وزارتِ خزانہ نے الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کے لیے اضافی گرانٹ دینے سے معذرت کر لی ہے۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ معاشی صورتحال بہتر ہونے تک اس مطالبے کو مؤخر کیا جائے کیونکہ عام انتخابات کے اخراجات 61 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو 5 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں جبکہ 10 ارب روپے کے اجرا پر کام جاری ہے۔ دوسری جانب وزارتِ داخلہ کہتی ہے اس کے پاس ملک میں عام انتخابات کیلئے ہزاروں پولنگ سٹیشنوں پر امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس اور فورسز کی مطلوبہ تعداد نہیں ہے‘ جسے الیکشن ڈیوٹیز پر تعینات کیا جا سکے۔ اس سے قبل کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس نے بیان دیا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو ہم ہر طرح کی صورتحال سے نمٹے کیلئے تیار ہیں اور پولیس فورسز امن و امان کی بحالی اور بہترین انتخابی ماحول کیلئے کسی کو مایوس نہیں کریں گی لیکن اس بیان کے سامنے آنے کے چند ہی دنوں بعد اسلام آباد سے حکم صادر ہوتا ہے اور ان کا تبادلہ کر کے ان کی جگہ کسی اور کو آئی جی تعینات کر دیا جاتا ہے۔اس وقت پنجاب میں امن و امان کی صورتحال قابلِ رشک نہ سہی‘ تسلی بخش ضرور ہے۔ سارے معمولات جاری ہیں‘ مارکیٹیں بلاخوف و خطر مقررہ وقت تک کھلی رہتی ہیں مگر جب الیکشن کی بات ہو تو سکیورٹی کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن کے اجلاس میں چیف سیکرٹری پنجاب پیش ہوئے اور صوبے میں ممکنہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اپنا تحریری جواب جمع کرایا۔اس جواب میں چیف سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ پنجاب میں امن و امان کی صورتِ حال ٹھیک نہیں ہے‘ اس لیے الیکشن کا انعقاد مشکل ہے۔ اس جواب میں چیف سیکرٹری نے صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کی تجویز بھی دی اور یہ بھی کہا کہ اگر الیکشن کرانے ہیں تو امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے 42 ارب روپے درکار ہوں گے۔محاورے کی زبان میں اس مطالبے پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا، نہ رادھا ناچے گی۔ الغرض پنجاب اور کے پی کے انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے سب سے بڑا عذر یہی سامنے آ رہا ہے کہ حکومت کے خزانے میں ''پیسے نہیں ہیں‘‘۔
جب بھی الیکشن کی بات ہوتی ہے تو پی ڈی ایم سرکار اس طرح بھاگتی ہے جیسے الیکشن اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہو۔ گویا عام انتخابات نہ ہوئے‘ کوئی طوفان ہو گیا جس کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے سب نے کانپنا شروع کر دیا ہے۔ وہ لوگ جن کا نعرہ ہی یہ تھا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اور جمہوریت ہماری سیاست ہے‘ ان کو بھی اب الیکشن سے الرجی ہو گئی ہے اور جیسے ہی الیکشن کی بات ہو تو سب مل کر اس کو ملتوری کرنے کے لیے ایسے ایسے بہانے تراشنے لگتے ہیں کہ سن کر ہنسی آتی ہے۔ کیا عجب دور ہے کہ وزیر قانون صاحب بجائے یہ کہ نوے دن میں الیکشن کرانے کی آئینی شق کی بالا دستی کی بات کریں‘ وہ مختلف حیلے بہانوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نوے دن تو ویسے ہی ایک ٹائم فریم ہے‘ اسے اپنی سہولت سے لامحدود مدت کے لیے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کو ایک ماہ ہونے کو ہے لیکن ابھی تک جنرل الیکشن کی تاریخ نہیں دی گئی۔ گویا الیکشن وہ زلزلہ بن چکا ہے‘ جس سے خدشہ ہے کہ موجودہ شاہی کروفر الٹ پلٹ جائے گا۔
سیاسی جماعتیں الیکشن کی پیداوار سمجھی جاتی ہیں اور ان کا وجود الیکشن ہی سے جڑا ہوتا ہے لیکن رجیم چینج کے بعد سے ملک میں الٹا دھارا بہہ رہا ہے۔ وہی جماعتیں جو عمران خان کے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں ہر روز قومی اسمبلی کے جواز کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اور حکومت کی جائزیت کو ماننے سے انکار کر کے الیکشن کا مطالبہ کرتی تھیں‘ اب الیکشن سے اس طرح بھاگ رہی ہیں جیسے الیکشن کوئی آئینی و قانونی مطالبہ نہیں بلکہ کسی عفریت کا نام ہو۔ اکثر حکومتی اتحاد کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلاشبہ آئین نوے دنوں میں جنرل الیکشن کرانے کا پابند کرتا ہے‘ اگر ہم اس کے لیے تیار ہو بھی جائیں تو مسئلہ یہ ہے کہ جو تیس‘ چالیس ارب روپے ان انتخابات کیلئے درکار ہیں‘ ان کی ادائیگی کیلئے خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے دیگر کئی عوامل کے علاوہ یہ بھی ایک مجبوری ہے کہ بگڑی ہوئی معاشی صورتحال کی وجہ سے اس خطیر رقم کا فوری طور پر بندوبست نہیں کیا جا سکتا۔ جب حکومتی ترجمان اور وزراء و مشیران کی فوج ظفر موج یہ عذر بیان کرتی ہے کہ خزانے میں اتنی رقم نہیں ہے کہ الیکشن کے اخراجات اٹھائے جا سکیں‘ اس وقت حکومت نجانے کیوں یہ بھول جاتی ہے کہ یہی خالی خزانہ تمام اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام سے 65 ارب روپے سے زائد ان کے حوالے کر چکا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ وہ راز ہے جو اس وقت ہر کسی کو پتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ٹیم سے مذاکرات میں ایک مطالبہ یہ بھی سامنے آیا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں 727 ارب روپے کا جو ترقیاتی بجٹ رکھا گیا تھا‘ پہلے چھ ماہ میں اس میں سے صرف 151 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں‘ باقی بجٹ کو فوری طور پر منجمد کیا جائے یا کم از کم مختلف وزارتوں کے اخراجات کم کرتے ہوئے 350 ارب روپے بچائے جائیں۔
ایک طرف خزانے میں پیسے نہ ہونے کا رونا رویا جا رہا ہے، دوسری جانب وفاقی کابینہ یعنی وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی کی تعداد 83 ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ ایک مشیر‘ وزیر پر ماہانہ دس سے پندرہ لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے۔ اگر پارلیمانی سیکرٹریز کی تعیناتیوں کا حساب لگایا جائے تو ان کی تعداد اس وقت 23 ہے۔ ہر ایک کو نئی گاڑی‘ ہر قسم کا سٹاف‘ ڈرائیور اور بے تحاشا مراعات مل رہی ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی مراعات ایک رکنِ قومی اسمبلی سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ سٹاف کی تنخواہیں اور سفر کے لیے ہوائی جہاز کی ٹکٹیں الگ۔ ستم ظریفی کہیے یا مضحکہ خیزی‘ اس کے باوجود وزارتِ خزانہ الیکشن کمیشن سے کہہ رہی ہے کہ اس کے پاس تو انتخابات کرانے کیلئے پیسے ہی نہیں ہیں۔ دوسری جانب دیکھیں صرف بیس دنوں میں پنجاب میں نگران حکومت گریڈ سترہ سے بائیس تک کے 954 افسران کے تقرر و تبادلے کر چکی ہے۔ اگر پی ڈی ایم سرکار کے پاس واقعی پیسے نہیں ہیں‘ خزانہ خالی ہے تو پھر 160 اسسٹنٹ کمشنرز، چالیس ڈپٹی کمشنرز، بیس کمشنرز، پچاس ایس ایس پیز، تیس ڈی پی اوز، پندرہ ڈی آئی جیز اور دس ایڈیشنل آئی جیز اور انسپکٹر جنرل پولیس کے تھوک کے حساب سے تبادلے کیوں کیے گئے ہیں؟ یہ کوئی گورکھ دھندا تو ہے نہیں‘ ہر کوئی جانتا ہے کہ جب بھی کسی سرکاری ملازم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ تعیناتی کی جاتی ہے تو ان افسران کو تبادلوں کے نتیجے میں ٹرانسفر گرانٹ ملتی ہے۔ اگر ایک عبوری سا حساب کیا جائے تو اب تک لگ بھگ پچاس کروڑ روپے کا نیا بوجھ پنجاب کے خزانے پر پڑ چکا ہے۔ الیکشن کیلئے پیسے نہیں ہیں تو یہ فنڈز کہاں سے آ رہے ہیں؟ اسی پر بس نہیں‘ ہمارے ملک میں رواج ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل ہونے والا ہر افسر اپنے نئے دفتر اور گھر کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کرتا ہے۔ اس پر ملک و قوم کا کروڑوں روپیہ الگ سے خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سے افسران اپنے خاص کارندوں کا بھی ساتھ ہی تبادلہ کراتے ہیں۔ اٹھارہ گریڈ سے زائد کے افسران کے خانساموں اور دوسرے بہت سے کاموں کیلئے درجہ چہارم کے ملازمین کے تبادلے بھی ہوتے ہیں۔ ان ذاتی ملازمین کے ٹرانسفر پر اٹھنے والے اخراجات بھی سرکار ہی کو برادشت کرنے ہوتے ہیں۔
یادش بخیر! جب عمران خان کابینہ کی تعداد پچاس پر پہنچی تھی تو موجودہ وفاقی حکومت کے ایک اہم وزیر نے پی ٹی آئی حکومت کے لتے لیتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا ''عمران خان کی کابینہ 50 سے تجاوز کر گئی ہے۔ قوم کے غم میں وزیر لگاتے ہیں ڈھٹائی کے ساتھ... رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ‘‘۔ اب یہ فقرہ جس پر چاہیں‘ اچھال دیں۔ گردشِ حالات کا کھیل بھی بہت عجیب ہے جو نت نئے منظر دکھاتا رہتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved