تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-02-2023

نئی نسل اور مستقبل

کسی بھی معاشرے میں نئی نسل ہی تمام امیدوں کا مرکز ہوا کرتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ جو کچھ بھی نیا کرنا ہے‘ نئی نسل کو کرنا ہے۔ جن کی زندگی گزر چکی ہے اُن کے پاس غیر معمولی تجربہ سہی مگر کام کرنے کی حقیقی لگن ناپید ہوتی ہے۔ وقت انسان کے ذہن کو بوجھل بھی کردیتا ہے۔ جو کچھ زندگی بھر دیکھا اور جھیلا ہو وہ ذہن سے مِٹتا نہیں۔ یوں انسان اندر ہی اندر الجھتا رہتا ہے۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی معمر افراد میں کام کرنے کی وہ لگن پیدا نہیں ہو پاتی جو نئی نسل میں ہوتی ہے۔ یہ سر بہ سر فطری معاملہ ہے۔ انسان فطرت سے لڑ نہیں سکتا۔ ہر زمینی حقیقت فطرت ہوتی ہے۔ اسے قبول کرتے ہوئے اس سے مطابقت پیدا کرکے ہی آگے بڑھنا ممکن ہو سکتا ہے۔
نئی نسل میں جوش و جذبے کی کمی نہیں ہوتی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ اس کی خواہشیں اور امنگیں کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ خواہشیں اور امنگیں انسان کو بہت کچھ دیتی ہیں۔ نئی نسل کیلئے یہ سب کچھ فطری ہوتا ہے۔ ہاں‘ موثر راہ نمائی میسر نہ ہو تو وہ کچھ زیادہ نہیں کر پاتی۔ نئی نسل کے پاس تجربے کی کمی ہوتی ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مرحلے سے موثر طور پر گزر کر اپنے آپ کو بہت سے کاموں کیلئے ذہنی طور پر تیار تو کر سکتی ہے مگر کچھ زیادہ اس لیے نہیں کر پاتی کہ تجربے کی کمی بہت سے معاملات میں کوئی مہم جویانہ قدم اٹھانے سے باز رکھتی ہے۔ تجربے کی کمی سے اعتماد میں بھی کمی واقع ہوتی ہے اور نئی نسل اپنے آپ کو بعض معاملات میں محدود سی محسوس کرتی ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں نئی نسل کو ذہن نشین رکھتے ہوئے منصوبہ سازی کرتی ہیں۔ نئی نسل کو بہتر مستقبل کیلئے تیار کرنا اولین ترجیحات میں شامل ہوا کرتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کیلئے نوجوان سرمایۂ امید ہوتے ہیں۔ ان کی بہتر تعلیم و تربیت اور عمدہ کارکردگی کی بدولت معاشرے بہت کچھ پاتے ہیں۔ ہر شعبے میں نئے خون کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ جب تک نیا خون نہ ملے‘ تب تک کچھ نیا نہیں ہو پاتا اور جو کچھ پہلے سے ہو رہا ہوتا ہے اسے بھی ڈھنگ سے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں ہو پاتا۔
ہر شعبہ وقفے وقفے سے نئے خون کی تلاش میں ہوتا ہے۔ کوئی بھی شعبہ اسی وقت ڈھنگ سے پنپ سکتا ہے‘ ترقی کر پاتا ہے جب اسے نئی نسل کی طرف سے فیڈ بیک ملتا رہے۔ نئی نسل جب کسی بھی شعبے میں قدم رکھتی ہے تو کچھ نیا کرنے کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر تھوڑی سی راہ نمائی کا اہتمام کیا جائے تو بات بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ مختلف شعبوں میں نئی نسل کو باقاعدگی سے شامل کیا جاتا رہے تو کام کی رفتار بڑھتی ہے‘ معیار بھی بلند ہوتا ہے اور امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بعض شعبوں میں نئی نسل زیادہ دلچسپی نہیں لیتی۔ پرکشش دکھائی دینے والے شعبوں کی طرف نئی نسل زیادہ تیزی سے لپکتی ہے۔ یہ بھی فطری معاملہ ہے۔ بعض شعبوں سے نوجوان اس لیے بھاگتے ہیں کہ ایک طرف تو محنت بہت ہوتی ہے اور دوسری طرف سختی بھی جھیلنا پڑتی ہے۔ کاٹھ کباڑ کے گودام میں کام کرکے کریئر شروع کرنے والوں کی تعداد برائے نام ہوتی ہے۔ عام نوجوان اس طرف نہیں جاتا۔ کسی کباڑی کے گودام میں اس کی اولاد ہی کام کرتی ہے یا پھر اس کی درجہ بندی میں جینے والے نوجوان۔ دفتر کی پرسکون نوکری کسے پسند نہیں ہوتی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ نئی نسل دفتری کام کاج کی طرف زیادہ متوجہ رہتی ہے۔ فیلڈ ورک سے راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے۔ جن شعبوں میں فیلڈ ورک زیادہ ہے‘ ان میں نوجوانوں کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ لوگ آتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ بعض شعبوں میں موسم کی سختی زیادہ جھیلنا پڑتی ہے۔ بڑے گوداموں میں کام کرنے والوں کو شدید سردی اور شدید گرمی میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ ایسے کاموں سے نوجوان دور بھاگتے ہیں۔ بعض کام ہوتے ہی اس نوعیت کے ہیں کہ موسم کی سختی سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ تندور پر روٹی لگانے والوں کو کس مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ ایسے کاموں کو بھلا کون کریئر بنانا چاہے گا؟ مشینی تندور بھی پائے جاتے ہیں جن میں کام کرتے وقت موسم کی سختی جھیلنا نہیں پڑتی مگر عمومی چلن تو روایتی تندور ہی کا ہے۔ لوگ مشینی تندور کی روٹی زیادہ پسند نہیں کرتے۔
خیر‘ بات یہ ہو رہی تھی کہ نئی نسل ایک طرف تو بہت کچھ کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف ایسے شعبوں میں کام کرنا پسند کرتی ہے جن میں سکون ہو‘ موسم کی سختی جھیلنا نہ پڑے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جن شعبوں میں محنت اور خطرات زیادہ ہیں‘ انہی میں یافت یعنی آمدن بھی زیادہ ہے۔ نئی نسل کو سمجھایا جانا چاہیے کہ اگر اسے کچھ کر دکھانا ہے تو آسانی تلاش کرنے کی عادت سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ جہاں آسانی ہوتی ہے وہاں زیادہ امکانات نہیں ہوتے۔ جن شعبوں میں کسی خاص ہنر کی ضرورت نہ ہو‘ ان میں افرادی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں آمدنی کا گراف بھی نیچے ہی رہتا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں نئی نسل کو ذہن نشین رکھ کر بہت کچھ سوچتی ہیں‘ ان کیلئے منصوبہ سازی کرتی ہیں۔ ہر شعبے میں اس بات کی گنجائش رکھی جاتی ہے کہ باصلاحیت نوجوانوں کو شامل کیا جاتا رہے۔ نیا خون ملنے سے شعبہ جوان رہتا ہے‘ کارکردگی میں تازگی رہتی ہے اور نئے آنے والوں کیلئے امکانات کی گنجائش نکلتی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں نئی نسل کے بہتر مستقبل کے حوالے سے کبھی نہیں سوچا گیا۔ بہت سے نوجوان اگر کچھ کر پاتے ہیں تو اپنی محنت اور دلچسپی کی بنیاد پر کر پاتے ہیں۔ نئی نسل کیلئے امکانات کا اہتمام کرنا اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وہی ایسے ادارے قائم کر سکتی ہے جن کے ذریعے نئی نسل کو زیادہ اور اچھا کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
آج کی دنیا چیلنجوں سے بھری ہوئی ہے۔ اگر کسی کو واقعی کچھ کر دکھانا ہے تو غیرمعمولی چیلنجوں سے نبرد آزما ہوئے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ نئی نسل پر غیرمعمولی دباؤ ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی ہے مگر جب اپنے سامنے کئی چیلنج پاتی ہے تو ہمت ہارنے لگتی ہے۔ اس مرحلے پر جہاں دیدہ افراد کو آگے بڑھ کر نئی نسل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے‘ اسے راہ دکھانی چاہیے۔ جو اپنی عمر گزار چکے ہیں اور اب گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں‘ انہیں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اب میڈیا کی مدد سے بہت کچھ بتایا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ معمر افراد اپنے تجربے سے نئی نسل کو بہرہ مند کریں‘ اس سے اچھی بات کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی صدقۂ جاریہ ہی ہے۔
بڑے کاروباری اداروں کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ نئی نسل راہ نمائی پائے‘ تربیت حاصل کرے اور یوں اُن کیلئے کریئر والی سوچ اپنانا آسان ہو جاتا ہے۔ بڑے کاروباری اداروں کو بھی تو نئے خون کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اگر وہ اپنی اصل کارکردگی کیساتھ ساتھ تربیت دینے کا اہتمام بھی کریں تو نئے خون کے حصول میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ باصلاحیت نوجوانوں کو منتخب کرکے تربیت سے آراستہ کرنے کے بعد ملازمت دی جا سکتی ہے۔ مستقبل کے دامن میں کسی کیلئے جو کچھ بھی ہے‘ اس کے بارے میں بالکل درست پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ نئی نسل کو اس حوالے سے غیرمعمولی راہ نمائی درکار ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ مستقبل کے حوالے سے سوچنے کا رجحان پایا ہی نہیں جاتا‘ اس لیے نئی نسل کو مستقبل کے حوالے سے سوچنے پر مائل کرنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس حوالے سے معقول حد تک سنجیدہ ہوا جائے۔ جو کچھ آج ہے وہ تو سمجھ میں آرہا ہے۔ جو کچھ آنے والا ہے‘ اس کی بھی تھوڑی بہت تفہیم کردی جائے تو نئی نسل کو بہتر تیاری کی تحریک مل سکتی ہے۔ یہ کام محنت طلب ہے‘ بہت مشکل ہے مگر خیر ناممکن تو کسی بھی اعتبار سے نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved