تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-02-2023

شیراں دے شیر یا کبوتر!

وقت امتحان لینے پر تُلا ہے اور ہم ہیں کہ امتحان دینے سے یکسر گریزاں ہیں۔ وقت کب امتحان نہیں لیتا؟ وقت کا تو کام ہی ہمیں آزماتے رہنا ہے۔ ہمیں یعنی انسانوں کو! حیوانات وقت کی قید اور دائرۂ کار و اختیار سے باہر ہیں۔ قدرت نے اُنہیں کوئی ذمہ داری سونپی ہی کہاں ہے کہ اُن سے حساب لیا جائے، آزمایا جائے۔ آزمائش کا معاملہ صرف انسان کا ہے‘ اور یہی انسان کے لیے ایک بڑا شرف بھی ہے۔ یہ کیا کم اعزاز کی بات ہے کہ کائنات کا خالق ہمیں آزمائے اور کامیابی کی صورت میں نوازے! ہم وقت کے کمرۂ امتحان میں ہیں۔ یہ دنیا کمرۂ امتحان ہی تو ہے۔ جب ہم کمرۂ امتحان میں ہیں تو پھر پرچہ دینے سے گریز کیوں؟ ایسے میں تو ہر پرچے کا نتیجہ صفر ہی آئے گا۔ یہ دنیا دارالمحن ہے، آزمائش کا مقام ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ہماری آزمائش ہوتی رہے گی۔ اس آزمائش ہی میں قدرت نے ہماری ابدی راحت کا سامان بھی رکھا ہے۔ جو لوگ امتحان سے بھاگتے ہیں، آزمائش سے کتراتے ہیں وہ جان ہی نہیں سکتے کہ قدرت کی طرف سے رکھی جانے والی کسی آزمائش سے کامیاب گزرنے میں کتنی دُنیوی راحت ہے اور کتنا اُخروی اَجر ہے۔ وہ اَجر تو ابدی ہے یعنی ختم ہونے کا نام ہی نہ لے گا۔
زندگی ہمیں کیوں آزمانا چاہتی ہے؟ کیا کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس معاملے میں وہ انوکھا ہے یعنی دنیا صرف اُسے آزما رہی ہے، زندگی صرف اُسی کو نشانہ بنائے ہوئے ہے؟ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ ایسا کرنا قدرت کی شانِ عدل کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرما دیا ہے کہ وہ کسی پر بھی اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا کرتا۔ اگر اللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل ہے تو پھر یہ سوچنا فضول ہے کہ آزمائش صرف ہمارے لیے ہے‘ دوسرے تو مزے کر رہے ہیں۔ اِس دنیا میں سبھی کو کسی نہ کسی صورت آزمائش کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ بعض صورتوں میں آزمائش مستقل نوعیت کی ہوتی ہے۔ انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ کبھی سکون کا سانس لینے کے قابل ہو بھی سکے گا یا نہیں۔ وقت چونکہ رکتا نہیں اس لیے ہم سے بھی وہ نہ رکنے کا تقاضا کرتا ہے۔ وقت کے گزرنے سے تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ تبدیلیاں ہمارے لیے ویک اَپ کال ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تبدیلیوں کی صورت میں ہمارے لیے جگانے والوں کا اہتمام کیا ہے۔ اگر ہم پوری دیانت اور سنجیدگی سے جائزہ لیں‘ سوچیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہر تبدیلی ہمیں کچھ نہ کچھ دے کر جاتی ہے۔ محض موافق نہیں بلکہ ناموافق تبدیلی بھی کچھ نہ کچھ دیتی ہے۔ اگر ہم ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جینا شروع کریں تو دیکھیں گے کہ ہمارے بیشتر کام وقت پر ہوتے جائیں گے اور جو سکون ہم چاہتے ہیں وہ بھی ملتا چلا جائے گا۔
بدلتے ہوئے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ رہنا سب کے لیے ممکن ہے مگر اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ لوگ محنت سے بھاگتے ہیں اور اپنے طور پر طے کرلیتے ہیں کہ فلاں کام تو ناممکن ہے جبکہ وہی کام دوسرے بخوبی کر رہے ہوتے ہیں۔ جو کام دوسرے کر رہے ہیں‘ وہ کام آپ بھی کرسکتے ہیں، کوئی اور بھی کرسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کچھ کرنے کا طے کیا ہے یا نہیں‘ محنت کرنے کی لگن سچی ہے یا نہیں۔ تبدیلیوں سے ڈرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ بادی النظر میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کا سامنا کرنا انتہائی دشوار ہے۔ ٹیکنالوجی کا بازار گرم ہے۔ نئی ٹیکنالوجی ہر شعبے کو بدلتی جارہی ہے۔ پیشے تبدیل ہو رہے ہیں۔ کیریئر کے حوالے سے ٹھوس فیصلہ کرنا اب انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ لوگ کسی کام کا ذہن بناتے ہیں مگر پھر ارادہ بدل لیتے ہیں کیونکہ تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیاں نئے چیلنجز پیدا کرچکی ہوتی ہیں۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کا بازار تو اب گرم ہی رہے گا۔ آج کی دنیا میں کام کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی تگ و دَو مستقل نوعیت کی ہے۔ یہ تگ و دَو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ دنیا بھر میں لوگ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اِسی سے تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ جو لوگ اس دوڑ میں شریک نہیں اُن کے لیے بالکل نچلے درجے کی زندگی رہ جاتی ہے۔ وہ محض گزارے کی سطح پر جیتے ہیں۔ ہر ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشرے میں آپ کو ایسے کروڑوں افراد ملیں گے جو محض گزارے کی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ وہاں گزارے کی سطح بھی ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کی گزارے کی سطح سے بہت بلند ہے۔ گزارے کی سطح پر جینے والے معاشرے کو کچھ نہیں دے سکتے۔ وہ تو اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ کیا تبدیلیوں کو روکا جاسکتا ہے؟ یہ سوال ہر دور میں اٹھا ہے۔ جب زندگی بہت سست رفتار تھی‘ تب بھی لوگ تبدیلی سے گھبرایا کرتے تھے اور جان چھڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ آج تبدیلیاں اِتنی تیزی سے رونما ہو رہی ہیں کہ معلومات کے حصول کے بہت سے ذرائع میسر ہونے پر بھی ہمیں بہت کچھ معلوم نہیں ہو پاتا۔ ہم بہت کچھ جان سکتے ہیں مگر سب کچھ تو بہرحال نہیں جان سکتے۔ اور سب کچھ جاننے کی کچھ خاص ضرورت بھی نہیں۔ ہاں‘ جو کچھ ہمارے لیے جاننا لازم ہے وہ تو جاننا ہی چاہیے۔
ٹیکنالوجی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہوتی ہے مگر یہ زندگی کو دشوار بھی بناتی جارہی ہے۔ دشواریاں اُن کے لیے ہیں جو اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ٹیکنالوجی نے لازم کردیا ہے کہ انسان مختلف حوالوں سے اپنی مہارت کا گراف بلند کرے۔ معاملہ یہ ہے کہ لوگ کبوتر کی روش پر گامزن ہیں۔ کسی بھی تبدیلی کو دیکھ کر اُس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے لوگ آنکھیں بند کرکے اُسے نظر انداز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کبوتر جب بلی کو دیکھتا ہے تو آنکھیں بند کرکے سمجھتا ہے کہ بلی چلی گئی۔ اس روش پر گامزن ہونے کا نتیجہ آپ جانتے ہیں۔ انسانوں کے معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والے انسانوں کو تبدیلی کی بلی کھا جاتی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ بڑھکوں کی حد تک تو ''شیراں دے شیر‘‘ بنے پھرتے ہیں مگر جب وقت پڑتا ہے تو کبوتر (اور وہ بھی پَر کٹے) ثابت ہوتے ہیں! زندگی کا بنیادی ڈھانچا کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ بنیادی اصول وہی رہتے ہیں جو ہزاروں سال سے ہمارے ساتھ ہیں مگر اور بہت کچھ بدلتا رہتا ہے۔ بدلتے ہوئے ماحول سے ہم آہنگ رہنے کے لیے غیر معمولی سنجیدگی اور منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر ہم ڈھنگ سے جی ہی نہیں سکتے۔ جو لوگ اپنے آپ کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے اُن کا انجام بھی ہم نے دیکھا ہے۔ پورے کے پورے معاشرے تبدیلی کو گلے نہ لگانے پر تباہ ہو جاتے ہیں۔ وقت اس معاملے میں سفاک اور بے رحم ہے۔ اُس سے رحم کی توقع نہ رکھیے۔ وہ اپنے حصے کا کام کرتا رہے گا۔ آپ کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے بلکہ مسلسل کرتے رہنا ہے۔
اگر پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو وقت کو بلی سمجھنا ہوگا اور اپنے آپ کو کبوتر سمجھنے کے بجائے اِس بلی کا سامنا کرنے کی ذہنیت پیدا کرنا ہو گی۔ ہر تبدیلی آپ سے رِسپانس چاہتی ہے۔ رِسپانس آپ کو دینا ہی ہوگا۔ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔ اگر کوئی بل ادا نہ کیا جائے تو سرچارج لگتا ہے۔ بعض ادارے اپنے بل برسوں وصول نہیں کرتے مگر سرچارج تو لگتا رہتا ہے۔ پھر جب ایک ساتھ ادائیگی کرنا پڑتی ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ بلز کو نظر انداز کرتے رہنا کس درجے غلط تھا۔ تبدیلیوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے سے بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک ساتھ اچھا خاصا بھگتان کرنا پڑتا ہے۔ بدلتے ہوئے ماحول کے ساتھ جینا سیکھئے۔ یہ فن خود بخود نہیں آجاتا، سیکھنا پڑتا ہے۔ یہی وہ ہنر ہے جو آپ کو آگے لے جائے گا۔ اگر آپ نے محض بڑھکیں مارنے کو ترجیح دی، خود کو شیراں دے شیر قرار دینے کی ضد نہ چھوڑی اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے سکون کی سانس لینے کی روش پر گامزن رہے تو کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved