اکثر دل کرتا ہے کہ سیاسی سرکس کے کرتبوں اور شعبدہ بازیوں سے کہیں دور نکل کر کچھ ایسے موضوعات پر بات کی جا سکے جو پڑھنے والوں کو کسی اور دنیا میں لے جائیں۔ کبھی محفلِ یاراں کی بات ہو تو کبھی بزمِ ادب کی۔ کسی ادبی بیٹھک کا ذکر کریں یا کسی نئی تصنیف کا۔ ماضی کی کسی یاد کے تار چھیڑیں تو کبھی ان ادھورے خوابوں کا جو کبھی دیکھا کرتے تھے۔ کسی سے رابطے کا ذکر کریں تو کسی سے ملاقات کا‘ لیکن حالاتِ پریشاں نے اس قابل ہی کہاں چھوڑا ہے کہ بندہ کسی اور موضوع پر لکھنا بھی چاہے تو لکھ نہیں سکتا ہے۔ کئی بار سوچا کہ صرف عوام اور سماج کی بات کریں‘ رسم و رواج کی بات کریں تو کبھی اخلاقی اقدار کی بات کریں لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ شعر و سخن‘ طنز و مزاح جیسے موضوعات تو حسرت ہی بنتے چلے جا رہے ہیں۔ مجہولِ سیاست کا آسیب سبھی کو اس طرح نگلتا چلا جا رہا ہے کہ سبھی موضوعات مسلسل نظر انداز ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کی بات کس طرح کریں‘ سماج کی بات کیا کریں‘ حالاتِ بد کی دلدل میں دھنسے عوام کی حالت اب یہ ہے کہ یہ دلدل انہیں نگلنے کے درپے ہے۔ معاشی جبر سماجی اقدار کو اس طرح کھاتا چلا جا رہا ہے کہ کوئی جانے سے انکاری ہے تو کوئی بلانے سے گریزاں ہے۔ میل جول فاصلوں کی بھینٹ چڑ چکے ہیں۔ کہیں محفلیں اُجڑتی چلی جا رہی ہیں تو کہیں بیٹھکیں بند ہوتی جا رہی ہیں۔ دلوں پر حکومت کرنے والے بھی دلوں سے دور اور مجبور ہیں۔ قہقہے مصنوعی ہوتے چلے جارہے ہیں تو معانقے نمائشی۔ غرض سے لتھڑی ہوئی ملاقاتیں اور ضیافتیں مستقل کلچر بنتی چلی جارہی ہیں۔ آنے جانے اور ملنے ملانے کے لیے بھی وجوہات تلاش کرنا پڑتی ہیں۔ ہم کیا تھے اور کیا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شہروں کا مزاج اور دیہات کی روایات بدلتی چلی جا رہی ہیں۔ سادگی قصور بنتی چلی جا رہی ہے۔ مہمان داریاں‘ دلداریاں اور وضع داریاں بھی مشروط ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ایسے ناسٹلجک حالات میں برادرم شعیب بن عزیز کا ایک شعر اکثر بے اختیار یاد آتا ہے:
دلِ مرحوم یاد آتا ہے
کیسی رونق لگائے رکھتا تھا
نئے رجحانات پنجے گاڑ چکے ہیں‘ کوئی خود پرستی کے فریب میں مبتلا ہے تو کوئی خودنمائی کے جنون میں۔ کوئی پرہیزگاری کے تکبر میں اترائے پھرتا ہے تو کوئی عاجزی کے غرور میں۔ حج عمرے پر روانگی ہو یا شبِ برأت‘ معافیاں اور معذرتیں بھی انہی دوست احباب اور رشتہ داروں سے طلب کی جاتی ہیں جن سے راضی اور مسلسل رابطے میں ہوتے ہیں۔ سچ مچ کے ناراض اور روٹھے ہوئے رشتہ دار اور احباب سے تو رابطہ کرنے کی کوئی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔ دوستیاں حیثیت اور افادیت دیکھ کر لگائی جا رہی ہیں۔ بے لوث اور بے غرض جیسے الفاظ معنی کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ کھوکھلی باتیں‘ جھوٹے وعدے اور نیت کے بغیر ارادے الغرض معاشرہ کیا سے کیا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بھلا مشورہ دینے والا بھی اب بھلا نہیں لگتا۔ خوشامدیوں اور ضرورت مندوں کا دور دورہ ہے۔ کوئی جب تک ضرورت مند اور فائدہ مند ہے تب تک تعلقات اور میل ملاقات قائم اور جاری رہتے ہیں۔ ادھر کام ختم‘ اُدھر تعلق ختم۔ گویا سبھی رشتے اور تعلق بھی غرض کے رشتے بن کر رہ چکے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں رشتہ داروں کے بجائے وی آئی پی شخصیات کی آؤ بھگت اور ناز برداریاں بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہیں۔ اہم شخصیات کی غمی خوشی میں جانے کے لیے سبھی مصروفیات اور کام کاج ترک کر دیے جاتے ہیں۔ غرض میں لتھڑے ہوئے اس معاشرے میں سبھی غرض کے بندے بنتے چلے جا رہے ہیں۔
ضروریات کا دائرہ لا محدود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خواہشات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ پانے کی لگن ضد اور جنون کی حد تک چا پہنچی ہے۔ حسرتوں کا کوئی اَنت ہی نہیں۔ عزت گنوا کر کمانا گھاٹے کا سودا نہیں رہا۔ اتنا مال اکٹھا کر لو بھلے عزت کے لیے جگہ ہی نہ بچے۔ جائز ناجائز‘ حرام حلال سے بے نیاز بس دَھن کی دُھن سوار ہے۔ عوام کے حقوق کے لیے لڑنے والوں کی نسلیں سنورتی اور دن پھرتے چلے جا رہے ہیں۔ جوں جوں ان کے سیاسی رہنمائوں کے دن پھرتے گئے توں توں یہ عوام سے آنکھیں پھیرتے چلے گئے۔ عوام کی حالت سدھارنے اور خوشحال کرنے کی سبھی کوششیں بدحالی کا باعث کیوں ہیں؟ عوام روز بروز پستیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ سیاسی رہنمائوں کے عروج اور بلندیوں کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ مفادِ عامہ کے منصوبے ان کی کمائی کا بڑا ذریعہ بن جائیں تو عوام کی فلاح و بہبود کیونکر ممکن ہے۔ حادثات و سانحات جب حکمرانوں کے لیے نعمت اور دھندا بن جائیں تو وہاں آفات اور بلاؤں کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہر سال آنے والا سیلاب جیتی جاگتی بستیوں کو بے رحم لہروں میں بہالے جاتا ہے۔ ہستی بستی بستیاں لاشوں کا انبار بن جاتی ہیں لیکن یہ سبھی اس تباہی کو روکنے کے اسباب کرنے کے بجائے متاثرین کی بحالی کے لیے آنے والا مال اسباب اکٹھا کرنا زیادہ مقدم سمجھتے ہیں۔ اسی طرح زلزلہ زدگان کی بحالی کے چکر میں سفاکی اور بے حسی کی کیسی کیسی داستانیں منظر عام پر آنے کے باوجود بے شرمی اور ڈھٹائی جوں کی توں ہے۔
ثانوی سماجی و مالی حیثیت کے حامل سیاسی رہنما سیاست میں آنے کے بعد راجہ مہاراجہ بنے پھرتے ہیں۔ واجبی سا کاروبار چند برسوں میں اس طرح انڈے بچے دینے لگتا ہے کہ کمپنیاں‘ فیکٹریاں‘ کوٹھیاں‘ گاڑیاں اور بینک بیلنس کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح چند فلاحی تنظیمیں چلانے والے‘ عوام کے درد میں مرے جانے والے سیاستدان بھی پیچھے نہیں رہے۔ بے کس‘ لاچار اور دکھی انسانیت کے لیے صدقہ‘ زکوٰۃ‘ خیرات اور عطیات اکٹھے کرتے کرتے خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جن کے لیے یہ پیسہ اکٹھا کرتے ہیں‘ ان کی ساری زندگیاں ہی صدقات‘ عطیات اور خیرات پر ہی گزر جاتی ہیں۔
سائیکلوں سے جہازوں تک کا سفر برق رفتاری سے طے کرنے والے سبھی ضرورتمند ہیں۔ کوئی سیاست سے ضرورتیں پوری کر رہا ہے تو کوئی این جی او بنا کر دردِ دل رکھنے والے افراد کی درد مندی اور سخاوت کا فائدہ اٹھا کر اپنی ضرورتیں بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ کسی کو حکمرانی کا زعم ہے تو کسی کو سیاستدان ہونے کا۔ سبھی ضرورتوں کے مارے مینڈیٹ بیچ کر یا اعتماد اور اعتبار کا قتل کرکے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اپنی اپنی خواہشات اور حسرتیں پوری کیے چلے جارہے ہیں۔ جہاں سیاست اور فلاحی تنظیمیں دھندہ بن جائیں وہاں گورننس اور سوشل ورک کا یہی حشر نشر ہوتا ہے۔ اکثر سیاست کار این جی اوز بنا کر اپنی آفیشل پوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ این جی اوز والے سیاست سے منہ کا ذائقہ بدل کر سہولت کار اور تابعدار بن کر اپنے ٹارگٹ پورے کر رہے ہیں۔ کس کس کا رونا روئیں‘ کون کون سی دہائی دیں‘ معاشرے کے سبھی چہرے اس قدر بگڑتے چلے جا رہے ہیں کہ ان کی بدصورتی نے پوری سوسائٹی کو بدبودار کر ڈالا ہے۔ برناڈشا سے منسوب ایک فقرہ ہمارے کردار‘ افکار اور اعمال سے لے کر حالتِ زار تک سبھی کا ڈی این اے بن کر رہ گیا ہے۔ جو کچھ اس طرح ہے: اسلام دنیا کا بہترین مذہب اور مسلمان اس کے بد ترین پیروکار ہیں۔ اس کے بعد لکھنے لکھانے اور رونے پیٹنے کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی میرے پاس الفاظ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved