پچھلے دو ہفتوں سے امریکہ میں ہوں‘ یہاں مختلف شعبوں سے وابستہ افراد سے ملاقاتوں سے اندازہ ہوا کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے۔ جو دوست احباب برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور بظاہر اچھی آمدن ہے وہ بھی مہنگائی کی لہر سے پریشان دکھائی دیتے ہیں‘ حتیٰ کہ امریکی شہری جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں وہ بھی مہنگائی سے شکوہ کناں ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات اور غذائی اشیاکی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن یہ بات مشاہدے میں آئی کہ جوبائیڈن حکومت اپنے تئیں پوری کوشش کر رہی ہے کہ عوام کی قوتِ خرید کو سامنے رکھ کر بوجھ ڈالا جائے۔جن علاقوں میں ٹیکس وصولی کی شرح بلند ہے وہاں مراعات دینے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جہاں آمدن کم ہے وہاں ٹیکس کی شرح بھی کم رکھی گئی ہے‘ جہاں آمدن زیادہ ہے وہاں ٹیکس کی شرح زیادہ ہے۔ قوتِ خرید کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یعنی اگر مہنگائی کنٹرول نہ بھی ہو تو لوگوں کی آمدن اس قدر ہو کہ وہ حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ عوام کو مشکلات کا سامنا ضرور ہے مگر حکومت اور اپوزیشن سرجوڑ کر بیٹھی ہیں کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے جائیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں مسائل تو موجود ہیں مگر انہیں حل کرنے کی کوشش دکھائی نہیں دیتی ۔ روزگار کے مواقع محدود ہو رہے ہیں کیونکہ کاروبار ختم ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں پچھلے تین سے چار برسوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے‘ حکومت نعرہ لگاتی ہے کہ وہ مہنگائی کو کم کر دے گی مگر اس کے پاس بظاہر کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے ہوئے منی بجٹ کا اضافی بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال دیا ہے‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اوریہ قیمتیں ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہیں۔چونکہ پاکستان میں فی کس آمدن محدود ہے اس لئے عوام کی غالب اکثریت مہنگائی کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ہمارے ہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور فی کس آمدن میں اضافے کی کوشش نہیں کی گئی ‘ مگر صرف یہ نعرہ لگا دینا کہ مہنگائی کو کنٹرول کریں گے‘ کافی نہیں۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر نہیں ہیں۔سیاسی عدم استحکام سرچڑھ کر بول رہا ہے۔منی بجٹ پیش ہونے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اس اقدام پر تنقید تو کی مگر انہوں نے کوئی متبادل معاشی پلان نہیں دیا ۔ لگتا ہے ان کے پاس بھی کوئی معاشی پروگرام نہیں ۔ ان کا مطمح نظر محض یہ ہے کہ کسی طرح سے دوبارہ حکومت مل جائے۔ خان صاحب پر ہی کیا موقوف ہر پارٹی کی صورتحال اس سے مختلف نہیں ۔ اس کے برعکس اگر آپ بیرونی دنیا میں جمہوریتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حکومت سے زیادہ اپوزیشن کا ہوم ورک ہوتا ہے‘ کئی ممالک میں توشیڈو کابینہ کا ماڈل بھی موجود ہے۔ امریکہ میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ تنقید برائے تنقید کے بجائے مسئلے کی نوعیت‘ کی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ اس کا حل پیش کیا جاتا ہے۔اپوزیشن جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتی ہے تو اس کا متبادل پلان بھی پیش کرتی ہے۔اپوزیشن جماعتیں جب تک قومی مفاد کو سیاست پر ترجیح نہیں دیں گی تب تک ہم مسائل کی دلدل میں پھنسے رہیں گے۔
پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر حکومت اس چیلنج کا شکار رہی ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کریں یا ڈالر کو کنٹرول کریں؟ ہماری سوچ کا زاویہ اس ایک جگہ پر مرکوز رہا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کبھی یہ تکلف ہی نہیں کیا کہ نئے مواقع کی تلاش اور روزگار فراہم کر کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ نئے مواقع سے اسی صورت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اربابِ حل و عقد قدیم طرزِ حکمرانی سے بالا ہو کر سوچیں گے۔ دنیا تیزی سے متبادل ذرائع آمدن پر منتقل ہو رہی ہے‘ عرب ممالک کی زیادہ تر زمینیں صحرا پر مشتمل ہیں‘ پانی کے ذخائر محدود ہیں جس کی وجہ سے کاشتکاری کیلئے ان کی زمینیں موزوں نہیں ہیں‘ تاہم بارشوں میں اضافے کے بعد عرب ممالک نے سٹریٹجی تبدیل کی ہے‘ اپنی غذائی ضروریات کو مقامی سطح پر پورا کرنے کیلئے گندم اور دوسری فصلیں اگائی ہیں‘ اس کے برعکس پاکستان کی زمینیں نہایت زرخیز ہیں مگر ہم ان پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں۔ دور اندیشی کی کمی کے باعث زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں غذائی اجناس کی قلت کا سامنا ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اشرافیہ کے مفادات کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘ ملک کے معاشی حالات جیسے بھی ہوں اشرافیہ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان جیسے غریب ملک میں سو کے قریب کابینہ اراکین کی کیا ضرورت تھی؟ حکومت میں شامل ہر جماعت کو خوش کرنے کیلئے وزیر‘ مشیر اور معاون خصوصی کے عہدے بانٹ کر خزانے پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ کابینہ اراکین تنخواہ کے بغیر کام کریں گے‘ تسلیم کرتے ہیں کہ تنخواہ نہیں لیں گے لیکن اصل مسئلہ تو مراعات کا ہے جو کسی شمار میں نہیں آتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک امریکہ اور چین کی کابینہ کا حجم پاکستان کی کابینہ کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے‘ اصل بات کارکردگی اور شفافیت کی ہے اس طرف توجہ دینے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔
ملکِ عزیز کی صورتحال یہ ہے کہ انتخابات کا بِگل بج چکا ہے‘ چند ماہ بعد بہرصورت الیکشن ہونے ہیں‘ پی ڈی ایم کیلئے زیادہ عرصے تک الیکشن کو ملتوی کرنا آسان نہ ہو گا ۔ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ مہنگائی اور سکیورٹی کے چیلنجز کے ساتھ سیاسی جماعتیں الیکشن میں کیسے جائیں گی؟ کل شام کراچی میں پولیس آفس پر انتہاپسندوں نے خود کش حملہ کیا‘ اس سے قبل خودکش دستے کی مثال کم ملتی ہے‘ کراچی کا اہم علاقہ کئی گھنٹے تک میدان جنگ بنا رہا‘ پولیس اور انتہاپسندوں کے درمیان دوبدو لڑائی میں تمام انتہاپسند ہلاک ہو گئے جبکہ تین سکیورٹی اہلکاروں اور ایک عام شہری نے جام شہادت نوش کیا۔یہ واقعہ انتہائی تشویشناک ہے‘ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں خطرے کی علامت ہیں‘ ایسے حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہو سکے گا؟ اہلِ سیاست کو اسے سنجیدہ لینا ہو گا۔ تحریک انصاف اس وقت اپوزیشن جماعت ہے اسے عوام کی حقیقی آواز بننا چاہئے تھا مگر تحریک انصاف کی تمام تر توانائیاں اس پر صرف ہو رہی ہیں کہ خان صاحب کو ممکنہ گرفتاری سے کیسے بچایا جائے۔ پی ڈی ایم ملک میں ایک ساتھ الیکشن کی بات کر رہی ہے‘ اگر بالفرض ایسا ہوتا ہے یعنی الیکشن اکتوبر کے بعد پورے ملک میں ایک ساتھ ہوتے ہیں تو کیاتب تک چیلنجز ختم ہو جائیں گے؟ اصل امتحان عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کا ہو گا‘ سو ضروری ہے کہ ملکی مسائل کی خاطر باہم مل بیٹھیں۔ مہنگائی‘ سکیورٹی اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کا مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں‘ جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت ہو‘ یاد رکھیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو انتخابات کے بعد بھی سیاسی محاذ آرائی ختم نہ ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved