تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     18-02-2023

عظیم درس گاہ‘ عظیم استاد

علم اور اہلِ علم کی ناقدری کے اس زمانے میں جب استاد کی سچی قدر شناسی کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو دل جھوم اٹھتا ہے۔ تقریباً 158 برس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور 2002ء سے جی سی یونیورسٹی بن چکا ہے۔ ایشیا کے اس عظیم ادارے سے طالب علم اور استاد کی حیثیت سے علامہ اقبال‘ پروفیسر تھامس آرنلڈ اور پطرس بخاری جیسی ہندو پاک اور انگلستان کی نامور شخصیات وابستہ رہی ہیں‘تاہم گزشتہ ہفتے جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر علی زیدی نے دنیائے علم کی عظیم المرتبت شخصیت اور جی سی یونیورسٹی میں تیس برس سے خدمات انجام دینے والے پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کے علمی و ادبی اور تدریسی کارہائے نمایاں کا ایک پروقار تقریب میں اعتراف کیا اور انہیں دیگر اساتذہ کرام کیلئے ایک روشن مثال قرار دیا۔ ملک کی بڑی دانش گاہوں میں شاید استاد کی اتنی بھرپور پذیرائی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ جی سی کے وائس چانسلر صاحب نے حاضرین کو بتایا کہ اب یہ روایت جاری رہے گی۔اس موقع پر استادِ گرامی خورشید رضوی کا ایک دیرینہ شاگرد ہونے کی حیثیت سے مجھے اور اردو زبان و ادب کے ممتاز ادیب و شاعر اور پنجاب یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر زاہد منیر عامر کو بھی اظہارِ خیال کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے سامعین سے عرض کیا کہ اس طالب علم کو استادِ گرامی کی طرف سے لائف ٹائم شفقت‘ رفاقت اور مصاحبت حاصل ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی آج کے دور کی ایک عظیم علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ وہ ایک ایسے عبقری ہیں جن کی ذات میں کئی متنوع رنگ کمال و اتمام کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ عرفان و آگہی کی ا یسی قوس و قزح دیکھ کر اُن کا ہی مصرع یاد آتا ہے کہ
کیا چیز بسا دی گئی مٹی کے گھروں میں
ڈاکٹر خورشید رضوی عربی زبان و ادب کے استاد ہیں اور انہوں نے عربی ہی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ اردو اُن کی مادری زبان ہے تاہم اس زبان کے ادب کا بھی انہوں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے مطالعہ کیا ہے۔ فارسی سے انہیں عشق کی حد تک لگاؤ ہے۔ مولانا روم‘ شیخ سعدی‘ حافظ شیرازی‘ غالب اور اقبال کے کلام کے کئی حصے انہیں ازبر ہیں۔ وہ فارسی زبان کے مزاج‘ اس کے ادب کی لطافتوں اور باریکیوں کے گہرے رمز شناس ہیں۔ انگریزی زبان و ادب کا بھی وہ ایک عرصے تک عرق ریزی کیساتھ مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ پنجابی ادب پر وہ ٹھیٹھ پنجابی میں جب محفلِ دوستاں میں گفتگو کرتے ہیں تو بڑے بڑے پنجابی دان دانت تلے انگلی دبا لیتے ہیں۔اگرمیں یہ کہوں کہ ڈاکٹر خورشید رضوی آج اردو کے سینئر ترین شاعر ہیں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ اردو شعر و ادب کی وہ ایک شخصیت ہیں جنکے شعری و لسانی کمال کا اُن کے ہم عصر نہایت فراخدلی سے اعتراف کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے پانچ چھ شعری مجموعوں پر مشتمل اُن کی کلیات ''یکجا‘‘ دنیا بھر کے اردو داں طبقوں میں بہت مقبول ہوئی ہے۔ شاید کم لوگوں کو علم ہوگا کہ خورشید رضوی صاحب نہایت خوبصورت اور اثر انگیز نثر لکھتے ہیں۔ان کی نثر بھی ان کے شعر کی طرح قاری کے دل میں جا بستی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے ان کارناموں سے علمی و ادبی حلقے آگاہ ہیں کہ انہوں نے تقریباً بیس برس کی محنت ِشاقہ سے عربی ادب کے ایک عہد کی تاریخ اردو میں مرتب کی ہے۔ ''عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کے عنوان سے یہ تاریخ ساز کتاب اہل ِعلم و فضل سے داد پا رہی ہے۔ برسوں کی محنت سے تحریر کی گئی یہ کتاب ایک طرف تحقیق و جستجو کا شاہکار ہے تو دوسری طرف اس کا اسلوب ناول و افسانے سے زیادہ دلچسپ ہے۔ تحقیق اور شاعری بظاہر مختلف و متضاد میدان ہیں مگر استادِ محرم نے دونوں میدانوں میں نقطۂ عروج کو چھوا ہے۔ تحقیق ایک کڑے ڈسپلن کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ شاعری کے تقاضے مختلف ہیں۔ مرزا غالب نے شاعروں کی ترجمانی یوں کی ہے۔
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
خورشید رضوی صاحب کے کلام میں کلاسیکیت اور رومانویت کا سنجوگ دکھائی دیتا ہے۔ صرف دو اشعار ہی یہاں عرض کروں گا۔
آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حُسن
سیل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
میرے ذاتی علم میں ہے کہ استادِ گرامی کو ادبی نوعیت کے کئی بڑے مراتب و مناصب کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے مرتبۂ استاد کو دیگر تمام چکا چوند والے مراتب پر ترجیح دی۔ خورشید رضوی صاحب گاہے گاہے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی شرکت فرماتے ہیں مگر دو کام ایسے ہیں کہ جن میں مگن رہ کر انہیں روحانی و قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ایک محو ِمطالعہ رہنا اور دوسرے طلبہ کے جھرمٹ میں محوِ تدریس ہونا اگرچہ غالب نے کہا تھا کہ دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کرمگر استادِ محترم نہایت فیاضی کے ساتھ علم و عرفان کے خم کے خم لنڈھاتے رہے۔ اس فیاضی کے نتیجے میں راقم الحروف کو عربی زبان میں طہٰ حسین جیسا نہی تو ایک عام سا رائٹر تو بن جانا چاہیے تھا‘ مگر ہم عربی زبان و ادب میں مقام فضیلت حاصل کرنے کے بجائے کچھ اور کاموں کی طرف متوجہ رہے۔ البتہ ہمارے سینکڑوں پیر بھائی ایسے ہیں کہ جنہوں نے شعبۂ عربی میں نام پیدا کیا۔ معلم کون ہوتا ہے؟ معلم وہ ہوتا ہے جس کے قلب و نظر سوزو ساز آرزو اور تگ و تازِ حیات کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے منور ہوتے ہیں۔ وہ خود کسی مقصد کا دیوانہ ہوتا ہے اور ایسی ہی خوبصورت دیوانگی اپنے شاگردوں میں پیدا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے طریقِ تعلیم و تربیت کا مرکزی نقطہ عملِ خیر کا تسلسل ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے اُن کا کوئی شاگرد ایک بار کسبِ فیض کر لیتا ہے تو ہمیشہ کیلئے اُن کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر ؎
جن کے کردار سے آئی ہو صداقت کی مہک
اُن کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
ڈاکٹر زاہد منیرم عامر نے اس موقع پر کہا کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے اردو زبان کی یونیورسٹی تدریس سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دنیا کے مختلف ملکوں کی پندرہ جامعات میں شعبۂ تدریس سے وابستہ رہے مگر انہیں کہیں کوئی ڈاکٹر خورشید رضوی جیسا استاد نہیں ملا۔ خورشید رضوی زبان و ادب کی تدریس کیساتھ ساتھ طالب علم کو اس علمی و تہذیبی میراث سے آگاہ کرتے ہیں جو ہماری میراث ہے۔خطبۂ صدارت میں جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر اصغر علی زیدی نے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم عالمی معیار کی ایک ڈیجیٹل لائبریری قائم کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ''ارشد شریف سکول آف جرنلزم‘‘ قائم کیا جا رہا ہے۔اگرچہ عظیم درس گاہوں میں درس و تدریس ایک اعزاز سے کم نہیں مگر بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا وجود اس دانش گاہ کیلئے باعثِ اعزاز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں۔ڈاکٹر صاحب پہلے سرگودھا کے سرکاری کالجوں میں استاد اور پرنسپل کی حیثیت سے 18برس تک فرائض انجام دیتے رہے اس کے بعد جی سی یونیورسٹی لاہور میں گزشتہ 30برس سے پہلے ریگولر پروفیسر کے طور پر اور اب منتخب و ممتاز استاد کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ علم و آگہی کا یہ زمینی سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved