تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     19-02-2023

دلیر اور بدنما

''ان لوگوں کا اچھے سے علاج کرو۔ انہیں ایسا سبق سکھاؤ جو زندگی بھر نہ بھولیں۔ ایسا جکڑو کہ دوسرے ان کا حشر دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ طاقت کے ایوانوں میں مستعمل تزویراتی سوچ یہی ہے۔ صوبائی اسمبلیاں حزبِ اختلاف کے پاس جانے سے جابرانہ ہتھکنڈوں میں اضافہ غیرمتوقع نہیں۔ ملک پے درپے بحرانوں کی زد میں ہے۔ معیشت ڈوب رہی ہے‘ کاروبار بند ہو رہے ہیں‘ دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں‘ لاقانونیت کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ ملکی معیشت کی نائو ڈوب جانے کا خطرہ گمبھیر ہو چلا ہے‘‘۔ یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ اپنی جگہ سے سرک رہا ہے۔ ہر طرف مایوسی کی دھند چھائی ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ ناگفتنی ہونے والی ہے۔ تیرہ جماعتیں ایک ایسے سکرپٹ کا حصہ ہیں جو دنیا میں کئی مرتبہ دیکھا تو گیا لیکن شاید کبھی اس طرح کھل کر دوٹوک انداز میں سامنے نہیں آیا تھا۔
پاکستان کی کہانی جانی پہچانی بھی ہے اور انجانی بھی۔ جانی پہچانی اس لحاظ سے کہ یہ ملک اپنے تزویراتی اور جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے ہمیشہ سے بہت اہمیت کا حامل سمجھا گیا۔ انجانی اس لیے کہ اس حقیقت کے باوجود یہ کبھی بھی اہمیت حاصل نہ کر سکا۔ حکومتوں کی تبدیلی پریشان کن ہوتی ہے۔ کئی ممالک میں حکومتوں کی تبدیلیوں کا تسلسل بہت زیادہ ہے۔ برطانیہ میں ابھی حالیہ دنوں تین وزرائے اعظم کو منصب سنبھالتے اور گھر جاتے دیکھا گیا۔ اسی طرح جاپان بھی حکومتوں کی تبدیلی کا ایک مسلسل منظرنامہ پیش کر رہا ہے۔ ایسی تبدیلیاں یقینا عارضی افراتفری کا باعث بنتی ہیں‘ لیکن ان کی وجہ سے ملک نہیں بکھرتے۔ پاکستان کا نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ یہاں ایسی کسی تبدیلی سے کمزور نظام حکومت ہل کر رہ جاتا ہے ۔ بیرونی مداخلت کے علاوہ حکومت سازی میں غیر جمہوری قوتوں پر انحصار نے یہ یقین راسخ کر دیا ہے کہ پاکستان درحقیقت کبھی بھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوا۔ اس سوچ نے سیاسی اور معاشی افراتفری کو ایک معمول بنا دیا ہے۔ اس وقت قوم ایک لرزہ خیز صدمے سے دوچار ہے۔ اور اس کی وجہ حقیقت کا اس دل شکن طریقے سے بے نقاب ہونا ہے۔ اس کا آغاز جمہوریت اور ترقی کے نعروں سے ہوا اور اس نے جھوٹے بیانیے کی بدنما حقیقت کو بے نقاب کردیا۔ عوام تک پہنچنے والے سفاک تاثرات اسی طرح ہیں:
1: جمہوریت کے نام پر فردِ واحد منصب پر بیٹھ گیا: جمہوریت‘ آئین اور آزادی پر بہت کچھ کہا جا چکا۔ بایں ہمہ یہ حقیقت کہ پاکستان پر تو چند آمروں یا اُن کے خاندانوں نے حکومت کی‘ پوری کہانی نہیں ہے۔ اس ذیل میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک آمر فردِ واحد ہوتا ہے اور حکمران خاندان ایک خاندان ہوتا ہے لیکن یہ بھی مکمل کہانی نہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان خاندانوں نے ٹیکس دہندگان کے وسائل سمیٹ لیے لیکن پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہ کیا۔ اس لیے وہ الیکشن جیتنے کے لیے ابھی تک پولیٹکل انجینئرنگ کا
سہارا تلاش کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو کبھی کسی نے کھل کر الفاظ نہیں دیے تھے یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے عوامی طور پر کھل کر کہا کہ یہ ایک داغ دار جمہوریت ہے جس میں خاندان اور موروثی سیاست نے پاکستان کو کبھی ترقی نہیں کرنے دی۔ یہ ایک ایسے شخص کا عوامی سطح پر کیا گیا حیران کن اعتراف تھا جس نے تین دہائیوں سے موروثی خاندان کی خدمت کی ہے۔ پارٹی کے کچھ دوسرے اہم رہنمائوں کے اسی طرح کے بیانات اختلاف کی شروعات ہیں۔ اس اختلاف کا شاید ملکی ترقی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنی ترقی کا موقع نہ ملنے پر مایوسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ خاندان تک محدود جماعتیں غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے اقتدار میں آجاتی ہیں۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جانتے ہیں کہ ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے حکمران خاندان سے رابطہ ضروری ہے۔ اس رابطے کا مطلب بھاری معاوضے اور الیکشن کے بعد بننے والے منصوبوں اور
ہیرا پھیری میں حصہ داری بھی ہے۔ کارکردگی سے قطع نظر اس فارمولے نے اب تک کام دیا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ چودھویں جماعت کی حمایت کے باوجود تیرہ جماعتیں مکمل طور پرنااہل ثابت ہو چکی ہیں۔ مفتاح بمقابلہ ڈار کے جھگڑے نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی عملی صلاحیتیں کس کم تر درجے کی ہیں۔
2: دانش ور دراصل سہولت کار ہیں: دانش مند‘ تعلیم یافتہ‘ اچھا بولنے اور لکھنے والے‘ تجزیہ کار‘ پروفیسر‘ تھنک ٹینک کنسلٹنٹ جو اپنی عقل و دانش کی وجہ سے قابلِ احترام ہیں‘ کئی بار اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے 'جمہوریت کے لیے سب کچھ‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ برسوں تک وہ بیرونی مداخلت اور جمہوری حکومت کو کام نہ کرنے دینے کا الزام لگاتے رہے۔ موجودہ عدم اعتماد کے ووٹ نے ان دانشوروں کو بھی بے نقاب کردیا۔ ان کے تبصرے مبہم اور کھوکھلے ہیں۔ ان کے جمہوریت کے لیے نعرے جی حضوری کا لہجہ اپنا چکے۔ لیکن کیا کریں‘ نقاب ہٹتے جارہے ہیں۔ اس وقت جو تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس کا منطقی جواز وہ یہ دیتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو تحریک انصاف نے بھی اسی طرح جیل میں ڈالا تھا۔ خیر لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ مسلم لیگ (ن) پر مقدمات زیادہ تر پرانے میگا کرپشن سکینڈلز ہیں جو انہوں نے ایک دوسرے پر دائر کیے تھے جبکہ تحریک انصاف پر جو مقدمات ہیں‘ وہ بغاوت اور دہشت گردی کے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ فکری سہولت کار غیرملکی بھی ہیں اور مقامی بھی۔ غیرملکی دانشور یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس میں موجود ہیں۔ وہ بیانیہ تیار کرتے ہیں جو امریکہ پاکستان کے بارے میں فروغ دینا چاہتا ہے۔ تجزیہ کار اچانک کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں یا موٹیویشنل سپیکروں کی طرح ہوتے ہیں جن کی بڑی تعداد میں پیروکار ہوتے ہیں اور وہ اپنے سپانسرز کے مقامی بیانیے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان سب کے چہروں سے نقاب اترتے دیکھ کر لوگ صدمے کی کیفیت میں ہیں۔
3: چند برے افراد: یہ غلط فہمی بھی دم توڑ چکی کہ صرف چند ایک گندے انڈوں کو ملک سے نکال باہر پھینکنے کی ضرورت ہے۔ بالائی طبقے میں پیدا ہونے والی خرابی نیچے تک سرایت کر جاتی ہے۔ کئی دہائیوں سے پولیس سیاست زدہ رہی ہے۔ عمومی تاثر ہے کہ چوری‘ قتل یا قانون شکنی میں کسی نہ کسی طرح پولیس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم پر دن دیہاڑے ہونیوالے قاتلانہ حملے میں پولیس حکام نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے مبینہ طور پر ثبوت کو تباہ کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ اس قوم کو سب سے بڑا صدمہ یہ دیکھ کر پہنچا کہ ادارہ جاتی بدعنوانی کتنی گہری اور وسیع ہے۔ ہر ادارے میں‘ خواہ وہ کوئی بھی ادارہ ہو‘ کرپشن کا وائرس صرف چند گندے انڈوں تک محدود نہیں۔
4: دلیر‘ بہادر اور بے خوف: شاید سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات عوام کی ثابت قدمی اور بے خوفی ہے۔ عمران خان کی سرکشی نے عوام میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ منظر عام پر آنے اور مائنس عمران کے خبط کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد وہ مہینوں سے خان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ مظاہروں‘ ریلیوں سے لے کر انتخابات تک موت کی دھمکیاں‘ دہشت گردی کا خطرہ اور جابرانہ ہتھکنڈے انہیں مرعوب نہیں کر سکے۔ دو انتخابات میں ان جماعتوں کو شکست دینے کا ان کا پختہ عزم یہ جاننے کے باوجود کہ جن لوگوں کو وہ ووٹ دیتے ہیں‘ وہ اسمبلی میں ان کی نمائندگی نہیں کر سکتے‘ بہت واضح پیغام دے رہا ہے۔ ان کے ردِعمل نے پی ڈی ایم اور اس کے حامیوں کو چونکا دیا۔ فواد چوہدری کے خلاف تازہ ترین مقدمہ ہی دیکھ لیں۔ ان پر الیکشن کمیشن حکام کو دھمکانے کا الزام ہے۔ ایک ایسا بیان جو بھلا دیا جاتا اگر اسے گرفتاری کی بنیاد نہ بنایا جاتا۔ فواد کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد لاکھوں لوگوں نے الیکشن کمیشن کے لیے انہی جذبات کا اظہار کیا جس پر اب الیکشن کمیشن کو یقینا افسوس ہو رہا ہوگا۔
حکمرانوں نے جو سبق نہیں سیکھا‘ وہ یہ ہے کہ آپ جتنے سخت ہتھکنڈے اختیار کریں گے‘ لوگ اتنے ہی دلیر ہوتے جائیں گے۔ ایک باہمت شخص کو ناانصافی‘ عدم مساوات اور بے عزتی مہمیز دیتی ہے۔ حکومت بلاروک ٹوک یہ تینوں ہتھکنڈے اپنائے ہوئے ہے۔ جب آپ لوگوں کو لکیر سے آگے دھکیلتے ہیں اور وہ بھی ایسے واضح انداز میں‘ تو لوگ بھی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جان قربان کرنے کے لیے کمر بستہ ایک دلیر لیڈر کی موجودگی بدنما کو خائف اور کمزور لیکن جی دار افراد کو مزید دلیر بنا دیتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved