار کرتے تو پھر انہیں آئے روز بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے دروازے نہ کھٹکھٹانا پڑتے اور اس طرح پارلیمنٹ مضبوط سے مضبوط تر ادارہ بنتا چلا جاتا۔ فاضل جج صاحب کا اٹھایا گیا یہ نکتہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ کیا عوامی مفاد کا تعین عدالت میں بیٹھے تین جج صاحبان نے کرنا ہے؟ جناب جسٹس منصور علی شاہ کے ہر سوال میں اس کا جواب بھی موجود ہے۔ برسبیلِ مثال اس آخری سوال کو لیتے ہیں۔ سارے ملک کی منتخب اجتماعی دانش ملکی معاملات و مسائل کے بارے میں اور عوامی مفادات کے حق میں وسیع تر رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ ہمارے مسائل کا حل موجود ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ بقول مرزا اسد اللہ غالبؔ
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہمارے مسائل کا حل کسی مقتدر قوت کے پاس ہے نہ کسی عبقری و دانشور کے پاس‘ ہمارے مسائل کا حل ہمارے اپنے پاس ہے۔ سیاست کوئی شجر ِممنوعہ نہیں‘ ہر آدمی کو یہ شعور ہونا چاہیے کہ ملک میں اگر آٹے‘ دال‘ دودھ‘ چینی اور ادویات کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے اوپر چلی جاتی ہیں تو اس کے پیچھے وہ سیاسی و معاشی فیصلے ہوتے ہیں جو ہمارے بھیجے ہوئے سیاست دان کرتے ہیں‘ لہٰذا عام آدمی کو بھی تمام تر تعصبات و جذبات سے ماورا ہو کر ان نمائندوں کو ایوانوں میں بھیجنا چاہیے جو امانت و دیانت اور کارِ جہاں بانی کے معیار پر پورا اترتے ہوں۔ جس روز پاکستان کا ہر خاص و عام شہری اور وطن عزیز کا ہر سٹیک ہولڈر صدقِ دل کے ساتھ آئینِ پاکستان پر عملدرآمد کو اپنا شیوہ بنا لے گا اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو اخلاص کیساتھ تسلیم کرے گا‘ اس روز ہمارے سارے مسائل بھی حل ہوں گے اور کوئی قومی مرض بھی لاعلاج نہیں رہے گا۔
امجد اسلام امجد
عربوں کا پرانا قول ہے‘ اپنا دل مجھے تھما دو‘ ملاقات جب مرضی کر لینا یعنی تعلق میں قلبی لگاؤ معتبر ہے‘ کثرتِ ملاقات نہیں۔ میری امجد اسلام امجد سے کوئی دوستی تو نہ تھی مگر تعلق خاطر اور احترامِ باہمی کا ایک خوبصورت رشتہ ہمارے مابین تھا۔ وہ ملک کے صفِ اوّل کے ممتاز شاعر‘ ادیب‘ ڈرامہ اور کالم نگار تھے۔ انہوں نے جس صنفِ ادب پر قلم اٹھایا اس میں اپنا لوہا منوایا۔ ایک زمانے میں انہوں نے بے مثال ڈرامے لکھے۔ 1980ء کی دہائی میں آن ایئر ہونے والے ڈرامے ''وارث‘‘ میں امجد صاحب نے ہمارے جاگیردارانہ طبقاتی معاشرے کی نہایت سچی عکاسی کی تھی۔ وارث جیسا ڈرامہ ہمارے ملک میں دوبارہ تخلیق نہ ہوا۔
اس فقیر نے جناب انور مسعود اور امجد اسلام امجد کے ساتھ امریکہ کا ایک یادگار سفر کیا تھا۔ ہم امریکہ کے کئی شہروں میں گئے‘ وہاں پاکستانیوں کے بڑے بڑے اجتماعات میں راقم الحروف وطن کی محبت کے بارے میں تقریر کرتا جبکہ امجد اسلام امجد محبت کے لازوال جذبے کے حوالے سے اپنی غزلیں اور نظمیں سنا کر لوگوں کے دل موہ لیتے تھے۔ ہم جہاں بھی جاتے وہاں امجد صاحب اپنی بزلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی سے جانِ محفل بن جاتے تھے۔ امجد اسلام امجد اور جناب انور مسعود امریکی ریاست اوکلاہاما میں میرے بیٹے بلال پراچہ‘ جو ادب نواز بھی ہے اور مؤدب بھی‘ کے گھر بھی تشریف لائے تھے‘ جہاں ان دونوں شخصیات سے ملاقات کیلئے وہاں کے بہت سے پاکستانی مدعو تھے۔ بلال کی اس میزبانی و محبت کے بعد امجد صاحب کا اس کے ساتھ رشتۂ شفقت و محبت استوار ہو گیا۔ امریکہ میں ہم جہاں بھی جاتے وہاں امجد صاحب سے ان کی ایک نظم کا ضرور مطالبہ ہوتا۔ محبتوں کا شاعر یہ فرمائش ضرور پوری کرتا۔ اس طویل نظم کی بس دو تین سطریں ہی یہاں بطور یاددہانی لکھی جا سکتی ہیں۔
کہو مجھ سے محبت ہے
محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی، جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو مجھ سے محبت ہے‘کہو مجھ سے محبت ہے
امجد صاحب ابھی حال ہی میں اپنے اہلِ خانہ سمیت نہایت ذوق و شوق کے ساتھ عمرہ اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کی سعادت حاصل کرکے آئے تھے۔ 12فروری کے ایک قومی معاصر میں ان کی وفات کے بعد ان کا کالم ''مکہ سے مدینہ تک‘‘ شائع ہوا۔ اس میں امجد صاحب نے نہایت سوز سے لکھا تھا کہ اللہ نے مجھے توفیق دی اور میں نے ان سب لوگوں کیلئے اپنی طرف سے معافی کے اعلان کے ساتھ دعائے مغفرت کی جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں کبھی نہ کبھی میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ دل میں بار بار یہ آیت گونج رہی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ بدلہ لینا تمہارا حق ہے لیکن اگر تم معاف کر دو تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے۔ اسی سفر میں امجد صاحب نے مسجد نبوی میں ہدیۂ نعت بھی پیش کیا تھا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved