رواں ہفتے ایک امریکی وفد پاکستان کا دورہ کرنے آرہا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس دورے کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان بگاڑ اور تناؤ کو کم کرنا ہے۔ اسے کوئی چونکا دینے والی تو نہیں؛ البتہ اہم پیش رفت ضرور قرار دے سکتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بطور وزیراعظم‘ عمران خان نے پاکستان کے عالمی برادری سے تعلقات کو کتنا نقصان پہنچایا۔ بات صرف امریکہ جیسی سپر پاور تک محدود نہیں تھی‘ جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اتار چڑھاؤکا شکار رہتے ہیں بلکہ خان صاحب نے چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے قابلِ اعتماد دوستوں کو بھی ایک ہی چھڑی سے ہانکنے کی کوشش کی‘ جس نے معاملات کو خراب کیا۔ عمران خان خود کو نہ تو سیاستدان سمجھتے ہیں اور نہ ہی مانتے ہیں‘ اس لیے وہ ایسے فیصلے کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں جن سے ملک کا نقصان ہونے کے امکانات موجود ہوں۔ امریکہ کا معاملہ دیکھ لیں‘ بات افغانستان سے امریکی انخلا کے دنوں میں شروع ہوئی جب عمران خان نے ایبسولوٹلی ناٹ کا نعرہ بلند کیا اور کہا کہ وہ امریکہ کو پاکستان میں اڈے نہیں دیں گے۔ اس پر امریکہ کی جانب سے وضاحت بھی آئی کہ ہم نے اڈے مانگے ہی نہیں۔ جب عمران خان کو اپنی حکومت جاتی نظر آئی تو انہوں نے ملک میں حقیقی آزادی تحریک شروع کردی جس میں انہوں نے کہا کہ کیونکہ انہوں نے امریکہ کو ایبسولوٹلی ناٹ کہا تھا اور یہ کہ امریکہ ان کے دورۂ روس سے ناراض ہے‘ اسی لیے امریکیوں نے سازش کے ذریعے ان کی حکومت ختم کروائی۔ عمران خان صاحب نے پھر ''ہم کوئی غلا م ہیں؟‘‘کا نعرہ بلند کرتے ہوئے امریکہ پر الزام دھرا کہ اس نے سیاستدانوں کو خرید کر ان کی حکومت گرائی اور یہ کہ ان سیاسی عناصر کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ خان صاحب امریکہ مخالف معاملات کو اس قدرآگے لے کر چلے گئے کہ ایف اے ٹی ایف اورآئی ا یم ایف جو امریکہ کے اشارے پر چلتے ہیں انہوں نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں جس نے کئی مشکلات کھڑی کر دیں۔
10ماہ تک امریکہ کے خلاف یہ تمام تحریک چلا کراینٹی امریکہ جذبات بھڑکا کر عمران خان صاحب نے بھرپور یوٹرن لے لیا ہے اور کہا ہے کہ نئی معلومات آئی ہیں کہ میری حکومت امریکہ نے نہیں بلکہ قمر جاوید باجوہ نے گرائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ مخالف مہم کے درمیان میں عمران خان نے اپنی حکومت گرانے کا ملبہ مقامی میر جعفروں اور میر صادقوں پر ڈالنا شروع کیا۔ باجوہ صاحب کے ملوث ہونے کے ملفوف اشارے بھی کئے لیکن پھر اس سے بھی یوٹرن لے لیا اور 22 نومبر 2022ء کو پھر کہا کہ مقتدرہ کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن سازش کامیاب ہونے سے باجوہ صاحب روک سکتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ خان صاحب نے سابق آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں چھ ماہ توسیع کرنے کا خیال بھی آگے بڑھا دیا‘ لیکن پھر انہوں نے توپوں کا رخ ایک بار پھر باجوہ صاحب کی جانب موڑ دیا اور امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے امریکی لابی فرم ہائر کی اور اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ انہوں نے امریکہ کو رجیم چینچ کے الزام سے بری الزمہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سازش امپورٹ نہیں بلکہ ایکسپورٹ ہوئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے اب ان سب الزامات کی بنیاد پر جو کمپین چلائی‘ایبسولو ٹلی ناٹ کہا‘ نفرت پھیلائی اور اتحادی حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہا‘تو کیاوہ اس پر اب معافی مانگیں گے؟اور کیاانہیں معافی نہیں مانگنی چاہئے؟ پاکستان کو اتنا ارزاں نہ سمجھیں کہ اپنی مقبولیت کے نشے میں آپ کچھ بھی کر جائیں اور کوئی اُف تک نہ کرے۔ قمر باجوہ صاحب کے ساتھ ان کے اختلافات ہوسکتے ہیں‘اگرچہ کبھی وہ دونوں یارِ غار بھی رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک انٹرویو میں باجوہ صاحب کو سپر کنگ کہا‘ تو اگر سابق وہ اتنے ہی با رسوخ اور طاقتور تھے تو پھرانہوں نے اُنہیں ایکسٹینشن کیوں دی؟ جب ان کی حکومت جا رہی تھی‘ اس وقت انہوں نے انہیں لائف ٹائم ایکسٹینشن کی آفر کیوں کی؟وہ قمر جاوید باجوہ صاحب کو رجیم چینج کا ذمہ د ار قرار دیتے رہے لیکن ان کا رجیم لائے بھی وہی تھے۔ پھر ان کی حکومت بھی انہی کی مدد سے چلی۔ کورونا ہو‘ ٹڈی دَل کا مسئلہ ہو‘ایف اے ٹی ایف ہو‘عرب ممالک اور آئی ایم ایف سے پیسے لانے کا معاملہ ہویااسمبلی میں نمبرز پورے کرنے کے وقت جب انہوں نے تعاون کیا تب باجوہ صاحب اچھے لگتے تھے‘ اب برے ہو گئے ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ اپنے ایک جلسے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگران کے مخالفین کوجنرل باجوہ اچھے نہیں لگتے تو اس کا مطلب انہوں نے درست بندے کا انتخاب کیا۔ عمران خان صاحب کو ذاتی سیاسی مفاد اور قومی مفاد میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ ان کے فالورز کو ان کے بیانیے کے تضاد سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان کے بیانات سے‘ ان کے عمل سے ملک اور ملک کے عوام ضرور متاثر ہوتے ہیں۔
دوسری طرف اب خان صاحب'' جیل بھرو تحریک‘‘ کی طرف جا رہے ہیں‘ تو اس تحریک کا بھی انہیں ویسے ہی نقصان ہوگا جیسا کہ اسمبلیاں توڑنے سے ہوا۔ انہوں نے پہلے استعفے دیے پھر استعفے واپس لینے کے لیے سپیکر کے پاس پہنچ گئے۔ان کے اس غیر سیاسی فیصلے کا نقصان یہ ہوا کہ وہ نگران وزیراعظم کے تقرر میں مشورے کی دوڑ سے بھی باہر ہوگئے۔ اب اگروہ گرفتاری دیں گے توان پر 34 مقدمے پہلے سے ہی قائم ہیں۔ان کو تو مخالفین پہلے ہی گرفتار کرنا چاہتے ہیں اور اگر اس جیل بھرو تحریک کے نتیجے میں گرفتارہوگئے تو جلد رہائی مشکل ہوجائے گا اور عین ممکن ہے نااہل بھی کردیے جائیں اور ایسے میں ان کی پارٹی کا کیا بنے گا؟شاید پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر انہیں الیکشن کی تاریخ چاہیے یا کوئی سیاسی مقصد ہے تو اس کے لیے تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ عدالتوں کا سہارا لیں اور قانونی و آئینی جنگ سے اپنے جائز مطالبات منوائیں۔ دوسری صورت میں آپ نے سڑکوں پر نکلنے کا شوق بھی پورا کرلیا‘ الزامات لگا کر بھی دیکھ لیے لیکن الیکشن کی تاریخ کی منزل دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ کھیل کو اصولوں کے مطابق کھیلیں تو بہتر ہے‘ کیونکہ غیر ذمہ دارانہ عمل سے سیاسی پراسس اور جمہوری راستوں میں طویل رکاوٹیں آسکتی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved