تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     15-02-2023

مانچسٹر‘ بارش اور پروفیسر راج

یہ فروری کا مہینہ ہے اور میں کراچی کے ایک ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا گلاس وال سے باہر کا منظر دیکھ رہا ہوں۔ پانچویں منزل سے سوئمنگ پول کا منظر صاف نظر آرہا ہے۔ صبح کے آٹھ بج رہے ہیں اور سوئمنگ پول کے اردگرد کرسیاں خالی پڑی ہیں۔ ذرا پرے اونچے لمبے پام کے درخت ہیں جو کراچی کی پہچان ہیں۔ سردیوں کی نرم دھوپ بھی بہت قیمتی ہوتی ہے مگر ہر قیمتی چیز کی طرح نایاب اور جلد ختم ہو جانے والی۔ میں کھڑکی کے قریب کرسی پر بیٹھا شیشے سے چھن چھن کر آنے والی دھوپ میں کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں تب مجھے خیال آتا ہے کہ مانچسٹر یونیورسٹی کے جس ہاسٹل میں مجھے کمرہ ملا تھا اس کی کھڑکی سے پردہ ہٹا کر میں آکسفورڈ روڈ پر بارش میں بھیگتے راہ گیروں کو دیکھتا رہتا۔ وہ بھی کیا دن تھے‘ میں برٹش کونسل کے سکالرشپ پر مانچسٹر یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب انٹرنیٹ ابھی عام نہیں ہوا تھا اور موبائل فونز کے خواب کو ابھی تعبیر نہیں ملی تھی۔ مانچسٹر کا موسم اداس کر دینے والا تھا‘ تقریباً ہر روز کبھی ہلکی اور کبھی تیز بارش ہوتی‘ تب ایک دن اچانک میری پروفیسرراج سے ملاقات ہوئی۔ کہتے ہیں زندگی بھی اتفاقات کا مجموعہ ہے کبھی کبھار بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے ہماری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہو جاتی ہے جو ہماری زندگی کا رُخ بدل دیتا ہے اور ہم پر امکانات کے نئے دریچے کھول دیتا ہے۔ راج بھی ایسا ہی تھا۔ وہ یونیورسٹی آف مانچسٹر میں سوشیالوجی پڑھاتا تھا۔ میری اس سے پہلی ملاقات ایک سیمینار میں ہوئی تھی۔ ہماری عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ اس روز سیمینار میں راج کی گفتگو سننا میری زندگی کا بہترین تجربہ تھا۔ وہ سوشل تھیوری کا گُرو تھا۔ مجھے بھی سوشل تھیوری سے دلچسپی ہے۔ یوں سوشل تھیوری کی محبت نے ہمیں دوستی کے بندھن میں باندھ دیا۔ اس کا تعلق ساؤتھ انڈیا سے تھا لیکن اب وہ مانچسٹر کا ہی ہو کر رہ گیا تھا۔ چھٹی والے دن ہم یونیورسٹی کے قریب Whitworkپارک میں واک کے لیے جاتے۔ واک سے زیادہ دلچسپی مجھے راج کی گفتگو میں ہوتی۔ اکثر سوچتا ہوں راج سے ہونے والی ان گنت ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو پرتو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ راج جیسا کثیر المطالعہ شخص میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ ادب‘ سیاست‘ معاشرت‘ معیشت‘ فلسفہ‘ مذہب غرض کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس کے بارے میں اس سے گفتگو نہ ہو سکے۔ راج سکارز ڈیل کے علاقے میں واقع اس ایک چھوٹے سے مکان میں اکیلا رہتا تھا۔ چھٹی والے دن میں اس کے گھر جاتا تو کافی کی مہک میرا استقبال کرتی۔ سچی بات تویہ ہے کہ سیاہ کافی کی لت مجھے وہیں سے پڑی۔
راج کا یہ چھوٹا سا گھر سب کے لیے کھلا تھا۔ یہیں میری ملاقات بہت سے ایسے کرداروں سے ہوئی جنہیں میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ ان میں اس کے دوست بھی تھے اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے وہ سٹوڈنٹس بھی جو اپنے ملکوں سے دور یونیورسٹی آف مانچسٹر میں پڑھنے آئے تھے اور راج کی شکل میں انہیں ایک ایسا پروفیسر ملا تھا جس سے وہ تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کا ہر مسئلہ ڈسکس کر سکتے تھے۔
وہ اتوار کا دن تھا۔ رات میں دیر تک ایک اسائنمنٹ پر کام کرتا رہاتھا اس لیے دیر سے آنکھ کھلی۔ واش روم جا کر منہ ہاتھ دھویا۔ کافی کا کپ تیار کیا اور کمرے میں آکر کافی سے لطف اندوز ہونے لگا۔ میرے کمرے کی کھڑکی کے پردے ہٹے ہوئے تھے اور باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ میں سوچنے لگا‘اگر ایسی ہی بارش میرے شہر راولپنڈی میں ہو رہی ہو تو؟میں نے چشمِ تصور میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے صحن میں امرود کا درخت تیز ہوا میں جھول رہا ہے اور ماں جلدی جلدی صحن میں چیزوں کو سمیٹ رہی ہے۔ اس روز مانچسٹر کے ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھے بیٹھے مجھے شدت سے ماں کی یاد آئی۔ میں نے سوچا ماں کو خط لکھنا چاہیے۔ کافی کا کپ ختم ہوتے ہوتے میں نے ماں کو خط میں یہاں کا تفصیلی احوال لکھا۔ خط لکھ کر میں نے سوچا کیوں نہ ابھی قریبی پوسٹ آفس سے خط پوسٹ کر دوں۔ میں نے لانگ شُوز پہنے اور اوور کوٹ اٹھایا اور کمرے کو لاک کر کے پانچویں منزل سے elevator کے ذریعے گراؤنڈ فلور پر واقع ریسیپشن ڈیسک پر آگیا۔ ریسیپشنپر آج مائیکل کی ڈیوٹی تھی۔ مائیکل ایک خوش مزاج شخص تھا۔ ہاسٹل سے باہر جاتے ہوئے ہم کمرے کی چابی ریسیپشن پر چھوڑ جاتے۔ ریسیپشن کی دیوار پر ہر کمرے کا نمبر لکھا تھا اور اس کے ساتھ ایک چابی کے لیے ایک ہُک بنی تھی۔مائیکل مجھ سے چابی لے کر جب ہُک میں لگانے لگا تو میں نے دیکھا ہُک میں ایک تہہ شدہ کاغذ ہے۔ مائیکل نے تہہ شدہ کاغذ کو کھول کر مجھے بتایا کہ تمہارے لیے کسی پروفیسر راج کا فون تھا‘کاغذ پر راج کا نام اور ٹیلیفون کا وقت لکھا تھا‘ صبح آٹھ بجے۔ساتھ ہی ایک سطری پیغام تھاکہ میں اسے گھر پر ملوں۔ میں نے مائیکل کا شکریہ ادا کیا اور ہاسٹل سے باہر نکل آیا۔آکسفورڈ روڈ پر ہلکی ہلکی پھوار جاری تھی میں نے ماں کے نام لکھا ہوا خط یونیورسٹی کیفے ٹیریا کے قریب پوسٹ باکس کے حوالے کیا اور پھر اپنی مانوس آکسفورڈ سٹریٹ پر چلنے لگا۔ اب میرے دائیں ہاتھ وِٹ ورتھ پارک تھا جہاں لوگ آجا رہے تھے اس پارک میں پروفیسر راج کے ہمراہ میں کئی بار آیا تھا اور پارک میں واک کرتے ہوئے مجھے راج سے کتنے ہی سوالوں کے جواب ملے تھے۔ اس کا مطالعہ حیرت انگیز طور پر وسیع تھا۔ وہ ہندی‘ سنسکرت‘ فارسی‘ اردو اور انگریزی لکھ‘ پڑھ اور بول سکتا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اردو کے معروف شاعروں کے بہت سے اشعار اسے زبانی یاد تھے۔ غالبؔ‘ اقبالؔ اور فیضؔ اس کے پسندیدہ شاعر تھے۔
مانچسٹر کے سرمئی آسمان سے ہلکی ہلکی پھوار اتر رہی تھی اور میں رش ہوم سٹریٹ کی طرف جا رہا تھا۔ سکارز ڈیل کا علاقہ یہاں سے قریب ہی تھا جہاں راج کا وہ چھوٹا سا گھر تھا جس میں راج اکیلا رہتا تھا لیکن شاید وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ہمراہ اس کی کتابوں کا ہجوم تھا۔کتابیں ہی اس کی دوست اور ہم راز تھیں۔ راج کی کہانی بھی عجیب تھی اس کہانی میں پاروتی کا بنیادی کردار تھا۔ راج پاروتی کو کبھی نہ پا سکا لیکن پاروتی اب بھی اس کی زندگی کا حصہ تھی۔ اب بھی پاروتی کی تصویر اس کمرے میں سائیڈ ٹیبل پر رکھی تھی۔ پاروتی‘ تصویر میں جس کی آنکھیں روشن تھیں جس کے کٹے ہوئے بال کندھوں تک لٹک رہے تھے اور جس کی پیشانی پر سیاہ رنگ کی ایک بندیا تھی اور جو راج سے ایک وعدہ کر کے بھول گئی تھی۔
میں اپنے خیالوں میں گُم سائڈ واک پر چلتا ہوا جا رہا تھا کہ اچانک احساس ہو اکہ میں راج کے گھر کے باہر کھڑا ہوں۔ میں نے دروازے پر دستک دی کچھ ہی دیر میں راج نے دروازہ کھولا۔کمرے میں ہمیشہ کی طرح کافی کی مہک بسی تھی۔اس نے کہا :میں ابھی تمہارے لیے کافی بناتا ہوں۔کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں بھاپ اڑاتی سیاہ کافی پی رہے تھے۔ راج نے کھڑکی کا پردہ ہٹا دیا تھا‘ باہر درخت ہوا کے زور پر جھول رہے تھے۔ کیسا حسین موسم ہے؟ اس کے سانولے چہرے میں بڑی بڑی آنکھوں میں روشنی لو دینے لگی۔ پھروہ خود ہی کہنے لگا: کبھی تم نے غور کیا خوبصورتی کسے کہتے ہیں ؟ مجھے معلوم تھا اب راج خوبصورتی کے کچھ نئے در کھولنے والا ہے۔ میں اس کی گفتگو سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو گیا۔ راج نے کافی کا ایک لمبا گھونٹ پیا اور کچھ بولنے ہی والا تھا کہ ایک آواز نے ہمیں چونکا دیا۔ کوئی زور زور سے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔اس بارش میں کون ہو سکتاہے۔ راج سلیپر گھسیٹتا ہوا دروازے کی طرف جانے لگا۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved