سماج میں بڑے لوگ موجود ہوں تو کوئی بحران بڑا نہیں ہوتا۔
خلیفۃ المسلمین سیدنا عمرؓ کا وقتِ رخصت قریب آیا تو انہیں ریاست کے استحکام کی فکر ہوئی۔ حدیث اور تاریخ کی کتب میں بہت سی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ میں خلاصہ عرض کیے دیتا ہوں۔ حضرت عمرؓ کو خیال ہوا کہ چھ افراد ایسے ہیں جن کی حیثیت لیڈر کی ہے۔ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں اور مسلمان سماج میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ بھی‘ ان سے سب سے زیادہ خوش تھے۔ یہ چھ افرادتھے: سیدنا عثمانؓ، سیدنا علیؓ، سیدنا زبیرؓ، سیدنا طلحہؓ، سیدنا عبدالرحمن ابن عوفؓ اور سیدنا سعدؓ۔
امیرالمومنین کی تدفین کے بعد یہ حضرات جمع ہوئے۔ حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ سب سے بڑے تھے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر بعض بعض کے حق میں دست بردار ہو جائیں تو انتخاب سہل ہو جائے گا۔ حضرت زبیرؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓؓ اور حضرت سعدؓ حضرت عثمانؓ کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ اب انتخاب تین تک محدود ہوگیا۔ حضرت عبدالرحمنؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اگر تم مجھے مختار بنا دو تو میں اس کا انتخاب کروں گا جو تم میں افضل ہوگا۔ گویا انہوں نے اپنی دست برداری کا بھی اعلان کر دیا۔ دونوں نے ان سے اتفاق کر لیا۔
حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ تین دن لوگوں سے مشورہ کرتے رہے۔ انہوں نے ممکن حد تک کھوج لگایا کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ کہیں ایک سے‘ کبھی دو دو سے۔ کبھی اجتماع سے۔ کبھی گھر میں بیٹھی عورتوں سے۔ عبدالرحمٰن ابن عوفؓ نے سب طبقات سے مشاورت کی۔ تاریخ کی کتب بالخصوص 'البدایہ والنہایہ‘ میں اس کی تفصیل ہے کہ یہ تین دن انہوں نے دعا‘ استخارہ اور مشورے میں گزارے اور بہت کم سوئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا کہ اکثریت حضرت عثمان ؓ کو ترجیح دیتی ہے۔ یوں حضرت عثمانؓ کو امیرالمومنین منتخب کر لیا گیا۔
لوگوں نے سیدنا عمرؓ کو مشورہ دیا کہ اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو نامزد کر دیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے کبھی پسند نہیں کہ اقتدار کو اپنے خاندان ہی میں رکھوں۔ اگر اقتدار کوئی اچھی چیز ہے تو ہم نے اس کا مزہ چکھ لیا۔ اگر بری ہے توعمرؓ کے خاندان کے لیے یہی بہتر ہے کہ کل‘ جب خدا کے حضور میں پیشی ہو تو اس کے کسی ایک فرد کا حساب لیا جائے (طبری)۔
سیدنا عمرؓ کی دنیا سے رخصتی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ وہ امت کی مرکزیت کی علامت تھے۔ وہ جب دنیا سے جا رہے تھے تو جہاں ریاست کی سرحدیں وسیع ہو رہی تھیں‘ وہاں داخلی اور خارجی مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ نئے نئے لوگ اسلام کے دامن سے وابستہ ہو رہے تھے‘ جن کو اخلاقی تربیت کی ضرورت تھی۔ قبل از اسلام دور کی عصبیتیں ان کے ساتھ تھیں۔ اس طرح داخلی مسائل زیادہ اہم ہو گئے‘ جیسا کہ بعد کے واقعات سے ثابت بھی ہوا۔ اہلِ بصیرت جانتے تھے کہ ادھر حضرت عمرؓ کی آنکھ بند ہوئی تو اُدھر فتنے سر اٹھانے لگیں گے۔ خود حضرت عمرؓ کو بھی اس کا اچھی طرح اندازہ تھا۔ یوں انہوں نے ان کو روکنے کی پیش بندی کی اور ان کی شوریٰ نے بھی بھرپور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ فوری طور پر بحران پیدا نہیں ہونے دیا اور ایک بڑا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا۔
ہمیں درپیش بحران شاید اتنا بڑا نہیں تھا۔ ہمارے فکری افلاس‘ اخلاقی زوال اور بے عملی سے اب اتنا بڑا ہو چکا کہ اس کا کوئی حل ہماری گرفت میں نہیں رہا۔ معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ آئی ایم ایف واحد امید ہے کہ اس کے ساتھ معاہدے سے بحران کچھ مؤخر ہو جائے۔ صدر صاحب نے اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ آئین یہ کہتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نوے دن میں کرائے جائیں۔ گورنر ہاؤسز اور الیکشن کمیشن تذبذب کا شکار ہیں۔ تحریکِ انصاف انتخابات کے لیے بے چین ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مہنگائی کا وبال موجودہ حکومت کے سر رہے گا۔ عوام حکومت سے ناراض ہیں اور یوں وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی۔ حکومت کا خیال ہے کہ تحریکِ انصاف کے چار سالہ عہدِ حکمرانی کا ملبہ اس کی گردن پر لاد دیا گیا ہے۔ اسے اگر اس بوجھ کے ساتھ انتخابات کی دوڑ میں شریک ہونا پڑا تو اس کی جیت مشتبہ ہو جائے گی۔ یوں اس کی خواہش ہے کہ انتخابات کم ازکم اکتوبر تک مؤخر ہو جائیں۔
ہر کوئی اپنے اپنے حصار میں بند ہے۔ یوں بطور قوم ہم اس صلاحیت سے محروم ہیں جو ہمیں اس بحران سے نکال سکے جو بیک وقت آئینی ہے‘ معاشی ہے‘ سیاسی ہے اور انتظامی بھی۔ اس ہمہ جہتی بحران کا حل کسی ایک فریق کے پاس نہیں۔ کوئی ریاستی یا غیرریاستی ادارہ ایسا موجود نہیں جو متصادم مفادات رکھنے والوں کو ایک چھت تلے جمع کر سکے اور انہیں کسی ایک حل پر آمادہ کر سکے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے جس بصیرت اور اخلاص کی ضرورت ہے‘ ہم اس سے تہی دامن ہیں۔ آنکھیں ہیں مگر دیکھتی نہیں۔ کان ہیں مگر سنتے نہیں۔ دل ہیں مگر بے حس ہیں۔
حضرت عمرؓ اور حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ تو بڑے لوگ تھے۔ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا انتخاب تھے۔ چشمِ فلک ان جیسا اب کبھی نہ دیکھ پائے گی۔ ایسے صدف و گوہر جس آغوشِ تربیت میں ڈھلے ہیں‘ وہ اب ابن آدم کو کبھی نصیب نہیں ہو گی؛ تاہم ہمیں انہی سے روشنی لینی ہے۔ ہماری تیرگی کا علاج یہیں ہے۔ ان سے جتنی نسبت میسر آ جائے‘ ہماری زندگی اتنی ہی روشن ہو جائے گی۔ افسوس کہ ہم میں استفادے کی صلاحیت بھی نہیں رہی۔
ہمارا زوال اگر ہمہ جہت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جہاں سے کوئی امید وابستہ کی جا سکے۔ ہر شعبۂ زندگی کی باگ تیسرے یا اس سے بھی کم تر سطح کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ سطحیت کا غلبہ ہے۔ ضیا محی الدین رخصت ہوئے۔ ذہنی بے مائیگی کا یہ عالم ہے کہ ہم اس خلا کی وسعت کا درست اندازہ بھی نہیں لگا سکتے جو ایسی شخصیات کے اُٹھ جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے یہ جاننا لازم ہے کہ ایسے افراد سماج کی کیا خدمت سر انجام دیتے ہیں اور کیوں ان کا وجود‘ ایک قوم کے لیے کسی ایٹمی سیاستدان سے کم نہیں ہوتا۔ امجد اسلام امجدؔ جیسے لوگ صرف الفاظ کو کسی بندش کا پابند نہیں کرتے‘ وہ سماج کی تہذیب بھی کرتے ہیں۔
اب بات بہت آگے جا چکی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ابھی ہوا نہیں کہ مہنگائی کی ایک تکلیف دہ لہر اُٹھ گئی ہے۔ دوسری طرف اگر معاہدہ نہ کریں تو معیشت کا وجود ہی مشتبہ ہو جاتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ نوے دن میں انتخابات کرائیں۔ دوسری طرف فریقین اس کو اپنے اپنے مفادات کے ترازو میں تول رہے ہیں۔ پھر یہ کہ انتخابات کے بعد معیشت کیسے سدھر جائے گی‘ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ریاست کے اہم ترین مناصب سیاسی گروہوں کے مفاد کا تحفظ کر رہے ہیں۔ عوام اور ریاست دونوں پہلی ترجیح نہیں ہیں۔
یہ ہمہ جہتی بحران اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ یہ ہمارے سیاسی‘ ریاستی اور سماجی اداروں کی اجتماعی بصیرت کی حدود سے ماورا ہو چکا۔ مزید یہ کہ قیادت کی سطح پر اس اخلاص کا مظہر بھی دکھائی نہیں دیتا جو ایسے بحرانوں سے نکلنے کے لیے ناگزیر ہے۔ سیاست سے مکالمہ ختم ہو گیا۔ یوں اجتماعی بصیرت‘ جیسی بھی ہے‘ اس کے بروئے کار آنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ اس لیے دیکھئے اور انتظار کیجئے کہ قدرت نے ہمارے لیے کیا فیصلہ کر رکھا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved