تاریخِ انسانی کی بعض شخصیات اتنی اعلیٰ اور ہمہ گیر ہوتی ہیں کہ اپنے پیچھے اَنمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ ان کی معطر یادیں صدیوں تک ابنائے آدم کے دل و دماغ کو معطر کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ یہ شخصیات قدرتِ حق کی طرف سے انسانیت کے نام ایک انمول ہدیہ ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت نے مصر کے ایک علمی و دینی گھرانے میں 1906ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام حسن البنا رکھا گیا۔ آپ ایک اَنمٹ اسلامی فکر کی ترویج کرکے جوانی ہی میں خلعتِ شہادت پہن کر عازمِ بہشت ہو گئے۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ ان کا بہترین تعارف ان کی قائم کردہ تنظیم الاخوان المسلمون ہے۔ اخوان نے مصر اور عالم عرب میں ہر سو قربانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کی ہیں۔ اخوان کوئی عام سی تنظیم یا متداول معانی میں سیاسی جماعت نہ تھی‘ نہ ہے۔ یہ ایک جامع اسلامی تحریک ہے جس نے پوری دنیا پر اپنی فکرِ سلیم اور انقلابی سوچ کے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اخوان کے پیشِ نظر نظام کی تبدیلی کا تصور بالکل واضح تھا۔ اس کارِ عظیم کا تقاضا تھا کہ ایسے مردانِ کار تیار کیے جائیں جو دعوتِ اسلام کی چلتی پھرتی تصویر اور اپنی دعوت کی تفسیر بن جائیں؛چنانچہ اس کے لیے ذاتی تربیت اور تزکیے پر بھرپور توجہ دی گئی۔ہفتے میں ایک دن کا تربیتی اجتماع تمام اخوان کے لیے لازمی تھا۔ قرآن سے مستقل اور قریبی تعلق بھی اسی شعبے کے ذریعے راسخ کیاگیا۔ اکثر اخوانی دنیا بھر میں جیبی سائز کا قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ حفاظ بھی ہیں۔اپنی ہر گفتگو میں قرآنِ مجید سے حوالے اور استشہاد اخوان کا طرۂ امتیاز ہے۔ اہلِ خانہ کی تربیت کے لیے اجتماعِ اہلِ خانہ کو ضروری قرار دیا گیا۔بعد میں اسرہ جاتی نظام بھی متعارف کرایا گیا، جو کافی مقبول ہوا اور حکومت نے اخوان کے خلاف اپنے جھوٹے پروپیگنڈے میں اسے بنیاد بنا کر الزامات کا طومار باندھا اور اسے بغاوت کی تیاری کا نام دیاگیا۔
تربیت کا یہ پہلو قرآن مجید کے حکم وَاَنْذِرْ عَشِیْرتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (ترجمہ: اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائو۔الشعراء: 214) ہی کی عملی تفسیر ہے، جو لوگ قرآنِ مجید کاانقلاب اور شریعت مطہرہ کا نفاذ چاہتے ہیں،انہیں عاملین و حاملینِ قرآن ہونا چاہیے۔ امام حسن البنا نے اخوان کے دل و دماغ میں یہ درس پیوست کر دیا تھا۔ ان کے جانشین ِاول امام حسن الہضیبیؒ کا یہ فقرہ عالمِ عرب میں زبان زدِ عام ہے: ''قرآن کو اپنی زندگیوں میں نافذ کردو،زمین پر یہ خود نافذ ہو کر رہے گا‘‘۔یہ فقرہ سید مودودیؒ کے اس مشہور فقرے کے مترادف ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا: ''قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘۔
امام حسن البنا کا اندازِ گفتگو اتنا مؤثر،سلیس اور قرآن و سنت کے حوالوں اور سیرتِ طیبہ کے پُرتاثیرواقعات سے مزین ہوا کرتا تھا کہ سامعین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔امام حسن البنا نے خود بھی اپنی یادداشتوں میں بہت دلچسپ، ایمان افروز اور مثالی تجربات بیان کیے ہیں۔ انہوں نے اپنی دعوت کے مختلف مراحل گنوائے ہیں، جن میں آغاز میں تعارف اور لوگوں کو متوجہ کرنا مقصود تھا۔پھر چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے ذریعے تنظیم و دعوت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔پھر بازار میں کارنر میٹنگز کی جانے لگیں۔اس کے بعدقہوہ خانوں میں خطابات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔پھر مساجد و مدارس میں بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے اور بالآخرکھلے میدانوں اور پارکوں میں عظیم الشان جلسے منعقد کیے جانے لگے۔
جب قہوہ خانوں میں خطاب کا خیال انہیں سوجھا اور انہوں نے اخوان کی مشاورت میں اسے پیش کیا تو اس پر بڑی لے دے ہوئی۔اکثر بھائیوں نے اس کی تائید نہیں کی۔ان کے نزدیک اس سے دعوت کی سبکی ہو سکتی تھی۔حسن البنا کے ذہن میں جو تصور تھا اس پر انہیں اعتماد ہی نہیں بلکہ عین الیقین حاصل تھا کہ اس کے نتیجے میں دعوت تیزی سے پھیلے گی۔ امام خالص اسلامی اصولوں کے مطابق مشاورت کے بغیر انفرادی فیصلوں کے خلاف تھے؛ چنانچہ طویل ردوکد کے بعد آزمائشی طور پر یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔
امام حسن البنا فرماتے ہیں: '' محلوں اور بازاروں میں کام کا آغاز ہوا۔میں ہر قہوہ خانے میں پانچ سے دس منٹ تک گفتگو کیا کرتا تھا۔پہلی رات میں نے بیس مقامات پر خطاب کیا۔ہمارا یہ تجربہ سو فیصد کامیاب ہوا۔اسے ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کرپذیرائی ملی۔رات گئے جب ہم اپنے مرکز‘ واقع ''شیخون‘‘میں واپس آئے تو سبھی رفقابہت خوش تھے۔یہ تجربہ ہم نے اسماعیلیہ سے شروع کیا اور پھر دیگر شہروں میں بھی اسے دہرایا۔ قہوہ خانوں کے مالکوں نے شروع میں اسے عجیب سمجھا مگر بعد میں وہ درخواستیں کرنے لگے کہ ان کے ہاں پروگرام رکھا جائے‘‘۔ داعی کے لیے اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے۔ قہوہ خانوں کے بعد بڑے جلسوں کا مرحلہ آیاتو عام مزدور سے لے کر انتہائی اعلیٰ مقام و منصب اور تعلیم و مرتبے کے لوگ بھی جوق در جوق رجوع کرنے لگے۔یہ جلسے محض بڑے شہروں ہی میں نہیں بلکہ دور دراز دیہات میں بھی منعقد کیے جاتے تھے۔ آپ نے بڑے شہروں سے کام کا آغاز کیا مگر بہت مختصر وقت میں دیہات کو بھی اپنی فکر سے منور کر دیا اور پورا مصر ان کی ایمان افروز دعوت سے گونج اٹھا۔
اس طریقِ دعوت اور مضبوط تنظیم کا نتیجہ یہ تھا کہ چند ہی برسوں میں پورے مصر میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک عوام اخوان کی طرف متوجہ ہوتے چلے گئے۔مصر کے بادشاہ فاروق کو اس کے مغربی مشیروں نے یہ سبق پڑھایا کہ حسن البنا اس کی بادشاہت کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے؛ چنانچہ شاہ فاروق نے امام حسن البناکو راستے سے ہٹانے کے لیے بڑی گہری سازش تیارکر لی۔
معروف عرب مورخ انور الجندی نے اپنی کتاب ''حسن البنا‘‘ میں امام کی شہادت کے واقعے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے جس کا نہایت مختصر خلاصہ یہ ہے کہ1948ء کے اختتام پر حکومت مصر نے امام حسن البناکو شہید کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔اخوان پر پابندیاں اور پکڑ دھکڑمکمل ہوچکی توحکومت نے امام حسن البناسے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا۔ آخر12 فروری 1949ء کی شام جمعیۃ شبان المسلمین کے دفتر‘ جو شارع ملکہ نازلی میں واقع ہے‘ ان سے ملاقات کا وقت بعد از نماز مغرب طے کیاگیا۔ آٹھ بج کر پچیس منٹ تک ان سے کوئی رابطہ نہ کیا گیا تو انہوں نے ٹیکسی منگوائی تاکہ واپس اپنے گھر جائیں۔ آپ کے ساتھ آپ کے بہنوئی جناب عبدالکریم محمد منصور بھی تھے۔ دونوں حضرات ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ ابھی ٹیکسی چلی نہیں تھی کہ قاہرہ کی اس پررونق سڑک پر نامعلوم حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ٹیکسی کے تمام شیشے ٹوٹ گئے۔دور تک گولیوں کی آواز سنائی دیتی رہی۔ سات گولیاں امام کے جسم میں پیوست ہوگئیں، وہ زخمی ہو کر گرپڑے۔ اس کے باوجود ہمت کرکے اٹھے اور ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی مگر ٹیلی فون تک پہنچ کر بے ہوش ہوگئے۔وہ ایمبولینس منگوانا چاہتے تھے مگر اسی حالت میں انہیں سہارا دے کر اسی ٹیکسی میں ان کے بہنوئی‘ جو خود بھی زخمی تھے‘ ہسپتال تک لے جانے کے لیے نکلے۔ فائر بریگیڈ کا دفتر بالکل قریب تھا،وہاں سے ایک گاڑی میں ان زخمیوں کوقصر العینی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔زیادہ تر گولیاں امام حسن البناکے سینے میں پیوست ہوئی تھیں۔ ہسپتال میں انہوں نے صرف ایک ہی بات چند مرتبہ دہرائی: ''مجھے پانی دیجیے‘‘۔اسی رات ان کی شہادت ہو گئی۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے ان کی اشیا کی فہرست بنائی تو وہ چھ مصری پائونڈ اور دس قرش نقدی اور ایک تسبیح تھی۔ سنتِ رسول کی روشنی میں امام نے دنیا سے بے رغبتی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔
سرکاری حکم کے مطابق صبح 9 بجے تک تدفین کا عمل مکمل ہونا تھا۔ لوگوں کوجنازے میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔صبح8بجے جسدِ خاکی کو کفن میں ملبوس کرکے شہید کے والد باہر نکلے۔مسلح سرکاری اہل کاروں اور ان کی گاڑیوں کے علاوہ سڑک پر کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔انور الجندی نے شہید کے والد کے الفاظ میں بیان کیا ہے: ''جنازہ تیار ہوگیا تو میں نے پولیس والوں سے کہا کہ کچھ لوگ بھیجو، جنازہ اٹھا کر گاڑی میں رکھ دیں مگر انہوں نے انکار کر دیا۔میں نے کہا: بھائی!گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔ انہوں نے جواب دیا ''مرد نہیں ہیں تو عورتیں جنازہ اٹھائیں‘‘۔چنانچہ خواتین نے جنازہ اٹھایا، جو جامع مسجد قیسوم تک لایا گیا۔وہاں بندوقوں کے سایے میں جنازہ پڑھا گیا۔پھر امام شافعیؒ کے قبرستان میں میرے بیٹے کو دفن کردیا گیا‘‘۔ (من قتل حسن البناؒ، ص: 229)
جنازہ اٹھانے میں والد کے ساتھ شہید کی اہلیہ، بہن اور اٹھارہ سالہ بیٹی تھیں۔بے بسی کے اس عالم میں ان کی بڑی بیٹی نے اپنی ہمت مجتمع کرکے جو الفاظ کہے، وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ حسن البنا شہید نے اپنے بچوں کی تربیت کا حق ادا کیا تھا۔اخوان کے شان دار تربیتی نظام پر پوری کتاب سے شاید اتنی روشنی نہیں پڑ سکتی جتنی صرف اس ایک واقعے سے سامنے آتی ہے۔منظر اور ماحول پر چھائے ہوئے غم کے طویل سایوں کے درمیان اپنے شہید باپ کی روح کو خطاب کرکے اس بچی نے کہا: باباجان! آپ کے جنازے کے ساتھ لوگوں کا ہجوم نہیں ہے۔زمین والوں کو روک دیاگیا ہے مگر آسمان والوں کو کون روک سکتا ہے۔آپ کے جنازے کے ساتھ شہدا کی روحوں کا قافلہ چلا آ رہا ہے۔ آپ اطمینان کے ساتھ اپنے رب اعلیٰ کے پاس جائیے، آپ نے جو پیغام ہمیں دیا ہے،وہ زندہ رہے گا، جوجھنڈا ہمیں تھمایا، وہ سربلند رہے گا۔ (ایضاً، ص: 543)۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved