تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     19-02-2023

ایک فلم اور اردو زبان

حالات و واقعات اور گرد و پیش کا اثر کہا جائے یا پھر کچھ اور لیکن ایک بات طے ہے کہ ہمارے ارد گرد سب کچھ ٹی ٹونٹی کرکٹ کی طرز پر تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس ''سب کچھ‘‘ میں دنیا کو بحیثیت مجموعی لیا جائے‘ کسی ایک ملک کی سطح پر دیکھا جائے یا پھر کسی ایک مخصوص علاقے پر غور کیا جائے‘ سب بدلتا دکھائی دیتا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ واقعی بدل رہا ہے یا محض اس کے بدلنے کا واویلا مچایا جا رہا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ دکھائی کچھ اور دیتا ہے لیکن حقیقت میں ہو کچھ اور رہا ہوتا ہے۔ اب محض کچھ ہوتا دکھائی دینے اور اصل میں اس کے ہونے کے فرق کو واضح کرنے کے حوالے سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ہماری ترجیح کچھ اور ہوتی ہے لیکن شور کسی ثانوی بات پر مچایا جا رہا ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں جو موضوعات تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر ترجیحاً بات کی جائے‘ وہ درج ذیل ہیں؛
ایک فلم‘ مودی اور بھارت
بھارت میں فلمیں بنانے کی شرح دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ویسے ہی زیادہ ہے جیسے ٹی ٹونٹی کرکٹ میں فی اوور اوسط رنز بنانے کی شرح ٹیسٹ میچ سے زیادہ ہوتی ہے۔بھارتی فلم انڈسٹری بعض اوقات ایسی فلمیں بھی بناتی ہے جن کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا یااُس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بھارت کی پاکستان کے حوالے سے بنائی جانے والی فلمیں سرفہرست ہیں۔ لیکن اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر مملکت ہونے کے دعوے دار ملک نے اپنے وزیراعظم پر ایک عالمی نشریاتی ادارے کی جانب سے بننے والی دستاویزی فلم پر وبال کھڑا کیا ہوا ہے جس کا ردِ عمل الٹا ہی آ رہا ہے۔ انٹر نیٹ کی اس جدید دنیا میں‘ بھارت میں اس دستاویزی فلم پرپابندی کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے سورج کی روشنی سے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک چھتری سے چھپانا۔ اگر بھارتی حکومت اس فلم کے خلاف ویسی حرکتیں نہ کرتی‘ جو وہ کر رہی ہے تو اس فلم کا اتنا چرچا نہ ہوتا جتنا اب ہو رہا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری رکھنے کی دعوے دار بھارت سرکار کو کرنا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے مقابلے پر ایک ایسی فلم بنانے کا اعلان کرتی جن میں اس دستاویزی فلم میں بیان حقائق کو کائونٹر کیا جاتا تو شاید کچھ فرق پڑ جاتا لیکن عقل پر پردہ پڑنا خراب قسمت کی پہلی اور بڑی نشانی ہوتی ہے۔ اب اس فلم کے نتیجے میں بھارت میں بننے والی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بھارت کے اندر دیگر داخلی و خارجی مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وہاں کی حکومت کو پہلے ان پر توجہ دینی چاہیے۔
اس صورتحال کا ایک رخ اور بھی جس پر بھارت سرکار کو غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن بظاہر اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ وہ یہ کہ مغربی میڈیا میں ایسی خبریں بھی چھپی ہیں جن میں بھارت کو ایک متشدد ملک کے طور پر ایک خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ خبروں میں بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کا تشدد پسندوں کے ہاتھوں غلط استعمال کے خطرے کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ اسی موقع پر مذکورہ دستاویزی فلم کا آنا بھارت کے لیے کوئی کچھ اچھا شگن نہیں ہے جبکہ بھارت امریکہ اور مغربی طاقتوں کی ایما پر چین کے خلاف ایک سرد جنگ کا حصہ بھی ہے لیکن ایک بات بھارت پتا نہیں کیوں‘ سمجھ نہیں پا رہا کہ مغربی طاقتیں ایشیا کے اندر محاذ کھول کر‘ ایشیائی ممالک کو استعمال کرکے پھر چھوڑ دیتی ہیں اور اب باری بھارت کی ہے۔
نفاذِ اردو تحریک اور عدالتی فیصلہ
پاکستان میں قومی زبان کے نفاذ کی تحریک کا سلسلہ کبھی رکا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی ایک عدالتی فیصلہ آیا تھا لیکن اردو کو سرکاری زبان کے طور پر تب بھی نافذ نہیں کیا جا سکا۔اب بھی لاہور ہائی کورٹ نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا حکم جاری کیا ہے لیکن ایسا ہونا بظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں گزارش یہ ہے کہ تاحال پاکستان میں خواندگی کا معیار یہ ہے کہ جو شخص ایک پیراگراف لکھ یا پڑھ سکتا ہو‘ اس کو خواندہ گنا جاتا ہے۔ اب یہ صلاحیت پرائمری تک کی تعلیم کے بعد حاصل ہو ہی جاتی ہے اور پرائمری پاس شخص محض اپنی زبان ہی میں لکھ یا پڑھ سکتا ہے۔ ان حالات میں سرکاری زبان کا اردو ہونا ناگزیر ہے لیکن نہیں جناب‘ ابھی تک اس ملک میں اردو سرکاری زبان نہیں بن پائی۔ یہاں پر ایک پرانا واقعہ یاد آرہا ہے جب ایک صوبائی حکومت نے اردو کو دفتری زبان کے طور پر اختیار کرنے کا حکم جاری کیا لیکن یہ حکم نامہ بھی انگریزی میں جاری کیا گیا۔ اب کسی بھی ملک یا قوم کی اپنی زبان سے وابستگی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ وابستگی اس کی نفسیات میں اتنی گہری ہوتی ہے کہ انسان کے لاشعور میں یہ عقیدے کے بعد دوسرا درجہ رکھتی ہے۔ بعض ملکوں میں قومی زبان ان کی مادری زبان ہی ہے‘ ایسی صورت میں اس قوم کی اپنی زبان سے وابستگی کسی عقیدے سے کم نہیں ہوتی ہے۔ جاپان اور چین اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ لسانیات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایک شخص کو جو عبور اپنی مقامی زبان پر ہوتا ہے‘ وہ ہر ممکن کوشش کرنے کے باوجود بھی کسی غیر مقامی زبان پر نہیں ہو سکتا۔
اب اس سلسلے میں ایک گزارش‘ جو جذبات کے بجائے منطق پر دلالت کرتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ انگریزی ایک عالمی زبان ہے۔ چین جیسی عالمی طاقت کو بھی جب اپنا پیغام دنیا کو دینا ہوتا ہے تو وہ انگریزی ہی کا سہارا لیتا ہے۔ اب یہاں معاملہ بہت واضح ہو جاتا ہے کہ دفتری و سرکاری طور پر تو اردو ہی کو نافذ کریں لیکن انگریزی کو پہلی کلاس سے ایک زبان کے طور پر ضرور پڑھانا شروع کر دیں تاکہ اقوام عالم کا مقابلہ کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ واضح رہے عالمی میڈیا کی سب سے بڑی زبان بلا شرکت غیرے انگریزی ہی ہے اور جدید علم کی کتب بھی نمایاں طور پر اسی زبان میں شائع ہوتی ہیں۔ اس لیے ایک زبان کے طور پر اس کو اپنا لینا کوئی عیب نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ایک گزارش یہ بھی ہے کہ اردو زبان کو جدید خطوط پر بھی استوار کریں۔ اس کی ایک بڑی مثال نئے الفاظ کی ایجاد کیساتھ ساتھ‘ غیر زبانوں کے اپنائے گئے الفاظ کو اردو میں لکھنا بھی ہے۔ آپ انگریزی کے لفظ Eliteکی مثال لے لیں۔ اس کو اردو میں ''ایلیٹ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اب اس لفظ کو اردو میں ''الیٹ‘‘ لکھا جانا چاہیے‘ مطلب ایک ''ی‘‘ جو الف کے بعد آتی ہے‘ لکھنے سے لفظ کا تلفظ بدلتا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات بگڑ بھی جاتا ہے۔ اس کی سب سے خطرناک مثال انگریزی کے لفظ Burstکی ہے جو ٹائر پھٹنے کے لیے اور لگاتار فائرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے‘جیسے کہا جاتا ہے کہ ملزموں نے Burst مارا لیکن اردو میں اس لفظ کو 'برسٹ‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے جو سرا سر غلط ہے۔ اس لفظ میں'' ر‘‘ کی ادائیگی کو روکنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا آئے روز Burst والی فائرنگ کے واقعات کو روکنا۔ اس کے بعد سکول کو اسکول لکھنا اور ہسپتال کو اسپتال لکھنا کی درستگی اور وضاحت صاحب زبان لوگوں کی رہنمائی میں ہونا ضروری ہے۔ آخری گزارش یہ ہے کہ انگریزی میں سالانہ بنیادوں پر ہزاروں نئے الفاظ شامل ہوتے ہیں۔ ان الفاظ کا ترجمہ جنگی بنیادوں پر اردو زبان میں ہونا ضروری ہے۔ اور کچھ نہ بھی ہو‘ اردو زبان میں انگریزی کے الفاظ رائج ہوتے جارہے ہیں۔ چاہے آپ ان کو اردو میں ہی میں لکھتے اور بولتے ہیں۔ اس سلسلے میں طلبا و طالبات میں ترجمہ کرنے اور نئے الفاظ کے مقابلے کروانا بھی ایک اچھی تجویز ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved