ایک خبر کے مطابق پشاور خودکش دھماکے کے معاملے پر کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دھڑوں میں آپسی جنگ چھڑ گئی ہے۔ اب تک کی جھڑپوں میں 4 اہم کمانڈروں سمیت 8 دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل 30 جنوری کو پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے پر شدت پسند گروہوں کے مابین ذمہ داری قبول کرنے کے معاملے پر بھی اختلاف سامنے آیا تھا۔ اس دھماکے کے فوری بعد ٹی ٹی پی کے ایک گروپ کی جانب سے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی گئی؛ تاہم افغان طالبان کی جانب سے اس کی مذمت کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ نے اس واقعے سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے ایک باقاعدہ بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ مساجد، جنازوں، عوامی مقامات اور بازاروں وغیرہ پر حملہ کرنا ٹی ٹی پی کے ''منشور‘‘ کے خلاف اور ایک قابلِ مواخذہ جرم ہے۔ بعض طبقات کی جانب سے اس بیان کو اُس شدید عوامی ردِعمل کا شاخسانہ بتایا گیا جو پشاور دھماکے کے بعد سامنے آیا تھا۔ پشاور دھماکے میں سو سے زائد افراد کی شہادتوں‘ بالخصوص نماز پڑھتے ہوئے مسلمانوں پر ہونے والے خودکش حملے نے پوری قوم کو اس بربریت و سفاکیت کے خلاف یک آواز کر دیا تھا۔ غالباً اسی لیے عوامی ہمدردی سمیٹنے کی خاطر کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے فوری طور پر دھماکے سے برأت کا اعلان کر دیا گیا حالانکہ اس سے قبل ایک گروپ اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر چکا تھا۔ بعض دفاعی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ ابتدا میں ذمہ داری قبول کرنا اور بعدازاں افغان طالبان کے ردِعمل کو دیکھتے ہوئے اس سے برأت کا اظہار کرنا کالعدم ٹی ٹی پی کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ماضی میں مساجد اور جنازوں سمیت متعدد عوامی مقامات پر ہوئے حملوں کو ٹی ٹی پی تسلیم کر چکی ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اس حملے کو تسلیم کرنے سے اسے افغانستان کی طالبان حکومت کی حمایت کھو جانے کا خدشہ ہو اور اسی بنیاد پر اس نے تردیدی بیان جاری کیا ہو۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کئی انفرادی گروہوں کا نام ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں متعدد شدت پسند اپنی شرائط پر ٹی ٹی پی کا حصہ بنے ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جن کے لیے پاکستان سمیت افغانستان کی زمین تنگ ہو گئی اور وہ اپنی بقا ایک بڑے دھڑے میں شامل ہونے میں دیکھ رہے ہیں‘ خاص طور پر ایسا گروپ جسے افغان حکومت کی سرپرستی یا کم از کم حمایت میسر ہو۔
اب تک ٹی ٹی پی متعدد بار اختلافات اور تقسیم کا شکار ہوچکی ہے۔ اس کی ابتدا وزیرستان سے ہوئی تھی جہاں کے طالبان نے سوات کے ملا فضل اللہ کو امیر قبول کرنے سے انکار کرکے مزاحمت دکھائی۔ پھر جب جب حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا‘ یہ اندرونی انتشار کا شکار نظر آئی۔ حکیم اللہ محسود کے ساتھی ہمیشہ سے مذاکراتی عمل کے مخالف رہے ہیں۔ اس گروپ کو فضل اللہ اور دوسرے اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی کی بھی کھلی حمایت حاصل رہی۔ اسی طرح ایک گروہ کی قیادت خان سیّد المعروف سجنا کے پاس رہی ہے۔ سجنا گروپ انفرادی طور پر بھی متعدد کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ چند سال قبل جب ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو لاہور میں ایک پبلک مقام پر خودکش حملہ ہوا‘ جس کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے تسلیم کی۔ آپس کے اختلافات کے باوجود ایک بات پر ان کا اتفاق نظر آتا ہے اور وہ ریاستِ پاکستان کو حالتِ جنگ میں رکھنا۔ لہٰذا ان کی چالوں اور دھوکے میں مت آئیں۔ ان کی تاریخ اس فریب کاری سے بھرپور ہے۔ دوسری جانب داعش کی جانب سے پشاور دھماکے کو خوب سراہا گیا ہے۔
ذرا سوچئے‘ پشاور میں خود کش حملہ کرتے ہوئے یا یہ حملہ کرانے کیلئے اپنے پیرو کاروں کو بھیجنے والوں نے ان افراد کو نشانہ بنایا جو مسجد میں‘ نماز پڑھتے ہوئے ''اﷲ اکبر‘‘ کی صدائیں بلند کر رہے تھے‘ جو نبی کریمﷺ کی نبوت کی گواہی دے رہے تھے‘ جو کلمۂ حق‘ لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کاا قرار کر رہے تھے۔ کیا کوئی مسلمان ایسی حالت میں کسی دوسرے مسلمان کی جان لینے کا سوچ سکتا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو مساجد کو‘ جنہیں اﷲتعالیٰ کا گھر کہا جاتا ہے‘ ویران دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس امر میں اب کوئی تردد باقی نہیں کہ خود کش حملے اسلامی تعلیمات کی رو سے نہ صرف ناجائز اور حرام ہیں بلکہ سنگین گناہوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ خود کش حملہ کرنے والا ،خود کش حملوں کی ترغیب دینے اور اس گناہِ عظیم کیلئے کسی بھی طریقے سے اکسانے اور سہولت فراہم کرنے والے قرآن پاک، حدیث شریف اور دینِ اسلام کی تعلیمات سے صریح کفر کاا رتکاب کرتے ہیں۔ خود کش حملوں کی حمایت کرنے والے اﷲ کے پسندیدہ دین کو دنیا بھر میں بدنام کر تے ہوئے اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ یہ سلامتی کے دین اور اس کی تعلیمات کا غلط تصور پیش کرنے کا گناہ کرتے ہیں ۔ خود کش حملے کرنے اور کرانے والے ذہن نشین کر لیں کہ ان کا یہ عمل انسانیت کا سب سے گرا ہوا مقام ہے۔ ان کے اس غیر اسلامی و غیر انسانی فعل کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو اقوامِ عالم کی نظروں میں بدنام کیاجائے تاکہ وہ لوگ جو قرآن پاک کی پاکیزہ تعلیمات کو پڑھنے اور رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد کثیر تعداد میں دینِ اسلام کی جانب مائل ہو رہے ہیں‘ انہیں اسلام سے متنفر اور بدگمان کر دیا جائے۔
سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم، مصرکے ممتازمحققین، قرآن اور حدیث کے اساتذہ، الازہر یونیورسٹی کے سکالرز اور اسلامی فلسفہ و فقہ کے مجتہدین کی اجماعی رائے ہے کہ اسلام میں خود کش حملوں یا یرغمال بنا کر بے گناہ لوگوں کو قتل کردینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس طرح مسلم ریاستوں کے خلاف محاذ کھولا گیا ہے،افواج اور سکیورٹی فورسز سمیت عوام پر حملے کیے جا رہے ہیں، جوانوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ اس کو دیکھتے ہوئے بغیر کسی شک و شبہ کے کہا جا سکتا ہے کہ بے گناہ مسلمانوں کی جان لینے والا ابدی جہنمی ہے۔ جو گروہ خود کش دھماکوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ بتدریج اجتماعی خود کشی کی جانب چل پڑتا ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ ''بدری صحابی حضرت سہلؓ بن حنیف فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے یہ فرماتے سنا کہ ادھر سے ایک جماعت نکلے گی‘ یہ لوگ قرآن پڑھیں گے مگر قرآنِ مجید ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: 6934) جو لوگ مسلم ممالک اور مسلمانوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں کیا وہ مسلمان کہلانے کے حق دار ہیں؟ یہ لوگ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ حدیث شریف میں واضح الفاظ میں مذکور ہے کہ ''حضرت علیؓ نے اپنے ساتھیوں کو اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ خوارج کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں‘‘۔ (سنن دارقطنی: 3209)۔ اپنے غلط نظریات اور ناجائز کاموں کو یہ شریعتِ اسلامیہ سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ نشانیاں ہیں جن کا حدیث شریف میں ذکر کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے سامنے کسی نے تذکرہ کیا کہ خوارج ہمیشہ قرآن کو بنیاد بناتے ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ وہ اس کے محکم پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے متشابہ کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ (ابن ابی شیبہ: 39056)
اگر یہ لوگ واقعی مسلمان ہیں اور اسلامی تعلیمات پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں تو تاجدارِ ختمِ نبوت حضرت محمد مصطفیﷺ اور خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اسلامی لشکروں کو دیے گئے احکامات کو سامنے رکھیں اور ان کے تناظر میں اپنے افعال و اعمال کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اور جو کچھ وہ کرنے کا سوچ رہے ہیں‘ کیا اس کی دینِ اسلام میں کوئی گنجائش موجود ہے؟ کوئی بھی لشکر روانہ کرنے سے پہلے جو ہدایات رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین کی جانب سے اسے دی جاتی تھیں‘ وہ یہ ہیں؛ خیانت نہ کرنا،جھوٹ نہ بولنا،بد عہدی نہ کرنا،بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،کسی ثمردار درخت کو نہ کاٹنا نہ جلانا،کھانے کی ضرورت کے سوا جانوروں کو ذبح نہ کرنا،جب کسی قوم پر سے گزرو تو اس کو نرمی سے اسلام کی طرف بلانا، جب کسی سے ملو اُس کے حفظ مراتب کا خیال رکھنا، ان لوگوں سے جنہوں نے دنیا وی تعلقات سے الگ ہوکر اپنے عبادت خانوں میں رہنا اختیار کر رکھا ہے‘ کوئی تعرض نہ کرنا،اُن تمام کاموں میں جن کے کرنے کا حکم رسول اللہﷺ نے دیاہے،نہ کمی کرنا نہ زیادتی۔ اسلامی لشکر کو جہاد پر روانہ کرنے سے قبل نبی کریمﷺ لشکر کے سپہ سالار کو سختی سے تاکید کرتے کہ کھیتوں، فصلوں اور درختوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانا ، بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنا، اور جو لوگ غیر مقابلین ہیں‘ یعنی تمہارے مقابلے پر جنگ میں نہیں اترے‘ ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنا۔ مکی دور میں رسول کریمﷺ پر کفارِ مکہ اور بنو قریش نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے تھے لیکن حضور نبی کریم ﷺ نے تمام جبر و استبداد کے جواب میں اور ہر تکلیف پر صبر و شکر کی تلقین فرمائی حتیٰ کہ حبشہ اور مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جانے کو ترجیح دیتے ہوئے مظلوم مسلمانوں کو اس کے بدلے میں جنت کے اعلیٰ مقامات کی بشارت دی کیونکہ صبر کا مطلب یہی ہوتاہے کہ آپ اپنے خیالات پر سختی سے ڈٹے رہیں اور اپنے موقف کو شائستگی کے ساتھ پیش کریں۔
اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ دشمن کے علاقوں میں درختوں اور فصلوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے لیکن یہ کیسے لوگ ہیں جو مساجد، سکولوں اور ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشتے؟ جو معصوم بچوں، بزرگوں اور خواتین کو بھی نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے۔ پارکس، بازار، ریل گاڑیوں، لاری اڈوں، مساجد، ہسپتالوں، سکولوں، مزاروں اور مارکیٹوں سمیت اہلِ کتاب کی عبادت گاہوں تک کو انہوں نے میدانِ جنگ بنائے رکھا۔ ہماری ا فواج، پولیس، ایف سی، رینجرز اورلیویز صحرائوں، میدانوں، سنگلاخ چٹانوں اور برف پوش پہاڑوں پر ملک کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی حفاظت کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ وطن کے اندر کسی بھی قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے والوں میں بھی یہ سرفہرست ہوتی ہیں۔ ان کے خلاف دہشت گردی کرنے والے کون ہو سکتے ہیں؟ وہ لوگ جو سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم اور جامعہ الازہر کے سکالر وں کے فتاویٰ کے بعد بھی معصوم اور اور بے گناہ لوگوں پر حملوں کی ترغیب دیتے ہیں‘ یقینا سخت ترین عذاب میں گرفتار ہوں گے اور جو لوگ ان کے حملوں میں شہید ہو جاتے ہیں‘ ان کے لیے بشارت ہے کہ ''حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ خوارج جسے شہید کریں اس کے لیے دس نور ہیں اور اسے شہدا کے نور سے دو نور زیادہ دیے جائیں گے‘‘۔ (ابن ابی شیبہ: 39065)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved