سالِ رواں آئینِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کا سال ہے۔ ان پچاس برسوں میں آئین سے مسلسل انحراف کے ساتھ ساتھ نظریۂ ضرورت اور مجبوریوں کے ماروں نے آئین میں ترامیم کے اتنے پیوند لگا ڈالے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے آئین تو اب محض ایک دستاویز بن کر رہ چکا ہے۔ ہر دور میں حاکمِ وقت کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ آئین اور قانون پر بھاری پڑتے چلے آئے ہیں۔ جہاں کے حکمران وژن کے بغیر الفاظ اور زبان کا بے دریغ استعمال کرتے ہوں‘ وہاں ادارے اپنی حد سے تجاوز اور ضابطوں سے بے نیاز ہو کر ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا ڈالتے ہیں۔ جہاں قانون کی حکمرانی کے بجائے حکمرانوں کا قانون نافذ العمل ہو‘ سرکاری وسائل کی بندر بانٹ اور اقتدار کا بٹوارا طرزِ حکومت ہو وہاں آئین محض کتابوں میں ہی ملتا ہے۔
صوبائی خود مختاری کے نام پر سیاست چمکانے والوں نے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی نقب لگا کر State Within State بنا ڈالی کہ ایک صوبے میں گزشتہ 15سال سے نان سٹاپ اپنا ہی سکہ چلائے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی راج دھانی میں وہی راجہ اور وہی مہا راجہ ہیں۔ ان کے پالتو جانور تک لگژری گاڑیوں میں راج دھانی کی سڑکوں پہ گھومتے اور بین الاقوامی معیار کی خوراک پر پلتے ہیں جبکہ ان کی رعایا کو آوارہ کتے راہ چلتے بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔ اکثر شہروں میں آوارہ کتوں کا وہ راج ہے کہ معصوم بچوں سے لے کر مرد و زن تک کوئی بھی محفوظ نہیں۔ بیشتر ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں‘ اگر کہیں دینی پڑ جائے تو اس طرح دیتے ہیں جیسے کسی کو زندگی بخش رہے ہیں۔ قحط اور سیلاب جیسی قدرتی آفات جہاں حکمرانوں اور سرکاری بابوؤں کے لیے نعمت اور مصیبت کے مارے عوام کے لیے ان کی ہمدردی بھی عذاب ہو‘ متاثرین کی بحالی کے لیے عطیہ میں آنے والی خوراک‘ کمبل اور دیگر اشیائے ضروریہ مستحقین تک پہنچانے کے بجائے آپس میں بانٹ لینے اور بیچ ڈالنے کو گورننس کا نام دیا جاتا ہو اور لا اینڈ آرڈر صرف صاحب کے آرڈر کا مرہونِ منت ہو‘ وہاں 18ویں ترمیم کیا آئین کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ نہیں؟ اس ٹیکے کو حکمران ماتھے کا جھومر بنائے نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔ ضرورتوں کی دلالی اور پے در پے ترامیم نے آئین کا وہ حشر کر ڈالا ہے کہ ضیاء الحق سے لے کر آج تک سبھی حصہ بقدرِ جثہ اس روایت کو دوام بخشتے رہے ہیں۔
آئین کی چولیں ہلانے سے لے کر پیوندکاری تک‘ قانون اور ضابطوں کو مفادات کی چادر اُوڑھانے سے لے کر پالیسیوں کو موافق بنانے تک‘ ملکی خزانے کو کمال مہارت سے ذاتی تجوریوں اور ملکی و غیر ملکی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کرنے سے لے کر ثانوی کاروبار کو انڈے بچے دیتی ہوشربا کمپنیوں میں تبدیل کرنے تک‘ ہر دور میں حکمرانوں کو آئین اور قوانین کے ماہرین سے لے کر کاریگر سیاسی بابو ہمیشہ ہی دستیاب رہے ہیں۔ سہولت کاری کے عوض سسٹم میں اپنی اہمیت اور موجودگی کیساتھ ساتھ اپنا حصہ بھی برابر وصول کرتے رہے ہیں۔ آئینی ماہرین طولِ اقتدار اور استحکامِ اقتدار کے لیے کیسے کیسے جگاڑ اور جواز گھڑنے پر مامور رہے ہیں تو معاشی ماہرین بین الاقوامی ایجنڈوں کے ٹینڈر بھگتانے کے علاوہ حاکمِ وقت کی خواہشوں اور حسرتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی برابر سنوارتے رہے ہیں۔
اس طرح سرکاری بابو مفادِ عامہ کے منصوبوں سے حکمرانوں کے مفاد کے علاوہ اپنے مفادات کے پہاڑ بھی بناتے چلے آئے ہیں۔ ہر دور میں سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلے ہی پائے گئے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پر میرٹ اور گورننس کے نام پر گزشتہ تقریباً ساڑھے چار برس میں جتنے تجربات کیے جا چکے ہیں‘ ان کے نتائج اور اثرات کے زندہ نمونے جابجا فیصلہ سازوں کے وژن اور قابلیت کا منہ چڑا رہے ہیں۔
سیاست دان تو مجبور ٹھہرے! وہ برسرِ اقتدار ہوتے ہوئے بھی اپنی مصلحتوں کے آگے بے بس ہو کر ضرورتوں کی سودا گری پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انتظامی تبادلوں کی بولیاں لگوانے کی بدعت کا کریڈٹ جہاں بزدار سرکار کو جاتا ہے وہاں اس کو دوام بخشنے والوں نے اپنے چند ماہ کے اقتدار میں بھی وہ ٹینڈر کھولے ہیں کہ مال بنانے کے بعض معاملات میں بزدار سرکار اناڑی اور معصوم لگنا شروع ہو گئی ہے۔ سابق پرنسپل سیکرٹری تختِ پنجاب کے ایسے کرتا دھرتا بنے ہوئے تھے کہ چیف سیکرٹری سے لے کر انتظامی سیکرٹریوں تک‘ ڈی سی سے لے کر پٹواریوں تک‘ اتھارٹیوں سے لے کر دیگر پیداوری عہدوں تک سبھی جگہ ایسے فعال تھے کہ کچھ نہ پوچھیں۔ بالخصوص چند اضلاع میں تو وہ خود کم و بیش وزیراعلیٰ ہی تھے۔ ان کی آنیوں جانیوں کے پروٹوکول پر انتظامی اور پولیس افسران کی دوڑیں لگ جایا کرتی تھیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سسٹم میں موجود ایسے افراد کن اعمال کی سزا ہیں؟ اس پر کمال یہ کہ انہیں پہلے سیکرٹری اسمبلی اور پھر وزیراعلیٰ کا پرنسپل سیکرٹری بنا کر گورننس اور میرٹ کے معانی ہی الٹا کر رکھ دیے ہیں۔ موصوف کو جب گریڈ 22 دیا گیا تو گریڈوں کے حصول میں عمر گزارنے والے وفاقِ پاکستان کی اعلیٰ ترین سروس کے حامل افسران کے سبھی پیشہ ورانہ ملکی و غیر ملکی ہائی ٹیک کورسز بھی بے مقصد اور بے معانی ہو کر رہ گئے۔
چلتے چلتے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے وہ چند سوال بھی چھوڑتا چلوں جن کا جواب مل جائے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا اختیار تو بہرحال حکومت کے پاس ہے کیونکہ مل کر کھیلنے والے بڑے سرکاری بابو جانتے بوجھتے بھی ایک دوسرے کے خلاف نہ کارروائی کرتے ہیں اور نہ ہی کمائی میں خلل ڈالتے ہیں۔ چند روز قبل لاہور میں منعقد ہونے والے فوڈ ایکسپو کا ماسٹر مائنڈ اور بینیفشری کون تھا؟ دکانداروں اور ریستوران مالکان سے بغیر رسید جبری ڈونیشن کس قانون کے تحت اکٹھی کی گئی؟ ٹیکنیکل سٹاف بڑی فوڈ کمپنیوں کو ڈرا دھمکا کر وصولیاں کس کی ایما پر کرتا رہا؟فوڈ ایکسپو سے اکٹھے ہونے والے کروڑ وں روپے من پسند ٹھیکیدار کے اکاؤنٹ میں ڈائریکٹ کیوں جمع کرائے جاتے رہے؟ فوڈ اتھارٹی کے سب سے بڑے ایونٹ میں قانون‘ ضابطے اور آڈٹ کے مراحل کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ اتھارٹی کے سربراہ کا برسوں پرانا ٹھیکیدار دوست ہر نئی پوسٹنگ میں ساتھ کیوں چلا آتا ہے؟اتنے بڑے ایونٹ میں پیپرا رولز کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟
ان سوالات پر جواب طلبی اور کارروائی کا اختیار حکومت پنجاب کی صوابدید ہے۔ فوڈ ایکسپو متاثرین کو پیسے تو واپس نہیں مل سکتے‘ کم از کم اتنا تو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ آئندہ کوئی اپنی خواہشات اور حسرتیں پوری کرنے کے لیے پہلے سے بدحال عوام کی یوں جیبیں نہ کاٹے۔ ان بابوؤں کی انجینئرڈ کرپشن کا کہیں تو اَنت ہونا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved