کراچی میں جس وقت پولیس آفس پر حملہ آور دہشت گردوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان معرکہ برپا تھا‘ پولیس اور رینجرز کے بہادر جوان سر ہتھیلیوں پر رکھے سفاک حملہ آوروں کا تعاقب کر رہے تھے‘ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سرگرم تھے‘ لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن سینے تان کر کھڑے تھے۔ پولیس کی گاڑیوں اور نفری میں اضافہ ہو رہا تھا‘ راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی تھیں‘ نہر کنارے چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔ عمران خان کی رہائش گاہ لاہور کے وسط میں واقع زمان پارک کی سب سے پہلی کوٹھی ہے۔ ان کے والد نے اسے تعمیر کرایا تھا لیکن عمران خان نے اسے نیا پیکر عطا کر دیا ہے۔ کشادہ اور بلند نئی عمارت اسی طرح سر اٹھائے کھڑی ہے جیسے اس کا مکین اپنے مخالفوں کے سامنے۔ پاکستان میں تبدیلی لانے کے جو وعدے خان صاحب نے کیے تھے‘ وہ پورے ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں‘ اپنے والد کی عطا کردہ کوٹھی کا نقشہ انہوں نے بدل ڈالا ہے جس نے پرانی تعمیر کو دیکھ رکھا ہے‘ وہ بھی نئی تعمیر کی داد یوں دینے پر مجبور ہے کہ آج کے مالک کی ضروریات یہ بخوبی پورا کر رہی ہے۔ عمران خان روزانہ ملک بھر سے آنے والے مداحوں سے ملتے ہیں۔ قاتلانہ حملہ کے بعد ان کی نقل و حرکت محدود ہونے کی وجہ سے یہاں کی رونقیں دوبالا‘ سہ بالا بلکہ کئی سو بالا ہو چکی ہیں۔ عمران خان نے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد شاید ہی اس میں اتنے دن مسلسل گزارے ہوں‘ جتنے اب گزارے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے معالجوں نے انہیں ان کی خواہش کے مطابق یہاں نظر بند کر رکھا ہے۔ وہ کم و بیش روزانہ ویڈیو لنک سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے حامیوں اور مخالفوں کو ''ٹاکنگ پوائنٹس‘‘ فراہم کر دیتے ہیں۔ ان کے حامی ان کے فقروں کو کسی بہت بڑے شاعر کے مصرعے سمجھ کر اٹھاتے ہیں اور ان پر حسبِ توفیق گرہیں لگاتے ہیں جبکہ مخالفین ان نقطوں کو بے نقط سنانے کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران کئی بار عمران خان کی گرفتاری کی خبریں گرم ہوئی ہیں اور ان کے پرجوش رہنما اور کارکن گھنٹوں یہاں پہرہ دیتے پائے گئے ہیں۔ کراچی میں جب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی‘ ٹیلی ویژن سکرینیں اس کے مناظر سے بھری ہوئی تھیں‘ کونوں‘کھدروں میں یہ ٹکر بھی چل رہے تھے کہ زمان پارک کے سامنے پولیس اور تحریک انصاف کے کارکن بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ خان صاحب کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست لاہور ہائی کورٹ سے مسترد ہونے کے بعد یہ خدشہ لاحق ہوا کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا یا یہ کہ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ ان کی یہ درخواست اس لیے مسترد ہوئی کہ وہ کئی مواقع ملنے کے باوجود عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو پائے۔ ان کے وکلا چاہتے تھے کہ ان کی غیر حاضری ہی میں انہیں (قبل از گرفتاری) ضمانت دے دی جائے‘ قانون اس کی اجازت نہیں دے پا رہا تھا۔ عدالت پولیس کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت دینے پر تیار تھی‘ ایمبولینس کے ذریعے عدالت کے احاطے میں آ جانے تک کو کافی سمجھا جا سکتا تھا لیکن خان صاحب کے وکلا نے اپنے موکل اور اپنے آپ کو الجھائے رکھا‘ یہاں تک کہ درخواست مسترد ہو گئی۔ رانا ثناء اللہ خان نے اپنی مونچھیلی مسکراہٹ کے ساتھ گرفتاری کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا‘ بس پھر کیا تھا‘ فواد چودھری‘ حماد اظہر‘ اسد عمر‘ اعجاز چودھری‘ مسرت جمشید چیمہ اور ان کے پُرزور شوہر جمشید چیمہ میدان میں نکل آئے۔ محترمہ یاسمین راشد بھی پیچھے نہ رہیں۔ گرفتاری کا خدشہ اس شدت سے ظاہر کیا گیا کہ دور نزدیک سے کارکن دوڑ پڑے‘ دیکھتے ہی دیکھتے نہر کا کنارا پُرہجوم جلسہ گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ پولیس کی درجنوں گاڑیاں بھی سڑکوں پر دوڑنے لگیں‘ یوں لگا زمان پارک کا محاصرہ کیا جا رہا ہے۔ دیکھنے اور سننے والوں کے دِل دھک دھک کرنے لگے‘ یاالٰہی خیر‘ تصادم نہ ہو جائے‘ خون نہ بہہ جائے‘ جانیں ضائع نہ ہو جائیں‘ رات کا بڑا حصہ فریقین ایک دوسرے کو ڈراتے اور تھکاتے رہے لیکن تجاوز کسی نے بھی نہ کیا۔ نعرے بلند ہوتے رہے‘ سائرن بجتے رہے لیکن بات آگے نہ بڑھی۔ فریقین اپنے اپنے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں کامیاب رہے۔ آخری خبریں آنے تک عمران خان اپنے گھر میں آزاد ہیں‘ پولیس کا جوش و خروش تھم چکا ہے۔ رہنمائوں اور کارکنوں نے بھی سکھ کا سانس لے لیا ہے۔ یہ جنگ بندی کب تک برقرار رہے گی‘ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عمران خان کی گرفتاری کا شوق کسی بھی دل میں کسی بھی وقت پیدا ہو سکتا ہے‘ ایسا ہوا تو پھر وہ بھی ہو سکتا ہے جو اس طرح کے مواقع پر ہوتا ہے۔ کارکن مشتعل ہو سکتے اور جذبات کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔
عمران خان اور وفاقی حکومت آمنے سامنے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی کس کو کیا نقصان پہنچائے گا‘ اس بارے میں ہر شخص کا اندازہ اپنا اپنا ہے۔ سامنے کی حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے رہنما ہیں اور ان کے حریف بھی سیاست کی دنیا کے باسی ہیں۔ اسی دشت کی سیاحی میں انہوں نے زندگیاں گزاری ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی دہشت گرد ہے‘ نہ ہی اس سے وہ سلوک ہونا چاہیے جو دہشت گردوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے اور ووٹ کی طاقت سے تبدیلی لانے والے دراصل ایک دوسرے کی طاقت ہیں‘ انہیں ایک دوسرے کو توانائی فراہم کرنی چاہیے۔ ہمارا دستور زیادہ ووٹ لینے والوں کو حکومت کرنے کا حق دیتا ہے جبکہ کم ووٹ لینے والوں کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر انتظار کی تلقین کرتا ہے۔ آج کی حکومت کل کی اپوزیشن اور آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہو سکتی ہے۔ اس لیے پاکستان کے عوام ان سب حضرات و خواتین سے جو ان پر حکومت کا شوق رکھتے ہیں‘ یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہ بنیں۔ سیاست کا کھیل کرکٹ کی طرح کھیلیں‘ تماشائیوں کو کھلاڑی اور کھلاڑیوں کو تماشائی نہ بنائیں وگرنہ سب تماشہ بن کر رہ جائیں گے۔ کھیل اور تماشے کا فرق کسی بھی راہ گیر سے معلوم کر لیجئے۔
عطا الحق قاسمی اور ان کی دلہن
فروری کے مہینے میں برادرِ عزیز عطا الحق قاسمی‘ ان کی اہلیہ‘ ہماری بھابھی روبی نے اس دنیا میں قدم رنجہ فرمایا تھا۔ اول الذکر نے یہ حرکت اسی برس پہلے کی جبکہ ثانی الذکر کو یہ موقع تین برس بعد ملا۔ اپنے والد کی 80ویں اور والدہ کی 77ویں سالگرہ منانے کے لیے عزیزان یاسر پیر زادہ‘ عمر قاسمی اور علی عثمان قاسمی نے مشترکہ عشائیے کا اہتمام کیا جس میں محبانِ قاسمی کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ دعوت نامے پر یہ دھمکی بھی درج تھی کہ ''تحفہ لانے والوں کو حوالۂ پولیس کر دیا جائے گا‘‘۔ سو دعائوں کے ساتھ پہنچے‘ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی بھی چپکے سے تشریف لے آئے۔ تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ کسی کو تقریر کی اجازت نہیں دی گئی۔ عطا نے اپنا ایک مضمون پڑھنے کی کوشش کی لیکن چند ہی جملے ادا کرنے کے بعد کاغذ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا۔ عطا نے نظریات بدلے ہیں‘ نہ دوست۔ ڈھیروں باتیں ہوئیں‘ دولہا‘ دلہن کی بلائیں لی جاتی رہیں۔ یہ عظیم الشان جوڑا لاہور ہی نہیں پورے پاکستان کی شان ہے اور جان بھی۔ اللہ سلامت رکھے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved